وطن نیوز انٹر نیشنل

مذمت اوراسلاموفوبیا ایک ہی سکے کے دو رخ

shahbaz
مذمت دورِجدید کی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی آڑمیں مظلوموں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز،روح فرسااور شرمناک ظلم کو منظرعام سے غائب کیا جاتا ہے ۔ اس لفظ سے انصاف کی ہر کوشش کو ہائی جیک کیا جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے مظلوم کو ظلم کی چکی میں میں پسنے کے لئے چھوڑدیاجاتا ہے۔انسانیت کا ایک کثیر طبقہ جل کرراکھ بنا دیا گیا ِ،گھروں سے بے گھر کر دیا گیا،جن کے بدن کو درندوں نے نوچ ڈالااور جن کو سمندروں اور صحراؤں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا گیا لیکن دنیا نے اپنا فرض صرف مذمت کرکے پورا کیا جس سے نہ ظلم رکا نہ ظالم ہٹا بلکہ ظلم مزید شدید اورظالم بے باک ہوا ۔اقوام متحدہ تو قائم ہی اسی مقصد کے لئے کیاگیاتھاکہ ایک طرف سے ظلم جاری رہے اور دوسری طرف سے یہ ادارہ مزمت کے جھوٹے آنسوبہائے۔آئے دن اس دنیا میں مسلمانوں کی ساتھ اسلام کی وجہ سے کی جانے والی زیادتی سے کون واقف نہیں لیکن تعصب ،نفرت اور حسد جیسے صفاتِ رزیلہ کی حامل دنیا کا ایک طبقہ ابلیس کے دامِ فریب میں گرفتار ہوکرآئے دن اس دنیا کو بدامنی کی آماجگاہ بنانے پر تلا ہوا ہے ۔آخر اس حضرت انسان کو کس چیز کے حرص نے آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھا کر دیا ہے،گوشت سے بنا ہوا دل رکھنے کے باوجود پتھر سے زیادہ سخت کیا ہے ،کھوپڑی میں 1500گرام کا مغز رکھنے کے باوجود حواس باختہ کیا ہے اور تقویمِ احسن رکھنے کے باوجود اسفل سافلین کا پیکر بنایا ہواہے؟مشرق سے لیکر مغرب تک مسلمان آخری دین و شریعت کے حامل ہونے کی وجہ سے ستائے اور مارے جارہے ہیں ۔مسلمانوں کے خلاف ا س نفرت آمیز رویہ کو دنیا نے اسلاموفوبیا کے نام دے کر ایک ایسی بحث چھیڑی ہے کہ ہرملک میں اس بات پرسنجیدگی کے ساتھ غورکیا جارہا ہے کہ واقعی دنیا کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ ہے بھی یا نہیں ؟وہ ملت جسے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ جیسے کام پر مامور کیا گیا تھا تاکہ دنیا امن و سکون کی آماجگاہ بنے آج دنیا کی نظروں میں بدامنی کا باعث بنی ہوئی ہے اور دنیا کی بے شمار تنظیمیں انہیں شک کے دائرے میں لے کر موضوعِ تحقیق بنا رہی ہیں ۔دنیا کا یہ مسلم و اسلام خلاف رویہ کوئی اچھی بات نہیں کہ جسے کلی طور پر نظر انداز کیا جائے ۔اس رویہ سے دنیا میں ایک عالمگیر ہلچل پیدا ہونے کا قوی امکان ہے کیونکہ اسلاموفوبیا جیسے لفظ کی آڑ میں لےکے مشرقی و مغربی حکومتیں دو بیلین آبادی کو چھیڑنے کے لئے اپنی منحوس حماقت پر اتر آئیں ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کو یکسر انداز کر رہی ہیں ۔آئے دن اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و دشمنی پیدا کی جارہی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک ،جبر واستبداد اور قتل و غارت گری کے اندوہناک اعمال انجام دئے جاتے ہیں ۔اس لئے اسلاموفوبیا دانشوروں کے لئے باعثِ تشویش ہے ۔مغرب میں تو یہ موضوع ایک شعبہ کے طور متعارف ہو چکا ہے جس میں باضابطہ محققین پی ایچ ڈی کررہے ہیں ۔گیارہ ستمبر کے حملوں سے پہلے اسلاموفوبیا مغربی دنیا میں موجود تھا لیکن اس میں شدت اور معروفیت سابقہ دو دہائیوں سے بھڑھتی جا رہی ہے ۔اسلاموفوبیا کا تصور برطانیہ کی رینی میڈ ٹرسٹ نے 1997 میں دیا ان کی ڈیفینیشن کے مطابق اسلاموفوبیا مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد زیادتی کا نام ہے ۔گیارہ ستمبر کے بعد اسلاموفوبیا مغرب میں ایک گرما گرم موضوع بن گیا جس کی وجہ سے وہاں کی حکومتوں کو مسلمانوں کے متعلق سوچنا پڑا کہ واقعتاً مسلمانوں سے ہماری تہذیب وتمدن کو کوئی خطرہ ہے بھی یا نہیں اوراس پہلو پر غور کرنے کے لئے کمیشن اور تھنک ٹیکس کو ذمہ داری دی گئی ۔ 2011 میں یو نائٹڈ نیشن آیلائنز آف سیویلائزئشن اور لیگ آف عرب اسٹیٹیس کی میٹنگ میں اسلاموفوبیا کوواقعی ایک اہم ترین مسئلہ قراردیاگیا ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری
جنرل گٹیرس نے دورہ سعودی عرب کے موقعے پر اسلاموفوبیا کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا ۔دراصل اسلاموفوبیا مغرب میں ایک نفسیاتی بیماری نیلوگزم کی ایک شکل طور پر پھیل رہی ہے جس میں مریض کوئی اجنبی شئے دیکھ کر ڈر اور خوف محسوس کرتا ہے ۔اس بیماری کو پھیلانے مغرب کا احمق الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اہم رول ادا کر رہا ہے ۔مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کی ایک بھیانک اور وحشیانہ تصویر بنا کر پیش کرتے ہوئے اسلام کو مغربی تہذیب وتمدن اور مغربی دنیا کا سب سے خطرناک دشمن بنا کے پیش کرنے میں حد سے تجاوز کر چکا ہے۔
مغرب میں اکثر مسلمانوں کی رائے ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کی عزت نہیں کی جاتی ۔گیلپ کی سروے کے مطابق 52 فیصد امریکی ،38 فیصد برطانوی اور 48 فیصد کینیڈئین مسلم یہ کہتے ہیں کہ مغرب مسلمانوں کی عزت نہیں کرتا ۔اسلاموفوبیا کے اس معاملے میں مغرب میں کچھ خفیہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کا کام ہی اسلام اور مسلمانوں کے متعلق غلط فہمی پھیلانا ہے ۔ 2019 میں ناروے میں اسٹاپ اسلامائزئشن آف ناروے نامی اسلام مخالف تنظیم نے قرآن کی بے حرمتی کرنے کے حوالے سے ایک ریلی کا اہتمام کر کے قرآن پاک کو جلانے کی کوشش کی تھی ۔اس کے بعد سویڈن میں اگست 2020 ءکو انتہائی دائیں بازو کی تنظیم کے کارکنوں نے قرآن کے ایک نسخے کو جلادیا ہے ،اس عمل کو فلمایا اور پھر آن لائن پوسٹ کر دیا ۔کینیڈا میں رواں ماہ ایک ہی خاندان کے چار افراد کو دہشت گردی کے واقعے میں ٹرک چڑھا کر اس وقت موت کی نیند سلا دیا جب وہ سڑک کنارے واک کر رہے تھے ان کا جرم صرف اتنا ہی تھا کہ وہ مسلمان تھے۔ اسپین میں حال ہی میں مسجد پر حملہ کرکے اسے آگ لگانے کی کوشش کی گئی البتہ مقامی لوگوں اور پولیس کی بروقت کارروائی سے نقصان بہت کم ہوا ۔اسلاموفوبیا کے حوالے سے دنیا میں پیش آنے والے دہشت گردانہ واقعات کی فہرست کافی طویل ہے لیکن یہاں چند ایک کا ذکرکرکے حالات کی سنگینی کا اندازہ کرنے کے لئے کافی ہیں ۔
دینا بھر میں اس لفظ کی آڑ میں عوام الناس کو اجاگر کیا جا رہا کہ اسلام سے حقیقی طور پر دنیا کو خطرہ ہے اور اس بیانیہ کوتقویت پہنچانے کے لئے مسلم دنیا کی ہر جنگ (افغانستان سے1 لیکر شام و یمن تک)کو مستقبل کا متوقع منظر نامہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے کہ دیکھو پوری مسلم دنیا اس مذہبِ اسلام کی وجہ سے تباہی سے دو چار ہے اس لئے پوری دنیا کو اسلام کے متعلق کوئی اقدام کرنا پڑے گا ورنہ وہ دن دور نہیں جب پوری دنیا ان کی وجہ سے اس جنگ کی لپیٹ میں آئے گی لیکن تعجب کا مقام ہے کہ مذکورہ اعلان کرنے والے ان ممالک میں جنگ کی آگ کو مسلسل بھڑکائے ہوئے ہیں ۔ اسلاموفوبیا مغرب میں بس یونہی پیدا نہیں ہوا کہ جس کی کوئی وجوہات نہ ہوں ۔دراصل اسلاموفوبیا کی اصلی وجہ اسلام کا تیزی کے ساتھ دن بدن پھیلنا ہے جس سے مغرب بالکل مطمئن نہیں ہے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی آبادی دو بیلین سے زیادہ ہوچکی ہے اور اسلام ہر سال 3 فیصد کے حساب سے بڑھتا جارہا ہے ۔اسی رفتار سے پھیلنے کی وجہ سے اسلام 2025 میں دنیا کا سب سے بڑا مذہب بنے گا ۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں عیسائی دن بدن عیسائیت سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ان کے اندر مذہب کا رجحان ایک خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے ۔اس حوالے سے معروف تجزیہ نگار مفتی سمیع اللہ ملک صاحب لکھتے ہیں :” صرف برطانیہ میں 2001 سے لیکر اب تک 500 گرجا گھر بند ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ لوکل اتھارٹیز کی قانونی اجازت کے بعد 493 مساجد معرض ِ وجود میں آچکی ہیں ،جہاں صرف توحید و رسالت اور دنیا کی سلامتی کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کو آباد کیا بلکہ تمام مذاہب ،رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر لوکل کمیونٹی کے رفاہ عامہ کے کام بھی بخوبی سرانجام دے رہی ہیں جس کو یہاں بہت سراہا جاتا ہے ۔۔۔” لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کا رجحان اسلام کے تئیں زیادہ ہے ۔
برطانیہ کی برٹش ہیومنسٹ ایسوسیئیشن کے مطابق برطانیہ میں دو تہائی لوگ اپنے آپ کو مذہبی نہیں مانتے ہیں ۔ایک دوسری سروے کے مطابق 2005 میں 77 فیصد برطانوی اپنے آپ کو عیسائی مانتے تھے جبکہ 2010 میں صرف 70 فیصد لوگ عیسائی ہونے کا دعوٰ ی کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ میں لامذہبوں کی تعداد بھی 15 سے 21 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔اس پوری صورتحال میں اسلام برطانیہ میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔2009 میں سی این این کی ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق آمریکہ 20 سال پہلے کے مقابلے میں کم عیسائی ملک ہے جہاں میں75 فیصد لوگ اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں اور جبکہ یہی فیگر 1990
میں 86 فیصد کی تھی ۔پیو ریسرچ سینٹر سٹیدی کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے ۔رپورٹ کے مطابق 10 فیصد یوروپئین 2050 تک مسلمان ہو جائیں گے ۔رپورٹ کے مطابق 2010 سے لیکر 2050 تک مسلمان دنیا میں 73 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوگا جبکہ عیسائیت 35 میں فیصد اور ہندومت صرف 34 فیصد اضافہ ہونے کا امکان ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اس صدی کے اواخر تک دنیا کے سب سے بڑےمذہب کے طور پرابھرے گا اور 2060 تک دنیا کی 31فیصد آبادی مسلمانوں کی ہوگی ۔
لیکن دنیا میں ظالم طبقات کریں جتنا ظلم کرتے ہیں اور منافق طبقات دل کھول کر کرکسی پہ بیٹھ کے جتنی مزمت کرنا چاہیں کریں لیکن آخرکار عدالتِ ایزدی قائم ہونی ہے ،انصاف کا بول بالا ہونا ہے ،مظلوم کی دادرسی ہونی ہے اور ظالم کو اس کے کئے کی سزا ملنی ہے ۔ہر شخص کا اندرون اور نیت دیکھی جائے گی ،ہر ایک کی سعی اور جہد کو جانچا جائے گا اور ہر ایک سے جملہ حرکات کے متعلق پوچھا جائے گا ۔ حاکم سے محکوم سے ،جج سے وکیل سے،صدر سے بادشاہ سے، وزیر اعظم سے جرنیل سے اور ہر ذی شعور سے اس کی ناانصافیوں کے متعلق کڑا حساب لیا جائے گا جس کی وجہ سے وہ چلائیں گے :” کہ کاش! ہم پھر واپس کیے جائیں ( کہ مانیں ) اور اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ایمان والوں میں سے بنیں ۔”الانعام۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ…….اے کافرو! آج کے دن کوئی عذر پیش نہ کرو، بس تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو کرتے رہے تھے۔ سورۃ التحریم، آیت نمبر 7۔​

اپنا تبصرہ بھیجیں