وطن نیوز انٹر نیشنل

اردغان سے بلبن تک! ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی.

اردغان سے بلبن تک!
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
علامہ اقبال بانگ ِ درا میں”فاطمہ بنت عبداللہ” کے عنوان سے اپنی نظم میں اس عرب دوشیزہ کو خراج ِ عقیدت میں پیش کر تے ہیں جو ایک تاریخی کردار ہے۔ فاطمہ اطالوی۔ تُرک جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے پلاتے شہید ہوگئی ۔ ان کے جذبے کو سلام پیش کر تے ہوئے انہوں نے سو فی صد دُرست فرمایا تھا
یہ کلی بھی اس گلستان ِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
گزشتہ دنوں استنبول ترکی کے یونیسیکو کی طرف سے تسلیم شدہ عالمی ورثہ آیا صوفیہ عجائب گھر کو تقریباً چھیاسی سال بعد مسجدمیں بدل دیا گیا۔ ملت کے موجودہ گلستان ِ خزاں منظر میں یہ علامتی تبدیلی تُرک صدر طیب اردغان کی صدارتی حکم نامے سے ممکن ہو ئی۔ اردغان بھی ہمارے خاکستر میں چھپی ایک چنگاری ہیں۔ اس مسجد کو خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط پر کمال اتاتُرک نے 1934ء میں موزئم بنایا تھا۔ چونکہ کما ل اپنی قوم کے قلب وذہن سے اسلام کے آثار وعلائم بزور طاقت مٹانے کا ہدف رکھتا تھا، ا س لئے اس سے یہی توقع کی جاسکتی تھی ۔ تاریخ کا چکر دیکھئے کہ ا سی تُرکی میں آج احیائے اسلام کی خوشگوار ہوائیں چل رہی ہیں ، مسلم آبادی واپس اپنے دین کی طرف مراجعت کر رہی ہے اور اپنی جڑوں سے پیوست ہوکر طائرک بہار ہونے کے خواب دیکھ ر ہی ہے ۔ ترکی کے صدر ا سلام کے ا ن تازہ جھونکوں کو بادِ بہاری کی شکل دینے میں کئی سال سے کوشاں ہیں ۔ انہوں نے اُسی طرح اپنے انتخابی منشور میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ بر سر اقتدار آنے کی صورت میں وہ آیا صوفیہ میوزئم کی اصل حیثیت بحال کر کے اسے مسجد بنائیں گے جیسے بھاجپا نے انتخاب میں جیتنے کی شرط پر بابری مسجد کو رام مندر بنانے کا وعدہ ہندوتو جنتا سے کیا تھا۔ اپنا وعدہ وفا کر تے ہوئے اردغان نے میوزئم کو اب ختم کرکے یہاں خانہ ٔ خدا آباد کیا ۔ 537ء میں یہ ایک کلیسا کے طور تعمیر ہوا، جسے فاتح استنبول ( سابقہ قسطنطنیہ)محمد دوئم نے 1453ء میں اسے مسجد میں بدل دیا۔ کمال پاشا نے صدیوں بعد اسے عجائب خانہ بنایا۔ اب مسجد کے طور بحال ہونے کے بعد یہاں کے منبر ومحراب سے پنچ وقتہ اذانیں اپنی دل گداز گونج سے دلوں میں اللہ کی کبریائی کا نقش بٹھاتی ہیں ۔ صدر اردغان نے اس تاریخ ساز اقدام سے بجاطور ملک کی مسلم آبادی کی دیرینہ مانگ پوری کی مگر یہ معاملہ تُرکی تک محدود نہ رہا بلکہ عالم اسلام میں ا س سے بوجوہ خوشی کی لہر دوڑگئی۔
مسلمان ا س و قت دنیا میں پٹ رہے ہیں، ایسے میں آیا صوفیہ مسجد کی بحالی مسلمانوں ایک مژدہ جان فزاء ہے ۔ اس بات کے ہم سب واقف کار ہیں کہ سوویت یونین بکھر جانے کے ما بعد مغرب کی قیادت میں تہذیبوں کی یک طرفہ جنگ اُمت ِمسلمہ پر جابجا تھوپی گئی ہے۔ یہ جنگ کہیں جنگ وجدل کی صورت میں مسلمانوں کی آبادیاں تہ تیغ کررہی ہے ، کہیں کلمہ خوانوں کی معاشی رَگیں کاٹی جارہی ہیں، کہیں ان کے دینی تشخص پر کاری ضربیں لگارہی جارہی ہیں ، کہیں اسلاموفوبیا کی آگ بھڑکائی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ، مگر قدرت ِ خداوندی کا یہ منظر بھی قابل دید ہے کہ تمام اوچھے آزمانے کے باوجود دیارِ مغرب سے لوگ بلا ناغہ اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے میں سبقت لے رہے ہیں ، اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی پھیلنے والا دین بناہوا ہے ۔ حق یہ ہے کہ باطل کے اماموں اور ناحق کے مقتدیوں کو اصلاً دھڑکا لگا ہے کہ شاخ ِ نازک پر تعمیر اُن کی سرمایہ دارانہ تہذیب اور کفر و الحاد کا فکری و نظریاتی مقابلہ کر نے کی اگرکسی میں دَم خم اور ہمت ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔اسی” خطرے” کو اپنے گلے کی پھانس محسوس کر تے ہوئے ائمہ کفر و زندقہ دین اسلام کی ابدی صداقتوں کی تکذیب کر نے کا من پسند مشغلہ ہر محا ذ پر اپنا ئے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کو رجعت پسند، ترقی دشمن ، دہشت گرد ، نیم وحشی،جاہل ، گنوار ، اُجڑ ، جمہوریت مخالف، مساوات ناآشنا، بشری حقوق سے نابلد ، سماجی تکثیریت کے منکر بتانے کی جاہلانہ الزم تراشیاں اسی شجرِ خبیثہ کے ثمرات ہیں ۔ جھوٹ پر مبنی اس بیانیے پر سچ کا ٹھپہ ڈالنے کے لئے ان ”سیانوں” کا شر پسند میڈیا ( یہودی میڈیا کہنا صحیح ہوگا) خاص کر رات دن اسلام کی غلط تصویر پیش کر نے اور مسلمانوں کی کردار کشی کرنے میں پیش پیش ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نامساعد حالات کے اسی چلچلاتی دھوپ میں آج تُرکی بتوفیق ایزدی اُمید ِفردا بن کر مسلمانانِ عرب وعجم کے زخم زخم جذبات و احساسات کی مرہم کاری کئے جارہاہے ۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی چیرہ دستیاں کا منہ در منہ دندان شکن جواب ہو یا غزہ کے محصورین کا درد بانٹنے کی انسانیت نوازی یا کشمیر یوں سے ہمدردی، تُرکی نے ہمیشہ عالمِ اسلام سے اپنے خلوص وثبات کا لوہا منوایا ۔ ایک تازہ کڑی کے طور طیب اردغان کا آیا صوفیہ میوزئم کو واپس مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی مخلصانہ اقدام ہے۔ ٹھیک ہے یہ اسلام پر قطعی کوئی احسان نہیں مگر اس سے کچھ نہیں تو حوصلہ شکن فضا میںمسلمانوں کو بڑی دیر بعد کسی گوشے سے خوشی کی چند ساعتیں تو لازماًمیسر ہوئی ہیں ۔
تاریخ ِاسلام میں خیر القرون ہی دنیائے انسانیت کے لئے ایک ہمہ پہلو آئیڈیل زمانہ ہے ۔ اس عہد زریں کے لیل و نہار پر اسلام کےفیوض وبرکات کی جلوتیں قدم قدم پر حاوی تھیں ، لیکن اس کے بعد دورِ فتن اورعہد ِتخر یب میں تاریخ کا جو بے رحم سفر جارہی رہا، اس میں مسلمانوں کی ملکی فتوحات اور دیگر کار ہائے نمایاں ہماری تاریخ کا سر اُونچا ضرور کر تے ہیں ، باوجودیکہ ان فخریہ چیزوں کے بیچوں بیچ ملوکیت کی سیہ کاریاں، زوالِ اُمت کی نشانیاں ، آپسی سر پھٹول ،اقتداری رسہ کشی اور عوام وخواص کی اسلام سے برگشتگی جیسی فتنہ سامانیاں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ بایں ہمہ یاس و نومیدی کی اس طویل کالی رات میں ہمیں بسااوقات بعض اُمید افزاء کرنیں کئی ایک مسلم حکمرانوں کی تابندہ سیرتوں اور مقناطیسی شخصیتوں میں مبرہن نظر آتی ہیں۔اس کی زندہ مثال آج طیب اردغان کی صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ۔ یہ مٹھی بھر لوگ گویا طوفان میں چراغ کاحکم رکھتے ہیں ۔ان رفیع الشان لوگوں کی مثبت کاوشوں اور مخلصانہ سوچ سے عامتہ المسلمین میں یہ ثقہ یقین پیدا ہوجاتاہے کہ اسلام شخصیت سازی اور تعمیر سیرت کا اپنا کام برے سے برے حالات میں بھی جا ری وساری رکھتا ہے۔ ا س سلسلے میں تاریخ اسلام میں عمر بن عبدالعزیز کا نام نامی نمایاں ترین شخصیت کے طور جلّی حروف میں درج ہے مگر ان کے علاوہ بھی تاجِ اسلام میں ہمیں ایسے ہی قابل داد زبرجد ہر زمانے میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی پڑاؤ پر جڑے ملتے ہیں ۔ مثال کے طور پر خلفائے بنی عبا س کو ہی لیجئے ۔ مورخین ِاسلام بالعموم ہارون رشید کو خلافت ِبنو عباس کا رُجل ِعظیم گردانتے ہیں ، حالانکہ عزوشرف کا یہ تاج خلفائے بنو عباس میں اگر کسی کے سر باندھا جانا چاہیے تو وہ فنا فی الاسلام ابو جعفر منصور ہے ۔ اس کے مزاج میں تُرشی اور سخت گیریت ضرورتھی مگر اس کا پختہ عقیدہ تھا کہ اسلامی خلافت کا منصب صرف ملکی فتوحات، مادی ترقیاں اور علوم وفنون کی ترویج نہیں بلکہ خلافت کا کام عوام کے اعمال واخلاق کی دُرستگی ہے، یقین و اعتقاد کابچا ؤ ہے ، کسب حلال کے وسائل مہیا کرا نا ہے، سیاسی طاقت کو اتنا ناقابل تسخیر بنانا ہے کہ فتنہ وفساد کا قلع قمع ہو ۔ سلیم الطبع منصور کی نیک نہادی ، اسلام کے تئیں خلوص اور اس کے دفاع کا جذبہ اُس وصیت نامہ کے لفظ لفظ سے جھلکتا ہے جو اس نے اپنی موت سے کچھ دن قبل اپنے بیٹے مہدی کے سپر دکردیا تھا۔ اس میں اپنے ولی ٔ عہد کو مخاطب کر کے کیا لکھا ہے ، آپ بھی پڑھئے::
شہر بغداد کا خاص خیال رکھنا، میں نے بیت المال میں اس قدر روپیہ جمع کردیا ہے کہ اگر دس برس تک بھی تم کو خرچ کی رقم پوری وصول نہ ہو تو تمہیں کوئی نقصان نہ ہوگا۔ تم اس روپیہ کو لشکریوں کی تنخواہوں ، مستحقین کے وظائف وعطیات اور سرحدوں کے انتظامات پر خرچ کرنا، اہل خاندان اور اعزہ واقارب کے ساتھ صلہ ٔ رحمی اور ملاطفت کا معاملہ کر نا کہ انہی سے تمہاری عزت وآبرو ہے ، ہرکام میں تقویٰ وطہارت اور عدل و انصاف کا خیال رکھنا کیونکہ جس بادشاہ میں یہ اوصاف نہیں، درحقیقت وہ بادش1اہ ہی نہیں ، کسی معاملہ میں عور توں کو مشیر نہ بنانا اور جب تک کسی معاملہ میں خوب غور وخوض نہ کرلو’ اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہ لینا”۔
منصور کا قیاس تھاکہ اس کا بیٹا مہدی وصیت نامے پر عمل درآمد نہ کرے گا، اس لئے ہر جملے کے بعد تحریر کیا کہ: میرا گمان ہے کہ تم اسے نہیں کر وگے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ سلطان ِ ہند بنتے ہی مہدی نے خدمت ِدین کے جذبے سے زندقہ والحاد کا تعاقب کر نے میں اپنے طور کوئی کسرنہ چھوڑی۔
اسی نوع کی ایک اور روشن مثال ہمیں دلی کے تخت وتاج کے مالک ترکی الاصل قطب الدین ایبک کے آزاد کردہ غلام اور داماد سلطان شمس الدین التمش کی تابناک سیرت میں ملتی ہے۔التمش کی زندگی مثالی مسلم بادشاہ کی پُر وقار مرقع ہے ۔ چناںچہ التمش کے جانشینوں میں خود اُسی کے آزاد کردہ غلام اور بقول فرشتہ اس کے فرزند نسبتی اور ہندوستان کے فرماں روا غیات الدین بلبن ( دور ِ حکومت 1266ء تا 1287ء ) نے اس مثالی کردار کو آگے بڑھایا ۔ بلبن فراختائی نسل کا تُرک اور قبیلہ البری کا چشم وچراغ تھا، اپنے وطن ِمالوف کے فاتح ایک منگول سپاہی کے ہاتھ گرفتار ہوکر کسی سوداگر کے ہتھے بطور غلام چڑھا۔ سوداگر نے اسے بغداد کے متدین بزرگ خواجہ جمال الدین بصری کے ہاتھ مثل ِیوسف الصدیق بیچ کھایا۔ قسمت کی یاوری دیکھئے کہ خواجہ صاحب نے بلبن کو دلی لاکر سلطان شمس الدین التمش کی خدمت میں پیش کر کے منہ مانگی قیمت پائی۔ سلطان نے بلبن کو غلامان ِ چہل گانہ میں شامل کرلیا، بلکہ اس کی خداداد ذہانت وقابلیت کی بنا پر اپنے مقرب خادموں میں رکھا ۔ بلبن نہ کسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا ، نہ امورِ سلطنت وحکومت چلانے سے دور دور بھی اس کا کوئی واسطہ تھا، مگر التمش کی شہزادی رضیہ سلطان نے اسے امیر شکار بنایا۔ یہیں سے اس میں رموز ِ خسروا نہ کی سُدھ بدھ آگئی ۔ التمش کے جاں نشین مسعو دا ور ناصرالدین محمود کے دورِ سلطنت میں بلبن کو غیر معمولی حیثیت ملی۔ دونوں اس کے داماد تھے ۔ ناصرالدین محمو د نے اسے اپنا نائب بنایا۔منصب ِ جلیہ عطاکر تے ہوئے اس درویش صفت بادشاہ نے بلبن سے کہاتھا کہ میں نے تمہیں اپنا نائب مقررکیا ہے اور بندگان ِ خدا کی باگ تمہارے ہاتھ سونپ دی ہے، تم کوئی ایساکام نہ کرنا کہ مجھے خدا کے سامنے جواب دہ اور شرمندہ ہونا پڑے۔ یوں التمش کا چہیتا خادم غیاث الدین بلبن خان اعظم الغ خان کے خطاب سے منصب ِ وزارت پر بیٹھ گیا۔ بعد میں شہزادہ رُکن الدین فیروز شاہ،شہزادی رضیہ سلطانہ، بہرام شاہ، علاء الدین ، سلطان ناصر الدین محمود کے بعد بلبن سریرآرائے سلطنت ہوگیا۔ غیات الدین بلبن کا دور ِ حکومت 1266ء تا 1287ء تک قائم رہا۔ اس کی شاہانہ نمادُرویشانہ زندگی کا آئینہ کیا تھا، اس کی ایک جھلک بلبن کے ان سنہری الفاظ سے جھلکتی ہے جو انہوں نے اپنے شاہزادوں کے گوش گزار کئے :
” میں نے دو مر تبہ معز الدین محمد بہا ء الدین سام کی مجلس میں سید مبارک غزنوی سے سنا ہے کہ بادشاہوں کے اکثر افعال شرک کی حدتک پہنچ جاتے ہیں اور ان سے اکثر کام سنت ِنبوی صلی ا للہ علیہ و سلم کے خلاف میں سرزد ہوتے ہیں، لیکن اس پر بھی اگر ان چار چیزوں میں خلل پڑا تو اس سے بڑھ کر کوئی گناہ گار نہیں ہے ۔ اول یہ کہ بادشاہ کو چاہیے اپنی حشمت اور دبدبہ کو مناسب موقع و محل پر استعمال کرے اور خلق کی بھلائی اور خدا ترسی کے علاوہ کوئی اور بات اُس کے پیش نظر نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی طرح کی بدکاری کو ملک میں رائج نہ ہونے دے اور ہمیشہ فاسقوں اور بے غیرتوں کو ذلیل ورسوا رکھے۔ تیسرے یہ کہ سلطنت کے کام ہمیشہ عقل مندوں اور شائستہ لوگوں کے سپر دکرے۔ مخلوق کی باگ دیانت دار اور خداترس لوگوں کے ہاتھ میں دے ۔ بدعقیدہ لوگوں کو اپنے ملک میں قدم نہ جمانے دے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ انصاف میں پوری کوشش کرے اور ماتحتوں کے کاموں کو برابر عدل کی ترازو میں تولتا رہے تاکہ ملک میں ظلم اور جبر کانام بھی نہ سنائی دے۔ تم لوگ جو میرے جگر کے ٹکڑے ہو، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر تم سے کوئی عاجزاور ناچار پر ظلم کرے تو میں ظالم کو ضرور سزا دوں گا”۔
آج کی تاریخ میں اگر یہ درخشندہ مثال صدر ترکی طیب اردغان عملانے کی توفیق پاتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اُن کے لئے توشہ ٔ آخرت کیا ہو گا؟ اور ایسی مثالی شخصیت اُمت ِمسلمہ کے لئے غیر مترقبہ ہے ۔
نوٹ : ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں،رابطہ کیلئے 917006883587۔

اپنا تبصرہ بھیجیں