وطن نیوز انٹر نیشنل

مقصدِ حیات، جزا و سزا کا نظام اصلاحِ معاشرہ کیلئے ہے

اللہ کا کوئی حکم بھی ایسا نہیں ہے جس میں کسی کو شبہ گزرے، اشتباہ پیدا ہویا ابہام پیدا ہو۔ اللہ کے احکام بڑے واضح،بڑے صاف ستھرے،ہم پر بوجھ نہیں لادنا چاہتے بلکہ ہمیں وہ طرز عمل بتا رہے ہیں جس میں ہمارا اللہ سے ایک خالص تعلق پیدا ہو جائے ہم اللہ سے محبت کرنے لگیں،اللہ کو چاہنے لگیں اور اس حد تک اللہ کے طالب بن جائیں کہ ہمیں اللہ کی نافرمانی کا تصور بھی نہ آئے۔ انسان کو مجبور کرنے یا اس پر مصیبت ڈالنے یا اس پر بوجھ ڈالنے کیلئے نہیں بلکہ یہ تو نری آسانیاں ہیں۔آپ معاشرے میں اور زندگی میں دوسرے طریقوں کو بھی آزما کر دیکھیں اور اسی کام کو شرعی طریقے سے بھی کر کے دیکھیں تو شرعی طریقے سے کام کرنا غیر شرعی طریقے سے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔اس میں آسانی بھی ہے،اس میں اللہ کی رحمت بھی ہے اور اس میں اللہ کی یا د قدم قدم پر وابستہ ہے،ایک ایک دم کے ساتھ وابستہ ہے۔ آپ جو کام کررہے ہیں،وہ جب اللہ کے حکم کے مطابق کررہے ہیں،نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق کررہے ہیں تو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی یاد بھی اس میں دم دم کے ساتھ وابستہ ہے اور یہی مقصد حیات ہے۔یہ سعادت ہے کہ ہمیں اللہ کریم سے اتنا تعلق پیدا ہوجائے،اتنی محبت پیدا ہوجائے،جنون کی حد تک عشق پیدا ہوجائے کہ ہم متقی بن جائیں یعنی اللہ کریم کی نافرمانی برداشت نہ کر سکیں ۔

تقویٰ کے برعکس بات جب مال کی آتی ہے تو آپس میں جھگڑا ہوتا ہے۔زمین بھی مال میں آجاتی ہے اور دولت بھی مال میں آجاتی ہے۔ اللہ کریم نے اس کا بھی ایک خوبصورت حل بتا دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ناجائزطریقے سے آپس میں ایک دوسرے کا مال کھانے کی کوشش نہ کرو۔ ایک وقت آنے والا ہے جب تم اس عدالت میں کھڑے ہوگے جہاں نہ کوئی ناجائز کام ہوگا،نہ کوئی ناجائز سفارش ہوگی۔ بعض لوگوں کے وسائل کم ہوتے ہیں،بعض کے زیادہ ہوتے ہیں۔اگر زیادہ وسائل والے لوگ دوسروں سے ان کے مال چھیننا شروع کردیں تویہ درست نہیں ہے۔

اموال دوطرح کے ہیں۔ایک مال وقف عام ہے اس میں کسی کا حق نہیں کہ دوسرے کو روکے جیسے سورج کی تپش ہے، دھوپ ہے، ہوا یا بارش ہے تو یہ چیزیں ہر انسان ، ہرذی روح کیلئے وقفِ عام ہیں ۔ مال کا دوسرا درجہ وہ ہے جس میں انسان کو ملکیت کا حق دیا گیا ہے۔ اب جو چیز انسان کی ملک بن گئی ہے، زمین ہے یا اس کی دولت ہے،جائز طریقے سے کماتا ہے تو یہ ایک ایسا حق ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے خواہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو، کوئی بھی قوم ہو یا کوئی بھی معاشرہ ہو۔بعض ایسی برائیاں ہیں جن پر پوری دنیا متفق ہے مثلاً چوری ، ڈاکہ، بدکاری،قتل و غارت۔ یہ سارے اس طرح کے کام ہیں جن کے برا ہونے پر پوری انسانیت متفق ہے۔ اسلام نے ان برائیوں کیخلاف آ گے بڑھتے ہوئے ایک خوبصورت حل دیدیا کہ جس کا جو حق ہے، اس سے چھینا نہ جائے، ناجائز طریقے سے نہ لیاجائے اور اگر آپ نے اس کی ملکیت جائز طریقے سے لینی ہے تو قیمت دے کر لیں۔حصول رزق کے معروف ذرائع ہیں اور اسلام نے ایک اصول دیا ہے کہ جو رزق معروف ذرائع کے علاوہ آتا ہے وہ حلال نہیں ہوتا۔ معروف ذرائع کے علاوہ جو بھی آئے گا وہ چوری کا ہوگا یا چھینا ہو ا ہوگا، وہ اس بندے پر حلال نہیں ہوتا۔ حرام رزق آدمی کو آدمیت سے گرا دیتا ہے۔حرام رزق کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ جوبندہ حرام کھاتا ہے،وہ کتنی گریہ و زاری کرے، کتنا روئے پیٹے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ ایک شخص بہت دور سے سفر کر آئے گا، اس کے پائوں مٹی سے اٹے ہو ں گے، اس کے بال پریشان ہوں گے، اس کے کپڑے پھٹے ہوں گے اور وہ بیت اللہ کے گرد طواف کر رہا ہوگا، اللہ کو پکار رہا ہوگا لبیک الھم لبیک لیکن بارگاہ الوہیت سے اس کا کوئی جواب آئے گا نہ اللہ اس کی فریاد سنے گا۔‘‘ عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ! اتنی محنت اتنا مجاہدہ کرکے جو بیت اللہ شریف میں آکے اللہ کو پکار رہا ہوگا تو اس کی بات کیوں نہیں سنی جائے گی؟ تو آپﷺ نے فرمایا ’’اس لیے کہ اس کا رزق حرام کا ہوگا۔‘‘اگر حرام کھاتاہے، چوری سے پیسہ کماتا ہے، رشوت لے کرپیسے جمع کر لیتا ہے، دوسروں کے حقوق غصب کر لیتا ہے اور پھر وہ حج پہ بھی چلا جاتا ہے تو کوئی فائدہ نہیں۔ دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ کریم اس کی درخواست رد فرما دیتے ہیں۔

آخرت کے حوالے سے ایسے بندے کے بارے میں حضوراکرم ﷺ نے فرمایا ’’کسی کے وجود پر جو گوشت حرام کے رزق سے بنے گا اس کیلئے آگ ہی سزاوار ہے۔ ‘‘ اس حدیث شریف کی تشریح میں ملتا ہے کہ بعض ایسے مسلمان ہوں گے جن کی نجات تو ہو جائے گی، جوکچھ انہوں نے حرام کھایا اس کی تلافی بھی ہوگئی معافی بھی ہوگئی لیکن اس کھانے سے جوگوشت وجود کا حصہ بن گیا، اس گوشت کو جلانے کے لیے انہیں جہنم بھیجا جائے گا۔ وہ جل جائے گا تو اس کی جگہ اللہ کریم انہیں نیا گوشت عطا فر ماکر جنت بھیجیں گے۔ یعنی بعض ایسے لوگ ہوں گے کہ انہوں نے توبہ کرلی،جس کا رزق لیا تھا اس سے معافی مانگ لی،اللہ نے نجات دے دی لیکن نجات کے بعد اگر ان کے وجود میں حرام کا گوشت ہوگا تو وہ گوشت ضرور آگ میں جلے گا ۔ اسکے جلانے کیلئے انہیں دوزخ جانا ہوگا۔جب وہ جل جائے گا تو اللہ انہیں دوسرا گوشت عطا فرماکر جنت بھیجیں گے۔حرام کا کوئی ذرہ جو وجود میں ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا، وہ جلانے کیلئے اسے جہنم جانا ہوگا۔نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ روز محشر ایسا کوئی دائو نہیں چلے گا۔ وہاں تو سیدھی سیدھی بات ہوگی،حق کی بات ہوگی،حق کے مطابق ہوگی۔ ‘‘

دنیا میں انسانی معاشرے کو تباہ کرنے والے جو کام تھے،اسلام نے ان کو اتنا خوبصورت موڑ دیا کہ وہ معاشرے کی آبادی کاسبب بن گئے،جو فساد کا سبب بن رہے تھے وہ صلح کا سبب بن گئے، ازدواجی تعلقات کوبھی ایک خوبصورت حسین موڑ دے کر انسانی آبادی کا سبب بنا دیا،معاشرے کی آبادی اور بقاء کا سبب بنا دیا اور مالی امور میں بھی اپنے اپنے حقوق کے اندر رہنے کا حکم دے کر فساد کو یکسر ختم کر دیا۔اب اگر ہم حدود ِالٰہی سے تجاوز کرتے ہیں تو فساد ہوگا۔بنیادی بات یہ ہے کہ اگر لوگ اپنے حقوق تک محدود رہیں تو کوئی فساد پیدا ہی نہیں ہوتا اور اگر کوئی اپنی حد میں نہیں رہتا تو اس کیلئے عدالتیں ہوں۔ انصاف ہونا چاہیے، حکومت کو انصاف کرنا چاہیے،حق دار کو حق دلا نا چاہیے اور جو ناجائز کرے اسے سزا دینی چاہیے۔ جزا و سزا کا نظام اصلاح معاشرہ کیلئے ہے ۔ محض لوگوں کو تنگ کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ بھی لوگوں کی سہولتوں کیلئے ہے کہ معاشرے میں اصلاح ہو،احترام آدمیت ہو ، انصاف ملے، لوگوں کا جائز حق روکا نہ جائے اور کسی کو ناجائز کرنے نہ دیا جائے ۔ ہمارے ہاں یہ ہے کہ جو تگڑا ہے وہ ناجائز بھی کر لیتا ہے اور جو کمزور ہے اس کا جائز بھی رہ جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں فساد تو ہوگا!اگر ہمیں اسے ختم کرنا ہے تو ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ معاشرے میں جس کا حق ہے وہ اسے ملنا چاہیے۔اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہرمستحق کو اس کا حق ملنا چاہیے اور ہر اس بندے کا ہاتھ روکنا چاہیے جو دوسرے کا حق چھیننا چاہتا ہے۔ اگر یہ اصول ہو گا تو فساد ازخود ختم ہوجائے گا۔کسی کو کسی سے شکایت ہی نہیں رہے گی تو وہ اسے مارنے کیوں بھاگے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں