وطن نیوز انٹر نیشنل

عمران خان کی خارجہ پالیسی‘ ایک جائزہ

عمران خان ویسے تو اپنے جلسے میں کوئی خاص سرپرائز نہیں دے سکے ہیں۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا اور لوگوں کو بلایا بھی اسی لیے تھا کہ میں سرپرائز دوں گا لیکن کوئی سرپرائز نہیں دیا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کی عمومی رائے یہی تھی کہ عمران خان سیاسی طور پر ایسے گرداب میں پھنس گئے ہیں جہاں ان کے پاس اب کوئی سرپرائز نہیں ہے۔ وہ کھیل ہار گئے ہیں۔ اس لیے سپرپرائز دینے کی صلاحیت بہت محدود ہو چکی ہے۔

لیکن پھر بھی ان کے ووٹرز اور سپورٹرز کو بہت امید تھی کہ وہ کوئی نہ کوئی سرپرائز دیں گے۔ بہت قیاس آرائیاں تھیں کہ وہ کسی اہم شخصیت کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کر دیں گے لیکن اس قیاس آرائی کی انھوں نے خود بھی تردید کر دی تھی۔ وہ قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔ بہت سینئر تجزیہ نگار جو عمران خان کے حامی بھی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی یہ دعویٰ کر رہے تھے اپوزیشن کے ساتھ بیک چینل پر قبل از وقت انتخابات کی ڈیل ہو گئی ہے۔ لیکن میری رائے تھی کہ یہ ممکن نہیں۔ اپوزیشن کیوں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد واپس لے کر عمران خان کی انتخابی اصلاحات پر انتخابات پر مان جائے گی۔

سارا کھیل ہی ای وی ایم اور دیگر اصلاحات کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ ایک قیاس آرائی یہ بھی تھی کہ وہ اپنی پوری پارلیمانی جماعت کے مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے۔ ساتھ ساتھ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان بھی کریں گے۔ اس طرح سارا کھیل خراب ہو جائے گا۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ عمران خان کا اپنی جماعت پر کنٹرول کمزور ہو گیا ہے۔

شاید ان کے ساتھ سب مستعفیٰ ہونے کے لیے تیار بھی نہ ہوں۔ اس لیے وہ یہ کارڈ کھیل کر اپنی کمزوری مزید ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے واقعی عمران خان سیاسی طور پر ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ اب ان کے پاس کوئی کارڈ نہیں بچا ہے۔ انھیں بالآخر اپوزیشن کی وکٹ پر ہی کھیلنا ہے۔ کھیل نے قومی اسمبلی میں آنا ہے اور وہیں ووٹنگ ہونی ہے۔ وہ شدید کوشش کے باوجود اس سے بچ نہیں سکے۔

عمران خان نے اپنے جلسے میں ایک خط لہرایا ہے اور کہا ہے کہ یہ خط اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں ہٹانے کے لیے بیرونی مداخلت ہو رہی ہے۔ لیکن انھوں نے خط کے مندرجات پڑھنے اور اس کے بارے میں بتانے سے احتراز کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ملکی مفاد انھیں اس خط کے مندرجات اور تفصیلات عوام کے سامنے پیش کرنے سے روکتا ہے۔ لیکن یہ خط اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

اس کے پیچھے ایک بیرونی ہاتھ ہے۔ اس جلسے کے بعد ایک ٹی وی شو میں جس میں میں بھی موجود تھا‘ ہم نے پاکستان کے وزیر خارجہ سے اس خط کے بارے میں پوچھنے کی بہت کوشش کی تا ہم انھوں نے بھی کچھ بتانے سے انکار کیا۔

میں یہی سمجھتا ہوں کہ اول تو ایسا کوئی خط موجود ہی نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ امریکا اور یورپی یونین نے وزارت خارجہ کے ذریعے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خط میں کہا گیا ہو کہ ہم جو تعاون پاکستان کے ساتھ کرتے ہیں وہ ختم کر دیں گے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خط میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی بات موجود ہوگی۔

یہ سفارتی آداب نہیں ہیں۔ ایسے معاملات میں خط جاری نہیں کیے جاتے۔ البتہ یہ ضرور واضح ہے کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی پر پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو شدید تحفظات پیدا ہو گئے تھے۔ وہ اسے پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں مان رہے تھے یہ بات سب کو نظر آرہی تھی۔

عمران خان کے امریکا سے بہترین تعلقات تھے وہ ٹرمپ سے ملے اور انھیں ایسا لگ رہا ہے کہ انھوں نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے۔ امریکا کے دورے کے بعد انھوں نے پاکستان میں اپنا شاندار استقبال کروایا۔ اس لیے ایسا نہیں تھا کہ عمران خان پہلے دن سے امریکا مخالف خارجہ پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

وہ تو افغانستان میں امریکی انخلاء کے موقعے پر بھی امریکا سے دوستی کا دم بھرتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ انھوں نے دوحہ معاہدہ کرانے میں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب سے بائیڈن نے ان کو فون نہیں کیا۔ وہ امریکا سے ناراض ہو گئے ہیں۔ حالانکہ امریکا نے پاکستان سے باقی روابط قائم رکھے ہیں۔ امریکی سفارتکاروں نے پاکستان سے تعلقات پر کبھی کوئی منفی بات نہیں کی۔ لیکن بائیڈن کے فون نہ آنے کو انا کا مسئلہ بنا لیاگیا۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی عمران خان جتنی آگے جا کر طالبان کی حمایت کر رہے تھے وہ مغرب اور امریکا کو پسند نہیں تھی۔ سفارتی آداب میں جب اختلاف ہو تو بات نہیں کی جاتی۔ ایک طرف عمران خان پوری دنیا کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا درس دیتے ہیں، دوسری طرف اتنی جرات نہیں کہ خود ہی تسلیم کر لیں۔ بھئی پہلے آپ خود تسلیم کریں گے تو دوسروں کو کہہ سکیں گے۔ آپ خود بھی تسلیم نہیں کر رہے لیکن دوسروں کو کہے جا رہے ہیں تو دنیا مذاق ہی بنائے گی۔

جب ٹرمپ لفٹ کروا رہا تھا۔ تب سی پیک کو سست کر دیاگیا۔ بعد میں جب امریکا نے لفٹ ختم کرو ادی تو چین دوبارہ یاد آگیا۔ خارجہ پالیسی ایسے نہیں چلتی کہ ایک طرف سے جواب ہوا تو دوسری طرف رخ کر لیا۔ یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ دنیا آپ کی مرضی سے نہیں چلتی۔ دنیا آپ کی مستقل پالیسی کو دیکھ کر چلتی ہے۔ روز موقف آپ پاکستان کی اندرونی سیاست میں تو بدل سکتے ہیں لیکن عالمی سیاست میں نہیں۔ دوست اور دشمن روز نہیں بدل سکتے۔

آپ دیکھیں عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کے خلاف یورپی یونین میں دو قراردادیں واضح اکثریت سے منظور ہوئی ہیں۔ یہ بھی تو حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ اس کی وجہ سے خطرات ہیں کہ ہمیں جی ایس پی پلس دوبارہ نہیں ملے گا۔ عمران خان جو مغرب کو مغرب سے زیادہ جانتے ہیں ان کے دور میں مغرب میں ہمارے خلاف سب سے زیادہ کام کیا گیا ہے۔

عمران خان اپنے چار سال کی وزارت عظمیٰ میں برطانیہ کا ایک سرکاری دورہ نہیں کر سکے ہیں۔ حالانکہ وہ برطانیہ میں رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ برطانیہ کو برطانیہ سے زیادہ جانتے ہیں۔ لیکن برطانیہ سے وہ پاکستان کے لیے کچھ نہیں لے سکے۔ جب مغرب اور امریکا سے یہ تعلقات ہوں تو کسی سازش کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو آپ کی سفارتی ناکامیاں نظر آرہی ہیں۔ اس لیے وہ نیوٹرل ہیں۔

روس کا بہت دم بھرا جاتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ جب عالمی منڈی میں روس کا تیل بہت سستا بک رہا تھا تو بھارت نے تو خرید لیا۔ ہم پابندیوں کے خوف سے روس کا تیل نہیں خرید سکے۔ دورہ روس اتنے غلط وقت پر تھا کہ کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی نہیں ہو سکا۔ کوئی معاہدہ بھی نہیں ہو سکا۔ البتہ نقصان ہوا۔

عمران خان نے پہلے عربوں کے ساتھ شوفر ڈپلومیسی شروع کی۔ ان کی گاڑیاں چلا کر پاکستان کا مذاق بنایا۔ پھر نیو یارک میں ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ مل کر عربوں کے خلاف بلاک کے حامی بن گئے لیکن جب ملائیشیا نے کانفرنس بلا لی تو عربوں نے کہا کہ اگر اس کانفرنس میں جانا ہے تو سارا تعاون ختم۔ پھر ہماری خارجہ پالیسی اتنی آزاد تھی کہ اپنی ہی بلائی ہوئی کانفرنس میں نہ جا سکے۔ سعودی عرب معافی مانگنے گئے لیکن پھر بھی کانفرنس میں جانے کی اجازت نہیں ملی اور پاکستان کی بہت جگ ہنسائی ہوئی۔

باقی اگر عمران خان نے بھٹو بننے کا فیصلہ کیا ہے توہم کیا کہہ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں