وطن نیوز انٹر نیشنل

نور مقدم قتل کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

نور مقدم قتل کیس: وہ قتل جس نے اسلام آباد کو ہلا کر رکھ دیا

22 جولائی 2021
نور مقدم
وہاں پر منظر ویسا ہی ہے جیسے کسی کے دنیا سے چلے جانے پر ہوتا ہے۔ باہر پورچ میں شامیانے لگے ہیں اور اُدھر مرد موجود ہیں اور اندر ڈرائنگ روم میں خواتین موجود ہیں۔
اتنے میں گھر کے مرد ڈرائنگ روم میں آئے تاکہ 27 سالہ نور مقدم کے جسد خاکی کو قریبی مسجد میں لے جا کر نماز جنازہ ادا کریں۔لیکن نور مقدم کی موت کی کہانی نہایت تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ طبعی موت نہیں تھی۔
تابوت میں کفن میں لپٹی نور کا سر تن سے جدا ہے اور یہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ وحشیانہ قتل کاایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی نور مقدم کو 20 جولائی کے روز قتل کر دیا گیا تھا جس میں پولیس کی تفتیش کے مطابق نور مقدم کو تیز دھار آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔ نور مقدم کے قتل کی ایف آئی آر اُن کے والد اور سابق سفیر شوکت مقدم کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں مقتولہ کے دوست ظاہر جعفر کو نامزد کیا گیا تھا۔
رخصت کے موقع پر گھر کے مرد خواتین کو دلاسہ دے رہے ہیں اور پھر نور کی والدہ اپنی بیٹی کے چہرے پر جھک کر کہتی ہیں میں نے اللہ کے حوالے کیا، میں نے اللہ کے حوالے کیا۔
یہ وہ الفاظ تھے جو وہ بار بار دہرا رہی تھیں۔
نور مقدم
نور کے ساتھ جو ہوا وہ ان کی والدہ کو کافی بعد میں بتایا گیا۔ وہ پوچھتی تھیں کہ گولی لگی ہے تو سب ان کو کہتے تھے ہاں۔مسجد جاتے وقت تابوت کو گاڑی میں رکھ دیا گیا اور وہاں موجود ہر فرد خاموش تھا، افسردہ اور شاک میں دکھائی دے رہا تھا اور ایسے جیسے کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔
اسلام آباد کے نیول انکریج کے علاقہ کی جامع مسجد میں نور کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور پھر وہاں سے انھیں تدفین کے لیے قبرستان منتقل کیا گیا۔وہیں پر نور کے والد، ان کے دوست اور عزیز اقربا موجود تھے ۔
سب انھیں دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی تکلیف اور دکھ پر پرسہ دے ر ہے تھے۔ان مشکل لمحات میں چلچلاتی دھوپ میں کھڑے وہ ایک ایک ملنے والے سے نہایت صبر سے ملتے لیکن پھر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

اپنا تبصرہ بھیجیں