وطن نیوز انٹر نیشنل

’’ماہنامہ وطن نیوز انٹرنیشنل، ڈنمارک، کے بانی و مدیراعلیٰ جناب امانت علی چوہدری کی تصنیف ’’کب ہو گا سویرا‘‘کی تقریب رونمائی.

’’ماہنامہ وطن نیوز انٹرنیشنل، ڈنمارک، کے بانی و مدیراعلیٰ جناب امانت علی چوہدری کی تصنیف ’’کب ہو گا سویرا‘‘ کی ۴ ؍ نومبر کو منعقد ہوئی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا میرا مضمون، آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔ اس کے متعلق آپ کے تاثرات کے لیے ممنون ہوں گا۔ شکریہ۔ (نصر ملک۔ کوپن ہیگن ڈنمارک)۔
حی علی الفلاح
کب ہو گا سویرا؟
ایک بڑاسوالیہ نشان لئے یہ کتاب’’کب ہو گا سویرا‘‘ امانت علی چوہدری کی تیسری تصنیف ہے۔ اس سے پہلے ان کی دو کتابیں بعنوان، ’’ناگڑیاں سے کوپن ہیگن تک‘‘ اور ’’روداد وطن‘‘ شایع ہو کر اندرون و بیرون پاکستان مقبول عام ہو چکی ہیں۔ اول الذکر کتاب میں امانت علی چوہدری نے کوئی نصف صدی پہلے ان ہزاروں پاکستانیوں کی طرح ڈنمارک پہنچنے اور پھر یہیں کے ہو کر جانے کی اپنی داستان ہجرت یوں رقم کی ہے کہ اس کتاب کو ڈنمارک میں پڑھنے والا ہر پاکستانی اپنی ہی داستان سمجھتا ہے۔ امانت علی چوہدری کی یہ تصنیف ان کے اپنے گاؤں ”ناگڑیاں” سے ڈنمارک پہنچنے اور یہاں آباد ہوجانے تک کی روداد تو ہے ہی لیکن اس میں جس طرح سفر کی مشکلات، ہجرت کے دکھ درد اور صعوبتوں، اپنے اور غیروں کے ساتھ خوشی و غمی کے لمحوں میں شمولیت اور پھر اللہ کی رضا کے طابع رہتے ہوئے رزق حلال کے لیے کوششوں اور ڈنمارک میں مستقل سکونت اختیار کرکے ایک باوقار زندگی گزارنے تک کی وہ بھی کہانی ہے جسے صرف امانت علی چوہدری جیسے نیک نیت اور قلم کی حرمت کا امین فرد ہی لکھ سکتا تھا کیونکہ آج تو ہر کوئی یہی دعوی کرتا پھرتا ہے کہ ”پدرم سلطان بود۔”
امانت علی چوہدری ڈنمارک میں وہ پہلے اردو مصنف ہیں جنہوں نے اپنی یہ کتاب ” ناگڑیاں سے کوپن ہیگن تک” لکھ کر اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسی دستاویزی تاریخ مرتب کردی ہے کہ وہ مدتوں بعد بھی اس بات سے آگاہ رہیں گی کہ ان کے آبا کون تھے، کہاں سے آئے اور ڈنمارک میں کیسے آباد ہوئے!
امانت علی چوہدری کی دوسری تصنیف ”روداد وطن ” جیسا کہ اِس کے نام ہی سے ظاہر ہے، وطن عزیز پاکستان کے ان حالات کی عکاسی کرتی ہے جن پر بڑے بڑے صحافی اور مبصرین و تجزیہ نگار خاموشی ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ یہ کتاب در اصل امانت علی چوہدری کے ان مضامین و کالموں کا مجموعہ ہے جو وہ اپنے ماہنامہ ” وطن نیوز انٹرنیشنل” میں لکھتے رہے۔ سنہ ٢٠١١ ء میں شائع ہوئی اس کتاب میں تریسٹھ مضامین و کالم شامل ہیں۔ اور وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے ان تحاریر کے عنوانات ہی پڑھ کر قاری امانت علی چوہدری کی سوچ و فکر کا اندازہ کر سکتا ہے اور جان سکتا ہے کہ ان کی نظر پاکستان کے کن کن پہلوں کا احاطہ کرتی ہے اور ان کا قلم پاکستان و اسلامی دنیا کے دیگر ممالک کی رو بہ زوال ہوتی صورت حال کا کس چابکدستی سے تجزیہ کرتا ہوئے امت کو درپیش مسائل کے چنگل سے نکالنے کے لیے حل بھی پیش کرتا ہے۔ ان مضامین سے امانت علی کے اس جذبہ ایمانی کی پختگی کا بھی احساس ہوتا ہے جس کے تحت وہ ہر کسی کو قرآن اور سنت بنویۖ پر چلنے کی دعوت دیتے، نعرہ حق لگاتے، ” حی علی الفلاح’حی علی الفلاح ” کا آوازہ بلند کرتے ہوئے ”اٹھو اور کچھ کر گزرو ” کا سبق دیتے ان کی ہمت بڑھاتے اور حوصلہ دلاتے جا رہے ہیں۔
شمال مغربی یورپ کے اس دور افتادہ ملک، ڈنمارک میں اردو صحافت کی بنیاد رکھنے اور نمایاں کردارادا کرتے چلے آنے والوں میں امانت علی چوہدری کا اسم گرامی آبِ زر سے لکھے جانے کا متقاضی ہے۔ اور اس کا ثبوت ڈنمارک و پاکستان اور سپین سے بیک وقت شائع ہونے والا ان کا ماہنامہ ” وطن نیوز انٹرنیشل” ہے۔ ڈنمارک سے اردو صحافت کا آغاز سنہ١٩٧٢ء میں ماہنامہ ”صدائے پاکستان” کی اشاعت سے ہوا، جو اسیکنڈے نیویا کے ممالک، ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کا پہلا اردو اخبار تھا۔ اس کے بانی و مدیر راقم الحروف (نصر ملک)کے برادر خورد جناب ظفر ملک تھے جو ڈنمارک میں سرکاری وظیفے پر ”علم الادویات” (میڈیسن) کی تعلیم حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی طالب علم تھے۔ صدائے پاکستان پہلے دو سال تو ماہنامہ کے طور پر اور پھر پندرہ زورہ اخبار کے طور پر آٹھ سال تک مجھ خاکسار کی ادارت میں شائع ہوتا رہا لیکن پھر اسے تب بند کر دیا گیا جب ڈنمارک ریڈیو نے اپنے ہاں اردو سروس کا آغاز کیا اور خاکسار کو اس کے لیے بطورصحافی اور بعد میں مدیر منتخب کر لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس خلا کو امانت علی چوہدری نے ماہنامہ ”عوام” جاری کر کے بڑی ذمہ داری سے پورا کر دیا۔ ”عوام ” کے اجرا کے کافی عرصہ بعد امانت علی نے ایک اور ماہنامہ ”تحریک ”کی بنیاد رکھی اور اسے بھرپور انداز میں ماہ بماہ شائع کرتے ہوئے دین و دنیا کی خدمت کرنا اپنا نصب العین بنا لیا۔ ایسا نہیں کہ اس کار خیر میں امانت علی اکیلے ہی تھے، نہیں!، قدرت نے ان کے ہمخیال احباب کی ایک ایسی جماعت بھی ان کے ساتھ کردی تھی جو ہمہ وقت انہیں اپنی خدمات سر انجام دینے کے لیے کمر بستہ رہتی تھی اور اسی بنا پر انہوں نے بہت عرصہ بعد ایک اور ماہنامہ ”دستک ” جاری کرتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغازکیا۔ ”دستک ” اپنے دور کا ایک بڑا منفرد ماہنامہ تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا، امانت علی اب میدان صحافت میں اپنا لوہا منوا چکے تھے اور اللہ کی تائید و رضا سے وہ اس مقام پر پہنچ چکے تھے جو انہیں ڈنمارک میں اپنے ہمعصر اردو کے چند ایک دوسرے جرائد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ممتاز بناتا تھا۔ لیکن شاید ابھی بھی امانت علی مطمئن نہیں تھے اور تبھی تو انہوں نے خود اپنا ایک آزاد و خود مختار نیا ماہنامہ ”وطن نیوز انٹرنیشنل” بڑی دھوم دھام کے ساتھ قارئین کو پیش کردیا۔ کم و بیش بیس سال سے جاری کیا گیا یہ ماہنامہ وطن نیوز جو پہلے صرف ڈنمارک ہی سے شایع ہوتا تھا، یہ پاکستان اور پھر کچھ عرصہ بعد سپین سے بھی شائع ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔ اب ماہنامہ وطن نیوز انٹرنیشنل ڈنمارک، پاکستان اور سپین سے بیک وقت شایع ہونے والا اردو کا واحد جریدہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کا ایک ہفتہ وار ایڈیشن گجرات، پاکستان سے بھی بڑے تسلسل کے ساتھ (جہازی سائز میں رنگین) شائع ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور یہ دونوں انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ امانت علی کے اِس صحافتی سفر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ماننا پڑتا ہے کہ موصوف نے ڈنمارک میں رہتے ہوئے اپنے آبائی وطن پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق و محبت کو بر قرار رکھتے ہوئے حب ا الوطنی کی ایک درخشاں مثال تو قائم
کی لیکن وہ اپنے وطن ثانی، ڈنمارک کو بھی نہیں بھولے اور اس کا حق بھی ادا کر دیا ہے۔
”کب ہو گا سویرا؟” امانت علی چوہدری کی یہ تیسری کتاب جو فی الوقت آپ کے ہاتھوں میں ہے، ان کے ان مضامین و کالموں کا مجموعہ ہے جواِس کتاب کی صورت میں شائع ہونے سے پہلے ان کے ماہنامہ ”وطن نیوز انٹرنیشل ”میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ مضامین امانت علی کی اس سوچ و فکر کے اظہار کا نتیجہ ہیں جو وہ وطن عزیز کے عصری سیاسی و اقتصادی اور سماجی مسائل پر لکھتے رہے ہیں اور اپنی دانست کے مطابق اِن مسائل کا حل بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ ان مضامین کو پڑھنے سے جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ امانت علی کے اس مشاہدے اور پھر اس کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرنے کے اس عمل کی طرف جاتی ہے جو ان کی صحافیانہ اہلیت و قابلیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اور بے اختیارکہنا پڑتا ہے کہ امانت علی اس صنف میں اپنا ایک منفرد و ایماندارانہ وہ مقام رکھتے ہیں جو کسی کسی ہی کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ وطن عزیز پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھے جس طرح مادر وطن کے سیاسی مسائل، عوامی محرومیوں، اپنوں اور غیروں کی چالبازیوں اور عوام کی محرومیوں کو دیکھتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امانت علی چوہدری کو خاک وطن اور وطن کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور اقوام عالم میں اس کی سر بلندی کا کتنا احساس ہے۔ یہ مضامین ان حالات و اسباب کو سامنے لاتے ہیں جو بد قسمتی سے پاکستانی قوم کے سر تھونپ دیئے گئے ہیں اور اہل اقتدار و منصب ” سب اچھا ہے یا سب اچھا ہو گا ” کہہ کر کچھ کر دکھانے کی بجائے قوم کو سیاسی، مذہبی اور لسانی و معاشری مسائل میں الجھا کر تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امانت علی کسی بھی طرح سے مایوس دکھائی نہیں دیتے اور اپنے قلم کو ایک نشتر کی طرح استعمال کرتے ہوئے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مصروف ہیں جو پاکستان کے قومی تشخص اور قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ وہ مسائل و معاملات کی وجوہات اور نشاندھی ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا حل بھی یوں پیش کرتے ہیں۔ کہ اس کی روشنی میں ”کب ہو گا
سویرا؟” جیسے سوال کا جواب قارئین کے سامنے آجاتا ہے کہ تاریکیوں کے بادل پھاڑ کر انہیں ”سویرے کی کرن ” تک پہنچنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ یہ مضامین پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے رونما ہونے سیاسی اونچ نیچ اور دھرنا بازی کے واقعات اور سانحات اور قومی بے حسی کے ان پہلوں کو سامنے لاتے ہیں جنہیں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے اور امانت علی چوہدری نے ایک صحافی و ادیب کی حیثیت میں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے یہ نشاندھی بھی کردی ہے کہ شخصی مفادات، سیاسی وابستگیوں اور مذہبی و لسانی منافرت سے کیسے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے اور کس طرح اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خدا داد، اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قرآن اور خاتم النبیین محمد ۖ کے فرمودات کے عین مطابق ایک رفاعی و فلاحی ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ یہ مضامین امانت علی چوہدری کی اس حب الوطنی کے بھی عکاس ہیں جو وہ اپنے دل میں رکھتے ہیں اور اپنے مادر وطن اور ہموطنوں کی سالمت و تحفظ اور ترقی و خوشحالی کے لیے تعمیری جدو جہد میں مصروف ہیں اور ہر ایک کو اپنی اِس جدوجہد میں شامل کرنے کی غرض سے ” حی علی الفلاح، حی علی الفلاح ”’ ” کا نعرہ بلند کرتے سنائی دیتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ امانت علی چوہدری کے یہ فکر انگیز مضامین پاکستان کے عوام کے دلوں کی آواز بن کر انہیں زندہ رہنے اور وطن عزیز کے لیے سب کچھ کر گرزنے کے لیے متحرک کریں گے اور ان کی یہ تحریک وطن عزیز کو استحکام و خوشحالی سے ہمکنار کردے گی اور وطن عزیز میں ہر طرف اِک نئے سویرے کا نور ہی نور ہو گا۔
نصر ملک
سابق مدیر، اردو سروس، ریڈیو ڈنمارک
سابق لینگویج کنسلٹینٹ، سٹیٹ لائبریری، ڈنمارک

اپنا تبصرہ بھیجیں