وطن نیوز انٹر نیشنل

ہماری بقاء اور زندگی پاکستان ہے ،بابائے قوم ؒ کی چند یادگار تقاریر

قائد اعظم محمد علی جناحؒ صدر آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے کردار اور اُصول کی روشنی میں مسلمانانِ ہند کیلئے ایک آزاد منفرد اسلامی جمہوریہ مملکت کا تصوّر قائم کیا تھا۔اُن کا اُصول سیدھا سادھاتھا کہ صرف آل انڈیا مسلم لیگ ہی ہند کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے جو حصول آزادی کی حامی ہے اور جُدا مسلم ریاست اِس کا مشن ہے۔ کانگریس صرف ہندوئوں کی نمائندگی کرتی ہے اور وہ مسلمانوں کی کسی طرح نمائندگی نہیں کرتی۔آپؒ نے کانگریس کی اس پالیسی کو جانتے ہوئے حصولِ پاکستان کی کاوش کو تیز کردیا اور2نومبر1945ء کو فرمایا ’’ ہمیں ہر حالت میں پاکستان حاصل کرنا اور اس میں رہنا ہے اور اسی کیلئے وفا ہے۔ لہٰذا ہماری بقاء اور زندگی کا مسئلہ پاکستان ہے۔ اسی کیلئے کام کرنا ہے اور لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے کہ وہ پاکستان کے حصول کیلئے کام کریں۔‘‘ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 27اکتوبر 1945ء میں احمد آباد کی پبلک میٹنگ میں یہ فرمایاکہ’’ پاکستان تو ہماری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ میں زندہ بھی رہوں گا پاکستان کیلئے اور میری موت بھی پاکستان کے لیے ہو گی۔‘‘

قائد اعظم ؒکا کردار اورارادہ مضبوط اور حوصلہ بلند تھا۔ اپنے اور خُدا کے اوپر مکمل بھروسہ تھا، یہی وجہ تھی کہ کلکتہ کے بڑ ے جلسہ عام میں للکار کر کہا: ’’ہم انشاء اللہ جلد پاکستان حاصل کر کے اُس شاندار ملک میں زندگی گزاریں گے۔ بشرطیکہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد اور ڈسپلن پیدا کریں دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں آزاد ملک سے انکار نہیں کرسکتی۔ کیونکہ پاکستان حاصل کرنے کے بغیر مسلمانانِ ہند کی موت ہے۔‘‘

حصول پاکستان کیلئے قائد اعظمؒ مطمئن تھے وہ صرف اللہ اور جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔وہ بہت اونچے درجے کے سیاستدان تھے۔چنانچہ سٹینلے والپرٹ نے اُن کی سیاسی بصیرت اور دانائی کو یو ں بیان کیا :’’حکومت برطانیہ کی طرف سے کیبنٹ مشن جو23مارچ 1946ء کو لندن سے مذاکرات کیلئے پلان لے کرہندوستان آیا تھا محمد علی جناحؒ نے مذاکرات میں تقسیم ہند کے حق اور مسلمانوں کیلئے ایک علیٰحدہ وطن کیلئے ایسے دلائل دیئے اور ذہانت سے وہ نقطے اُٹھائے کہ سر پیتھک لارنس کو متعجب کر دیا۔‘‘سٹینلے والپرٹ اپنی کتاب’’ قائداعظم ‘‘کے صفحہ 260 پر لکھتے ہیں کہ جناح نے آئینی نقطے اور باریکیاں ایسے انداز میں پیش کیں کہ انگلستان کے چوٹی کے تینوں ممبران پیتھک لارنس، الیگزینڈر اور کرپس جناح کی ذہانت اور جواب کو رد نہ کر سکے۔ لہٰذا حصول آزادی کی جدوجہد میں جناح کی ذہانت دیانت، اُصول پرستی اور محنت شامل تھی۔

قائد اعظمؒ قرار داد لاہور کے بعد بڑے مطمئن تھے کہ ہماری آزادی کی منزل قریب ہے۔ وہ اعلانیہ کہتے تھے’’ ہم کسی صورت حصول پاکستان کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ ہمارا راستہ صحیح ہے۔ میں مسلمانوں سے روپیہ نہیں مانگتا۔ صرف حصول آزادی کیلئے اساس دوقومی نظریہ ، جُداگانہ انتخاب چاہتا ہوں۔‘‘ (6 اگست 1945ء بمبئی)

پاکستان کے حصول کیلئے اُن کا ایک ہی مطالبہ تھا جو 3اگست1945ء کو کراچی میں ایک نعرہ دیا تھا کہ ’’مسلمانانِ ہند مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے اکٹھے ہو جائیں اور یکجا ہو کر ہی منزل ِ پاکستان پا سکتے ہیں۔مسلمانوں نے نعرہ بنایا تھا۔’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘

آپؒ نے کہا ’’ہماری منزل پاکستان ہے اورآل انڈیا مسلم لیگ جماعت ہی صرف مسلمانوں کی نمائندگی کر سکتی ہے۔‘‘ گویا حصول پاکستان کیلئے مسلم قومیت کا تصور اُجاگر ہوا۔ دوقومی نظرئیے کو آگے بڑھانے کیلئے محنت ہوئی اور قائداعظمؒ اور مسلم لیگ کو فتح نصیب ہوئی۔ برٹش امپیریلزم اور کانگریس کو تقسیم ہند منظور کرنا پڑی ۔ یہ اُن دو بڑی طاقتوں کی بڑی شکست تھی جب قائداعظمؒ نے 3جون 1947ء کو آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم ہند کااعلان کرتے ہوئے ’’پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا‘‘تو لفظ ’’پاکستان‘‘ دُنیا کے کونے کونے میں ریڈیو کی لہروں کے ذریعے پہنچ گیا ۔

14اگست 1947ء کو پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ، آل انڈیا مسلم لیگ ،لیگی زعماء اور مسلمانانِ ہند کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا۔اس دن کی خوشی بیان کرنا مشکل ہے کہ ایک روز سورج کی کرنوں کی شعاعیں، تندی و تیزی کے ساتھ غلام ملک پر آگ برسا رہی تھیں۔ 14 اگست کی صبح کو وہی کرنیں ایک آزاد ملک پر محبت ، یگانگت ، یکجہتی ، ایک قو م ، ایک ملک ، ایک کتاب کا درس دے رہی تھیں۔ گذشتہ رات چاند کی چاندنی چھپی ہوئی تھی اور مدھم طریقے سے ایک غلام ملک پر سے گزر رہی تھی۔ 15اگست کی رات چاندنے اپنی کرنیں اس پیار سے آزاد ملک پر بکھیر رکھی تھیں کہ ہرسمت نظارہ ہی نظارہ تھا اور نیا چاندعید الفطر کا پیغام لیکرآیا تھا۔ پاکستان لیلۃ القدر کو میسّر آیا اور عید کی خوشیوں کے ساتھ آزاد قوم ، آزاد ملک اور لازوال خوشیوں کے ساتھ آیا۔

آزادی کی سمت جاننے کیلئے ہمیں ذرا پیچھے1857ء کی جنگ آزادی کو بھی دیکھنا ہو گا پھر 30دسمبر1906ء میں بنگال کے سرکردہ مسلمانوں نے مسلم لیگ کی بنیاد سر نواب سلیم اللہ خان کی رہائشگاہ پر رکھی اور اس وقت بیرسٹر محمد علی جناح ؒجو کانگریس کے سرگرم اور اُبھرتے ہوئے مسلمان رہنما تھے کلکتہ میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے تقریر کر رہے تھے۔ 1910ء اور 1911ء کے بعد قائد اعظمؒ اور دیگر مسلمان رفقاء سمجھنے لگے کہ کانگریس صرف ہندوئوں کی جماعت ہے۔ لہٰذا مسلم قومیت کا اُصول پختہ ہو گیا اور قرار داد لاہور23مارچ 1940ء اور 3 جون 1947ء کے اعلانات پاکستان کی خوشخبری تھی۔ پاکستان کے آئین کے بارے میں قائد اعظم نے اعلان کر رکھا تھا کہ اسلام کے اُصول جمہوریت، مساوات، برداشت، مذہبی آزادی پرہیں۔پاکستان کا آئین اسلامی اُصولوں کے مطابق ہو۔ انصاف ہو، سماج میں برابری اور انصاف ہو۔ قائداعظمؒ کہتے تھے کہ یہ اُصول ہم نے خود سے نہیں لیے بلکہ یہ توآج سے 1400 سال پہلے ہمارے پیغمبر اسلام ﷺنے دیئے۔ اِن اُصولوں پر اسلام آ جانے کے بعد کوئی ڈیر ھ صدی تک عمل ہوتارہا۔ آپ کی 11اگست 1947ء کی تقریر آئین ساز اسمبلی میں اسی اُصول کی غمازی کرتی ہے۔ آپؒ نے اپنے ایک انٹرویو میں امریکن نشریاتی ایجنسی کے نمائندے کو فروری1948ء میں کہا تھا کہ’’ پاکستان کا آئین بننا ہے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ تاہم مجھے یقین ہے ملک کا آئین جمہوری طرز کا ہوگا۔ جس میں اسلام کے سنہری اُصول موجود ہوں گے۔ کیونکہ اسلام کے اُصول جو 1400سال پہلے تھے وہ آج بھی اسی طرح لاگو ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کی روح اور نظریہ جمہوریت ہے۔ اسلام ہمیں انصاف،صاف ستھرا طریقہ زندگی سکھاتا ہے۔ ہم اس شاندار طریقہ کے وارث ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو اپنائیں۔ ‘‘

ہمارے ملک میں بے شمار غیر مسلم پارسی،ہندو، سکھ اور عیسائی ہیں۔ مگر وہ سب کے سب پاکستانی ہیں۔ آزاد ملک میں ان کے حقوق اسی طرح کے ہوں گے جس طرح دوسرے کسی شہری کے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا وجود ایک بے پناہ حوصلہ والی شخصیت اور مستقل مزاج رہنما کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے حاصل کیا۔قائداعظمؒ کی پختہ سیاسی بصیرت اور سمجھ بوجھ ہمارے لیے روشن مینار کی طرح ہے۔ خدا کی طرف سے ملک عطا ہوا۔ ہم نے اس کو مضبوط کرنا ہے۔ قائداعظمؒ نے 14 اپریل 1943ء کو پشاور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمار ے لیے قرآن سب سے بڑا پیغام ہے۔ جو ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ صرف ہم نے اپنے آپ کو پہچاننا ہے۔ اور آنکھیں کھول کر دیکھنا ہے کہ ہم میں کتنی صلاحیتیں اور طاقت ہے۔ ہمیں کامیابی تک صرف کام اور کام کرنا چاہیے۔‘‘

ایک اور مقام پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا:’’ ملک پاکستان کی سرزمین مختلف ذرائع سے مزّین ہے۔ اس میں ذخائر ہیں۔ لیکن ملک کی تعمیر کیلئے ایک مسلمان قوم کے مطابق ہمیں اپنی ہر انرجی جو جو ہمارے اندر ہے اس کو استعمال کرنا ہے اور اگر ساری قوم خوداعتمادی سے دل لگا کر کام کرے تو ہم پاکستان کے مقاصد حاصل کرلیں گے‘‘۔

یہ نوجوانوں کیلئے بڑا پیغام ہے۔

کتاب ’’مسلم لیگ اور تحریک پاکستان ‘‘ سے مقتبس

اپنا تبصرہ بھیجیں