وطن نیوز انٹر نیشنل

کون بد بخت کہتا ہے پاکستان رو بذوال ہے.

کون بد بخت کہتا ہے پاکستان رو بذوال ہے
گل بخشالوی
اپوزیشن کے خود پرست سیا ستدان، ان کے درباری اور لفافہ میڈیا پاکستان میں غریب عوام کے لئے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں ، حکومت پر تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں لیکن اپنے گر یبان میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ گذشتہ کل ان کی حکمرانی میں عا لمی سطح پر مہنگائی کہاں تھی اور ڈالر کی کیا قیمت تھی ، پاکستان کا کوئی بھی باشعور شہری اس حقیت سے انکار نہیں کرے گا کہ مہنگائی ہے ، مزدور تو کیا سفید پوش کی قوت ِ خرید بھی جواب دے گئی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی حکمران اپنے پاﺅں پر کلہاڑی نہیں مارتا ، قومی اور بین الاقوامی صورت حال کے پیش ِ نظر کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ عمران خان پہلی مرتبہ اتحادیوں کے تعاون سے تخت ِ اسلام آباد پر بیٹھے ہیں ان کے اتحادیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے انہیں وزارتیں اور مراعات کی طلب ہے گذشتہ ستر سا ل کے دوار ِ اقتدار میں کسی نے وہ کچھ نہیں سوچا جس کا مطا لبہ پہلی با ر ا قتدار میں آنے والے عمران خان سے کیا جا رہا ہے ،
وزیرِ اعظم پاکستان کہتے ہیں کہ غربت کے سمندر میں تبدیلی میں وقت لگتا ہے مائنڈ سٹ اپ کی تبدیلی کی شاہراہ پر ہم چل پڑے ہیں ، نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بن سکتا، نظام بدلنے میں وقت لگتا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہم قائد ِ اعظم کے خواب کی تعبیر پاکستان میں سانس لیں گے!
ارادے نیک ہوں تو منزل خود بخود قریب آجاتی ہے اگر ہم پاکستانی گذشتہ کل کے پاکستان میں اپنی غربت کو سوچیں تو ہمیں ہمارا آج کا پاکستان جنت محسوس ہو گا ۔ غربت اور غریب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو کیا معلوم کہ غربت کیا ہوتی ہے یہ تو وہ غریب جانتے ہیں جنہوں نے تحریک ِ پاکستان اور قیا مِ پاکستان کے بعد اپنی دربدری اور بے کسی میں پا کستان دیکھا تھا ،
آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ہے۔ دراصل اپنی خواہشات پوری نہ ہونے کو غربت کہہ رہے ہیں۔ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے ، سیاہی کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے ، اخروٹ کے چھلکے جلا کر سیاہی بنا لیا کرتے تھے، اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے
آج تو ماشاءاللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کر کے گھر رکھے ہوتے ہیںروزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیںآج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ہے ا ±سکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا،گلے میں سونے کی زنجیر ہاتھ پہ گھڑی!غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے.
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے.اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کے لیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ہے میں غریب ہوں۔گاو ¿ں میں عورتیں کھیتوں میں قدرتی اگا ہوا ساگ لے آتی تھیں پورا ٹبر کھا لیتا تھا جبکہ آج کے بچے گھر کا کھانا نہیں کھاتے ایک بچہ فوڈ پانڈا سے KFCمنگواتا ہے تو دوسرا میک ڈونلڈ ….ہمارے آباﺅ اجداد نے زندگی کی رعنایوں سے بے پروا ہو کر ہمارے آج کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا آج ہم اپنے دیس میں خو شحال ہیں آج
میرے والدین ہجرت کر کے نہیں آئے ۔ لیکن ہم گندم کی روٹی کے لئے ترستے تھے ، اپنے بچپن اور لڑکپن میںڈیوے کی روشنی میں ، میںنے غربت کو جس قد ر قریب سے دیکھا ہے ، ہمارے نام پر سیاست کرنے والوں نے خواب میں بھی وہ غربت نہیں دیکھی گھر سے تین میل دور پیدل سکو ل جایا کرتے تھے ،سائیکل بھی نہیں تھی ۔ لیکن آج اپنے پاکستان میں خود کو دیکھتا ہوں اپنے دیس والوں کو دیکھتا ہوں دیس میں زندگی کی سہولتوں کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک آزاد وطن میں زندگی کے ہر سکھ سے سرفراز رکھا ہے ، در اصل ہم ناشکرے ہوگئے ہیں اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں.
ہم اسی پاکستان میں جی رہے ہیں جس کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا، لیکن بد قسمتی سے چند خاند ان نے اپنی شہنشاہیت کی بقا کے لئے سیاست اور پارلیمنٹ کو یرغمال بنا کروطن دوست پاکستانیوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں اپنے پاکستان میں مغربی ذہنیت کے غلام اپنی ہتھ جوڑی پر ناز کر رہے ہیں اور اس قدر بے شرم ہیں کہ بابائے قوم کا نام لیتے ہوئے بھی ان کو شرم نہیں آتی!اپنے کل کے اقتدار میں اپنی بد اعمالیوں سے بے پروا پاکستان اور عالم ِ اسلام سے محبت کرنے والی حکومت کے ہر اقدام پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔لیکن ان کے خواب شرمندہءتعبیر نہیں ہوں گے ، پاکستان کی محب، وطن عوام شاہراہِ ترقی اور تبدیلی پر رواں دواں ہے، وہ خواب جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اس کی تعبیر ہم اپنی زندگی میں دیکھیں گے ان شا اللہ !! پاکستان زندہ باد رہے گا ،
۷، ستمبر ۱۲۰۲ئ

اپنا تبصرہ بھیجیں