وطن نیوز انٹر نیشنل

جسٹس عائشہ ملک: لاہور ہائی کورٹ کی جج سپریم کورٹ میں تعینات کیوں نہ ہو سکیں؟


جسٹس عائشہ ملک: لاہور ہائی کورٹ کی جج سپریم کورٹ میں تعینات کیوں نہ ہو سکیں؟
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ میں ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے اپنائے گئے طریقہ کار کے خلاف وکلا تنظیموں کے احتجاج نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں بطور جج تعیناتی کا معاملہ ’ٹائی‘ (برابر) ہو گیا۔
جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں جج تعینات کرنے کے حق میں چار ووٹ آئے جبکہ اس کی مخالفت میں بھی چار ووٹ آئے۔وکلا تنظمیوں کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج صرف جسٹس عائشہ ملک کے معاملے تک محدود نہیں بلکہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ذمہ داران کی طرف سے ’پک اینڈ چوز‘ کی پالیسی کو ختم کر کے جوڈیشل کمیشن سینیارٹی کی بنیاد پر ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں کمیشن کے جن ارکان نے جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی سفارش کی، ان میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل خالد جاوید اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم شامل ہیں۔
مخالفت کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر، جسٹس طارق مسعود کے علاوہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس دوست محمد اور ملک میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے رکن اختر حسین شامل ہیں۔جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ایک اور رکن اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے علاج کے غرض سے بیرون ملک ہیں جس کے باعث وہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔پاکستان بار کونسل کے نمائندے اور جوڈیشل کمیشن کے رکن اختر حسین کا کہنا تھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اجلاس میں ہوتے تو جسٹس عائشہ ملک کا نام مسترد ہو جاتا۔
یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر کو جب سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کا معاملہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں زیر بحث آیا تھا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کی مخالفت اس بنیاد پر کی تھی کہ ایک جونئیر جج کو سپریم کورٹ میں نہیں لایا جا سکتا اور سب سے پہلا حق سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا ہے۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ میں بطور جج جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعینات کرنے کی منظوری دی تھی تاہم سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہہ کر سپریم کورٹ کا جج بننے سے انکار کر دیا تھا اس ضمن میں ان کی رضامندی نہیں لی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں