وطن نیوز انٹر نیشنل

تحریک لبیک کے قائدین کے نام

گستاخانہ خاکے جہاں بھی شائع ہوں وہ قابل مذمت ہیں۔ ان کے خلاف پر امن احتجاج کرنا مسلمانوں کا بنیادی حق اور غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے۔ لیکن کیا پاکستان سے فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کرنے والے ہمارے محترم دوست یہ نہیں جانتے کہ فرانس میں 40 لاکھ سے ذائد مسلمان رہائش پذیر ہیں اور وہاں 2300 سے ذائد مساجد قائم ہیں۔ اگر فرانس ان مسلمانوں کو خدانخواستہ نکال دیتا ہے تو کونسا ملک ان کو اپنے ہاں بسانے کے لئے تیار ہوگا؟؟ اگر مسلمانوں کو نہیں بھی نکالا جاتا اور صرف ان مساجد کو ہی بند کردیا جاتا ہے تو یہ لاکھوں مسلمان کیا کریں گے؟ ان کے آئندہ نسلوں میں دین کا تحفظ کیسے ہوگا؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد اکثر مسلمان ممالک نے اپنے بارڈر بند کر دیے تھے اور لاکھوں کی تعداد میں ان مہاجرین کو پورپ کے مخلتف ممالک نے پناہ دی ہوئی ہے جن میں جرمنی اور فرانس سر فہرست ہیں۔
احتجاج ضرور کریں لیکن عالمی سفارتی معاملات کس طرح طے ہوتے ہیں یہ الگ فلیڈ ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے بڑی مفادات کی جنگ امریکہ اور چین کے درمیان ہے لیکن اس جنگ کے باجود ان کے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم ہیں. دہائیوں تک روس اور امریکہ میں جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک میں ایک دو سرے کے سفیر موجود رہے۔ حضور بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مدنی دور میں کفار مکہ کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات مکمل منقطع نہیں فرمائے۔ خلفائے راشدین کے دور میں ایران اور روم کے ساتھ جنگیں بھی ہوتی رہیں مگر سفارتی و تجارتی تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔ صالح الدین ایوبی جیسی جری مجاہد نے بھی بیت المقدس پر حملہ آور صلیبیوں کے ساتھ مذاکرت کا دروازہ بند نہیں کیا اور بالآخر ان سے امن معائدہ کیا۔ ریاستی سطح پر سفارتی تعلقات منقطع کرنے کو جیسے آپ سمجھ رہے ہیں یہ اس طرح کا معاملہ نہیں۔ فرانس یورپین یونین کا حصہ ہے اس سے تعلقات کے خاتمہ کا مطلب پوری ہورہیں یونین کے 30 ممالک سے قطع تعلق کرنا ہے۔ اس سارے اقدام سے ان پر کوئی ایسا اثر نہیں پڑے گا کہ وہ آئندہ کوئی قبیح حرکت نہیں کریں گے البتہ آپ کے اپنے ملک کی ڈوبتی معیشت کا دیوالیہ نکل جائے گا اور یہ ملک بھی اللہ نہ کرے شام لیبیا اور عراق کی طرح خانہ جنگی کی نذر ہو جائے گا۔ لہذا ریاست کا کام ریاست کو کرنے دیں۔ موجودہ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر جس موثر انداز میں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے پہلے پاکستان یا دنیا کے کسی حکمران نے اتنے موثر انداز میں آواز بلند نہیں۔ وہ او آئی سی کی سطح پر بھی مسلمان ممالک کو ملکر اس مسئلہ پر متفقہ کردار ادا کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کے نرے جذبات پر مبنی احتجاج اور تشدد کے نتیجے میں اگر ان کی حکومت کمزور ہوتی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ ملک کے سربراہ بن جائیں گے۔ ابھی حال ہی میں ڈسکہ میں آپ نے دیکھ لیا کہ جیتنے والا امید وار ایک لاکھ سے ذائد اور دوسرے نمبر والے 90 ہزار سے ذائد ووٹ لے رہا ہے جبکہ آپ کے امیدوار کو 6 ہزار ووٹ پڑ رہے ہیں۔ احتجاج کے ذریعے چند روڈ بند کر دینا اور بات ہے۔ ملک بھر سے لوگوں کا جمع کر کے احتجاج و مارچ کر لینا دوسرا معاملہ ہے اور پورے ملک سے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے حکومت قائم کرنا چیز دیگر است۔ تو عمران خان کی حکومت کمزور ہوتی یا ٹوٹتی ہے تو پھر ملک پر مسلط ہونے کے لئے مریم نواز اور بلاول بھٹو تیار بیٹھے ہیں۔ آپ کا کا کیا خیال ہے کہ ان کی حکومت بن جاتی ہے تو وہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیں گے یا ناموس رسالت کا معاملہ عالمی سطح پر عمران خان سے ذیادہ موثر انداز میں اٹھا سکیں گے؟ موجودہ حکومت آپ کو space دینے کے لئے تیار ہے وہ آپ سے دو دفعہ مذاکرات کر چکی ہے آئیندہ بھی مذاکرات کے ذریعے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ اہلسنت کی اس وقت کوئی سیاسی نمائندہ جماعت موجود نہیں۔ آپ سیاست میں یہ خلا پر کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ ریاست سے ٹکراو کا راستہ اختیار کئے بغیر پر امن انداز میں اپنے مشن کو آگے بڑھائیں۔ تشدد توڑ پھوڑ جلاو گھیراو کبھی اہل سنت کا معمول رہا ہے کہ یہ ان کی پہچان ہے۔ تاریخ میں ہمارے اکابر ایسے معمول رکھنے والوں کو خوارج کے زمرے میں شمار کرتے رہے ہیں یا یہ کام باطنی فرقہ کا معمول رہا ہے۔ اہلسنت کے دامن کو داغدار کر کے 1400 سو سالہ تاریخ پر دھبہ کا باعث نہ بنیں۔ مذاکرات اور پر امن راستے کو اپنائیں۔ اسی میں اسلام کی عزت ہے اسی میں ملک و قوم کی بہتری اور اسی میں آپ کی بھی عزت ہے۔ فرانس میں ہزاروں پاکستانی اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے ہیں۔ سفارتی تعلق ختم کرنے سے ان کے ویزوں کے ہزاروں معاملات ہوتے ہیں جو خراب ہو سکتے ہیں ان کا مستقبل برباد ہو سکتا ہے آپ نے صدیوں سے پرامن مسلک کا نام تو پہلے ہی خراب کر دیا ہے آپ اس مسلک اور امت کو کہاں تک برباد کریں گے؟
تحریر: مدثر شاہ۔۔۔آل مدثر ٹرسٹ

ٍٍٍ…………………………………………………………………………………………………………

موجودہ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر جس موثر انداز میں مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے

صالح الدین ایوبی جیسی جری مجاہد نے بھی بیت المقدس پر حملہ آور صلیبیوں کے ساتھ مذاکرت کا دروازہ بند نہیں کیا

یہ ملک بھی اللہ نہ کرے شام لیبیا اور عراق کی طرح خانہ جنگی کی نذر ہو جائے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں