وطن نیوز انٹر نیشنل

لاہور جلسہ: ’کان کھول کر سن لو! اصل پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے،‘ عمران خان

لاہور جلسہ: ’کان کھول کر سن لو! اصل پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے،‘ عمران خان
سابق وزیر اعظم عمران خان نے نام لیے بغیر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے کہا ہے کہ وہ اپنی غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے ملک میں فوری طور پر الیکشن کرائے وگرنہ وہ بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کر سکتے ہیں۔
پاکستان عمران خان لاہور جلسہ
اسلام آباد کی طرف میرے لانگ مارچ کی کال کا انتظار کریں، عمران خا
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ملک میں عوام کی حقیقی آزادی کے لیے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ کارکنان گلی گلی اور محلے محلے جاکے عوام کو تیار کریں اور ”اسلام آباد کی طرف میرے لانگ مارچ کی کال کا انتظار کریں۔‘‘ پاکستان میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان نے اپنے اسلام آباد کی طرف مارچ کے حتمی پروگرام کا اعلان نہ کر کے ان کی حکومت گرانے والوں کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ حالات بے قابو ہونے سے پہلے اپنی غلطی کی تلافی کرتے ہوئے ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کروا دیں۔
لاہور جلسہ پاکستان تحریک انصاف
روشنیوں میں نہائے، پرچموں سے سجے اور ترانوں سے گونجتے گریٹر اقبال پارک میں ہزاروں پر جوش کارکنوں اور حامیوں کے سامنے عمران خان نے ستر منٹ تک خطاب کیا۔ دو ہفتے کی قلیل مدت کے دوران پشاور اور کراچی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر لاہور میں یہ جلسہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی قوت کا بڑا بھرپور مظاہرہ تھا۔
الیکشن کا مطالبہ
اپنے ماضی کے طرز عمل کے برعکس، محتاط انداز میں کی گئی اپنی تقریر میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو اپنے نشانے پر رکھا۔ انہوں نے اپنی حکومت کی کارکردگی بیان کی، اسلامو فوبیا کے خلاف اپنی کوششوں کا ذکر کیا، مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے لیڈروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے پاک فوج کی قربانیوں کی تحسین کی، اکیس اپریل کی مناسبت سے علامہ اقبال کے آزادی کے پیغام کو بیان کیا اور شرکا سے ملک میں حقیقی آزادی اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد لیا۔ انہوں نے کہا، ”میں کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا۔ بس میں چاہتا ہوں کہ جلد از جلد انتخابات کروا دیے جائیں۔‘‘
’موجودہ حکومت نامنظور‘
عمران خان اپنی تقریر میں کامیاب جلسے پر لاہور کے شہریوں کا شکریہ ادا کرنا بھی نہیں بھولے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اورکرپٹ لوگوں کی غلامی سے پاکستانیوں کو نجات دلوانے کا وعدہ کیا۔ سابق وزیراعظم نے گلی گلی محلے محلے عوام کو منظم کرکے حقیقی آزادی کی تحریک میں تیزی لانے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ عمران خان نے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا بھی جواب دیا اور کہا کہ ماضی میں توشہ خانے سے تحائف کی قیمت کا 15 فی صد ادا کرکے تحائف لے لیے جاتے تھے۔ جبکہ انہوں نے 50 فیصد رقم ادا کرکے جو تحائف لیے ان سے ملنے والے پیسوں سے اپنے علاقے کی سڑک بنوائی۔ ” میں نے دیگر حکمرانوں کی طرح اپنے لیے نہ کیمپ آفسز بنوائے اور نہ ہی سرکاری وسائل کو اپنی ذات کے لیے استعمال کیا۔‘‘
لاہور جلسہ پاکستان تحریک انصاف
ایک سینئر کالم نگار عامر خاقوانی کے بقول رائے عامہ کو متاثر کرنے والے ملی نغموں اور پر جوش نعروں کی گونج میں ہونے والی عمران خان کی تقریر پورے بارہ مصالحے لیے ہوئے تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب لندن میں میاں نواز شریف بلاول بھٹو سے ملاقات کے بعد اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کے یو ٹرنوں کا ذکر کرکے انہیں ہدف تنقید بنا رہے تھے، عین اسی وقت عمران خان نواز شریف کے شہر لاہورمیں ایک بہت بڑے تاریخی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے لاہوریوں کو بتا رہے تھے کہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے وہ ملک چھوڑ کر باہر نہیں جا سکتے ۔ ”میں جب تک زندہ ہوں ملک میں جاری ظلم اور نا انصافی کے خلاف لڑتا رہوں گا۔‘‘
موروثی سیاست پر تنقید
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بنتے ہی پہلی کوشش آزادانہ خارجہ پالیسی بنانا تھی، وہ ایسے فیصلے کرنا چاہتے تھے، جو عوام کے مفاد میں ہوں، ایک فون پر پاکستان سے بات منوانے والوں کو آزاد خارجہ پالیسی کی بات پسند نہیں آئی۔ ”میں نے کبھی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی، نہ ہی ڈکٹیشن لینے کا کوئی ارادہ تھا۔‘‘
عمران خان نے کہا کہ انہوں نے اپنے کسی رشتے دار کو نہیں نوازا۔ اب مسلم لیگ نون اور دیگر موروثی سیاست والی جماعتوں کو شرم آ نی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کیا ان جماعتوں میں کوئی اور اہل آدمی نہیں جو قیادت کر سکے؟ ”یہ کیا معاملہ ہے کہ باپ وزیراعظم بن گیا اور اب بیٹا بھی وزیر اعلی پنجاب بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ جن لوگوں کو جیلوں میں ہونا چاہیے تھا ان کو اقتدار میں بٹھا دیا گیا ہے۔‘‘
کرپشن کے کیسز
عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے خلاف نوے فی صد کیسز وہ ہیں جو ان سے پہلی حکومتوں نے بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ساڑھے تین سال ان کیسز کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا لیک میں کامیاب نہیں ہو سکا۔” عدلیہ آزاد تھی اور نیب میرے نیچے نہیں تھا اور میرے پاس طاقت نہیں تھی۔‘‘ لیکن ان کے بقول جن لوگوں کے پاس طاقت تھی وہ کرپشن کو برائی نہیں سمجھتے تھے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے بتایا کہ لاہور کا کامیاب جلسہ نئے الیکشن کے لیے دباؤ میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ ان کے بقول عمران خان نے اسلام آباد مارچ یا کسی دوسرے جلسے کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا، لگتا ہے کہ وہ عید کے بعد اپنا احتجاج جاری رکھیں گے تب تک آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں جو مہنگائی کا طوفان ملک میں آئے گا عمران خان اس سے بھی اپنے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے فائدہ اٹھائیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات اس سال کے آخر تک ہو سکتے ہیں ابھی حکومت بجٹ میں مصروف ہے پھر الیکشن کمیشن کو بھی تیاری کا وقت چاہیے۔ ”اگر یہ حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس کی مدت پوری ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ”عمران نے غلطی کی بات کر کے اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسے دکھ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچا ہے اس صورتحال کا عمران خان کی مخالف جماعتیں پورا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔‘‘
لاہور جلسہ پاکستان تحریک انصاف
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ کو قبول کر کے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرتی ہے یا نہیں لیکن یہ بات ڈاکٹر عسکری تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ریٹائرڈ فوجیوں اور عسکری حلقوں میں عمران کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔
ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر کالم نگار عامر خاقوانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رمضان کے دنوں میں سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں سیاسی جماعتیں کارنر میٹنگز رکھنے سے بھی عام طور پر گریز ہی کرتی ہیں۔ لیکن رمضان کے مہینے میں ہزاروں لوگوں اور بعض کا اپنی فیملیز کے ساتھ اس جلسے میں شریک ہونا ایک غیرمعمولی بات ہے۔
’عمران خان کو روکنا آسان نہیں‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تاریخ ساز اجتماع، پرجوش بیانیہ، روایتی مگر اپنے ایجنڈے پر فوکسڈ متاثرکن تقریر کے بعد لگتا یوں ہے کہ اب عمران خان کو روکنا آسان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جمہوریت کا تحفظ، ٹکراؤ سے گریز، فوج کی غیر مشروط ستائش اور منصفانہ انتخابات کے مطالبے پر مبنی عمران خان کے بیانیے کو کون رد کر سکتا ہے۔ ”کوئی چاہے یا نہ چاہے لیکن ملک اب نئے الیکشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘
بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستان ایک سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر الیکشن نہ ہو سکے تو ملک کو سنبھالنا موجودہ حکومت کے لیے بہت مشکل ہو جائے گا، متحدہ اپوزیشن کے بر سر اقتدار آتے ہی ان کے اختلافات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اگر الیکشن ہو گئے اور پاکستان تحریک انصاف عمومی اندازوں کے مطابق دوبارہ اقتدار میں آگئی تو پھر عمران خان کسی ایسے شخص کو آرمی چیف لگا سکتے ہیں جو پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں اور بعض طاقتور لوگوں کے لیے اطمینان کا باعث نہیں ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں