وطن نیوز انٹر نیشنل

کورونا کی وبا میں ہتھیاروں کی دوڑ

افکار تازہ

عارف محمود کسانہ
پوری دنیا میں کورونا کے مہیب سائے چھائے ہوئے ہیں اور لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پوری دنیا میں لوگ سہمے ہوئے اور خوف ذدہ ہیں۔ انسانیت پر جدید دور میں اس پہلے کبھی ایسا مشکل وقت نہیں آیا۔ہر کوئی زندگی بچانے اور اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے جدوجہد کررہا ہے۔ 2019 ء سے اب تک یہ قاتل وائرس لاکھوں انسانی زندگیوں کو نگل چکاہے۔لیکن ان حالات میں بھی دنیا کے بڑے ممالک اسلحہ اور فوجی سازو سامان کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت کے لئے جانے کے برسر پیکار ہیں۔ سویڈن میں قائم عالمی شہرت یافتہ تھینک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیش ریسرچ انسٹیٹیوٹ SIPRI نے سال 2021ء کی اپنی سالانہ رپورٹ میں اس امرپر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ 2020ء سال میں عالمی وبا کے باوجود دنیا کے ممالک میں فوجی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا انسانوں کو اپنی تباہی کے لئے مزید گولا بارود کی ضرورت ہے؟
بین الاقوامی ساکھ رکھنے والے سویڈش ادارہ کے مطابق گذشتہ سال عالمی سطح پر فوجی اخراجات پر 1980 ارب ڈالر خرچ کئے گئے جو سال 2019ء کے مقابلے میں 2.6 فی صد زیادہ ہے۔کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا میں کل جی ڈی پی میں 4.4 فی صد کمی ہوئی لیکن اس کے برعکس فوجی اخراجات میں بہت اضافہ ہوا۔ فوجی اخراجات پر دنیا کے پانچ بڑے ممالک امریکہ، چین، بھارت، روس اور برطانیہ نے کل اخراجات کا 62 فی صد خرچ کیا۔ان پانچ ممالک کے بعد سعودی عرب، جرمنی، فرانس، جاپان اور جنوبی کوریا پہلے دس بڑے ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ امریکہ نے گذشتہ سال اپنے فوجی اخراجات پر 778 ارب ڈالر خرچ کئے اور اس نے 2019ء کے مقابلے میں ساڑھے چار فیصد زیادہ اخراجات کئے۔ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ اپنے دفاعی اخراجات کے بجٹ مختص کرتا ہے جو پوری دنیا کے کل اخراجات کا 39 فی صد ہے۔ سویڈش تھینک ٹینک کے مطابق امریکہ نے یہ پالیسی چین اور روس کی وجہ سے اختیار کی ہے، جنہیں وہ اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے۔
فوجی اخراجات پر سب زیادہ خرچ کرنے والوں میں بھارت کا تیسرا نمبر ہے اور اس نے پچھلے سال تقریباََ 73ارب ڈالر خرچ کئے جوکہ سال 2019 ء کے مقابلے میں دو فیصد سے زائد ہے۔ بھارت میں جہاں عوام بنیادی ضرویات کو ترس رہی ہیں اور کووڈ کی وجہ سے انہیں علاج معالجہ کی سہولتیں نہیں مل رہیں۔ وہ آکسیجن کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ انہیں اپنی حکومت پر شدید غصہ ہے کہ وہ انہیں علاج معالجہ کی سہولتیں اور آکسیجن کیوں نہیں مل رہی۔ اگر بھارتی عوام کو یہ علم ہوجائے کہ ان کی حکومت نے فوج پر 73 ارب ڈالر جو کہ بھارتی روپیہ میں تقریباََ 54 کھرب بنتے ہیں، خرچ کئے ہیں تو ان کا غصہ مزید شدید ہوجائے گا۔ جس ملک میں عوام کی اکثریت غربت کی زندگی بسر کررہی ہو اس کا اتنے بڑے فوجی اخراجات کرنا عوام دشمنی ہے۔ بھارت اگر اس فوجی بجٹ کا دسواں حصہ بھی کووڈ سے نبٹنے کے لئے رکھتا تو آج اس کی عوام کو علاج اور آکسیجن کے لئے خوار نہ ہونا پڑتا۔ بھارت صحت کے مقابلے میں فوجی اخراجات پر اپنے جی ڈی پی کا زیادہ خرچ کرتا ہے۔ عوام کی خوشحال زندگی کے لئے فوجی اخراجات کی نہیں بلکہ تعلیم اور صحت پر بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا دراک ہونا چاہیے۔
سویڈش ادارے سپری کے مطابق پاکستان کا فوجی اخراجات کے حوالے سے دنیا میں 23نمبر ہے اور گذشتہ سال اس نے اپنے دفاعی اخراجات پر 10.4 ارب ڈالر خرچ کئے جو کہ سال 2019ء کے مقابلے میں تقریبا 3 فی صد کم ہے جوکہ ایک خوش آئند بات ہے اور اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔ عالمی فوجی اخراجات کے تناسب میں بھی پاکستان کا حصہ صرف نصف فی صد ہے۔ پاکستان کی نسبت ایران اپنے دفاعی خراجات پر زیادہ خرچ کرتا ہے اور سال 2020 ء میں اس نے تقریباََ 16ارب ڈالرخرچ کئے۔ اسرائیل کا س فہرست میں چودواں نمبر ہے اور اس نے تقریباََ 22 ارب ڈالر خرچ کئے۔ سویڈن جس نے تین سو سال سے کسی بھی جنگ میں حصہ نہیں اور نہ ہی اسے کوئی دفاعی چیلنج درپیش ہے، گزشتہ سال اس نے ساڑھے چھ ارب ڈالر فوجی اخراجات کی مد میں مختص کئے اور اس طرح عالمی شمار میں اس کا نمبر 32 واں بنتا ہے۔سپری کی رپورٹ میں پہلے پندرہ ممالک میں امریکہ، چین، انڈیا، روس، برطانیہ، سعودی عرب، جرمنی، فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اٹلی، اسٹریلیا، کینڈا اسرائیل اور برازیل شامل ہیں جو دنیا کے کل فوجی اخراجات کا 81 فیصد حصہ رکھتے ہیں جبکہ دنیا دیکر تمام ممالک صرف 19 فیصد اپنے دفاعی اخراجات پر لگاتے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
سویڈش ادارہ دنیا بھر میں تنازعات اور مسلح تحاریک کے بارے میں بھی تحقیق کو اپنی سالانہ رپورٹ میں شامل کرتا ہے۔ جموں کشمیر کی صورت حال اور گذشتہ دو سال میں پاک بھارت محاذ آرائی بھی سالانہ رپورٹ کا حصہ ہے۔ بھارے کی جانب سے جموں کشمیر میں کئے گئے اقدامات کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی کہ جب بھارت نے پاکستان پر فضائی جارحیت کی تو پاکستان کو اقوام متحدہ میں حمایت نہ مل سکی اور نہ ہی پاکستان مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ SIPRI کے مطابق دنیا کو مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ اس کے حل کے لئے کوئی کوشش کریں گے۔ حکومت پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو سوچنا ہو گا کہ عالمی رائے عامہ کو کس طرح مسئلہ کشمیر کی حمایت کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔ جب تک جموں کشمیر کے عوام خود بین الاقوامی سطح پر یہ مسئلہ نہیں اٹھائیں گے، عالمی رائے عامہ توجہ نہیں دے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں