وطن نیوز انٹر نیشنل

فرانس میں صدارتی انتخابات، یورپ کے لیے بہت کچھ داؤ پر

فرانس میں صدارتی انتخابات، یورپ کے لیے بہت کچھ داؤ پر
یورپی ملک فرانس میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔ یورپی یونین کے حامی صدر ماکروں انتہائی دائیں بازو کی اور مہاجرین مخالف خاتون رہنما مارین لے پین کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ابتدائی جائزوں کے مطابق موجودہ صدر ایمانویل ماکروں کو انتہائی دائیں بازو کی اور مہاجرین مخالف خاتون رہنما مارین لے پین پر دس فیصد ووٹوں سے سبقت حاصل ہے۔ سیاسی ماہرین بھی ماکروں کو پسندیدہ امیدوار قرار دے رہے ہیں
لے پین اگر جیت جاتی ہیں تو وہ جدید فرانس کی پہلی انتہائی دائیں بازو کی رہنما اور پہلی خاتون صدر بن جائیں گی۔ دوسری جانب ماکروں گزشتہ دو دہائیوں میں دوبارہ انتخاب جیتنے والے پہلے فرانسیسی صدر ہوں گے۔ تقریباً 48.7 ملین فرانسیسی ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ متعدد تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا بھی ممکن ہے کہ ایسٹر کی چھٹیوں کی وجہ بہت سے افراد ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے ہی نہ نکلیں۔ اگر ایسا ہوا تو صدر ماکروں اور مارین لے پین کے درمیان ووٹروں کا فرق مزید کم ہو جائے گا۔
یہ انتخاب اتنا اہم کیوں؟
اس صدارتی انتخاب میں یورپ کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ماکروں یورپی یونین کے اتحاد کے حامی ہیں اور انہوں نے یورپی انضمام کا وعدہ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب مارین لے پین اس بلاک میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی خواہش مند ہیں۔ ناقدین لے پین کے اس منصوبے کو ‘فریگزٹ‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ بالکل بریگزٹ کی طرح ہے یعنی جیسے برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا تھا۔
مارین لے پین مہاجرین مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم مخالف بھی ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مقامات پر ہیڈ اسکارف پہننے پر بھی پابندی عائد کر دیں گی۔ صدر ماکروں نے کھلے الفاظ میں اس منصوبے کی مخالفت کی تھی تاکہ انہیں مسلمان ووٹروں کی حمایت حاصل ہو سکے۔ تاہم ووٹنگ سے پہلے لے پین کی ٹیم نے اسکارف پر پابندی عائد کرنے کی تجویز واپس لے لی تھی اور کہا تھا کہ یہ موضوع اب ‘ترجیحی‘ نہیں رہا۔
یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی ان دونوں صدارتی امیدواروں کے مابین اختلافات پائے جاتے ہیں۔ صدر ماکروں کا کہنا ہے کہ لے پین یوکرین تنازعے سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں کیوں کہ ان کی پارٹی نے روسی چیک بینک سے قرض لے رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں