وطن نیوز انٹر نیشنل

کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے یورپی رہنماؤوں سے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کی استدعا کی ہے

کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے یورپی رہنماؤوں سے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کی استدعا کی ہے
برسلز (پ۔ر)
کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے یورپی رہنماؤوں سے استدعا کی ہے کہ وہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق، مسئلہ کشمیرکے پرامن اور منصفانہ حل کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔
اس بارے میں علی رضا سید نے ستائیس اکتوبر کے یوم سیاہ کے موقع پر یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ ڈیویڈ ماریا ساسولی، یورپی یونین کے خارجہ اور سلامتی کے امور کے بارے میں اعلیٰ سفارتی نمائندہ جوزف بوررل فونٹلیس، یورپی پارلیمنٹ کی انسانی حقق کی ذیلی کمیٹی کی سربراہ ماریا ارینا اور یورپی پارلیمنٹ کی سول لبرٹی اور جسٹس کمیٹی کے سربراہ جان فرنانڈو لوپز انگیلر سمیت اہم یورپی اداروں کے سربراہاں اور عہدیداروں کو ایک کھلا خط لکھا ہے۔
چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ہم یورپی یونین کے اعلیٰ سیاستدانوں اور اراکین پارلیمنٹ کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمر کے حل کی تحریک میں ہمارا ساتھ دیں اور طویل عرصے سے مسائل کا شکار خطہ کشمیر میں امن و استحکام لانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ وہاں کالے قوانین کا خاتمہ ہوسکے اور جموں و کشمیر کو غیرعسکری علاقہ قرار دیا جاسکے۔
خط میں یاد دلایا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کشمیر کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا اور اس وقت سے ابتک جموں و کشمیر کا یہ بڑا علاقہ بھارت کے قبضے میں ہے اور اس وقت یہ علاقہ دنیا کا ایک بڑا عسکری علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔کشمیری جو اس وقت سے بھارتی ظلم و ستم کا شکار ہیں اور اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، ہرسال ستائیس اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔
علی رضا سید نے یہ بھی د یاد دلایا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی دو قراردادیں پاس ہوئی تھیں جن کے تحت جنگ بندی، لائن آف سیز فائر، ریاست کو غیرعکسری علاقہ قرار دینے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں پوری ریاست میں رائے شماری کروانے کی منظوری دے دی گئی۔ یہ قراردادیں ۱۹۴۸ اور ۱۹۴۹ میں منظور کی گئیں اور پاکستان اور بھارت دونوں نے ان قراردادوں کو تسلیم کیا تھا۔
کشمیرکونسل ای یو کے چیئرمین نے خط میں بتایا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ وادی کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مارجاچکے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔گذشتہ تین عشروں کے دوران بھارتی فوجیوں نے نوے ہزار سے کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ بائیس ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوچکی ہیں، ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں اور گیارہ ہزار سے زائد خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی تحویل اور پولیس حراست کے دوران آٹھ ہزار نوجوان لاپتہ ہوچکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ انہیں مار کر بے نام قبروں میں دفن کردیا گیا تھا جیساکہ ابتک وادی کشمیر میں ہزروں بے نام قبریں دریافت ہوچکی ہیں۔ بہت سے تحریک آزادی کے کارکن، انسانی حقوق کے علمبردار ، دانشور اور سیاسی رہنماء بغیر کسی مقدمے کے اب بھی زیرحراست ہیں۔
خط میں یہ بھی کہاگیا ہے ہ کہ بھارت کی مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے بھارتی حکام دیگر علاقے سے لوگوں کو لاکر مقبوضہ جموں و کشمیر میں آباد کررہے ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اورر عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ابتک دو ملین غیرکشمیری افراد کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جاچکے ہیں جنہیں ریاست میں جائیداد خریدنے اور نوکری حاصل کرنے کا استحقاق حاصل ہوگیا ہے۔ بھارت کی حکومت اس طرح کے اقدامات کے ذریعے کشمیریوں کی ثقافتی اور دینی شناخت ختم کرنا چاہتی ہے۔
خط میں چیئرمین کشمیر کونسل ای یو نے کونسل کا تعارف کرواتے ہوئے کہاہے کہ کشمیرکونسل ای یو ایک غیرسیاسی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی تنظیم ہے جو خطے میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہے۔ اور انہی مقاصد کے تحت تنازعہ کشمیر کے تمام فریقین کے مابین معنی خیر مذاکرات چاہتی ہے تاکہ اس مسئلے کے منصفانہ اور پرامن حل کے ذریعے جنوبی ایشیاء کے خطے میں امن و آشتی آسکے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں