وطن نیوز انٹر نیشنل

‘ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں’، بھارتی دانشور


بھارت کی سرکردہ شخصیات نے وزیر اعظم مودی کے نام ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ وہ ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے زیر کنٹرول حکومتیں زور و شور سے نفرت کی سیاست کو ہوا دے رہی ہیں۔
بھارت کی سو سے زیادہ سرکردہ شخصیات، سابق اعلٰی عہدیداروں اور نوکرشاہوں کے ایک گروپ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو تین صفحات پر مشتمل ایک مکتوب لکھا ہے، جس میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اقلیتی برادریوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس خط کے مطابق موجودہ صورت حال میں ریاستی حکومتیں پوری طرح ملوث نظر آتی ہیں، جس سے ملک کے آئین کو ہی خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اس امید کے ساتھ یہ مکتوب بھیجا ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے آواز اٹھائیں گے۔
خط میں کیا ہے؟
سابقہ اعلٰی عہدیداروں نے مودی کے نام اپنے مکتوب میں لکھا ، ’’گزشتہ چند برسوں اور حالیہ مہینوں میں اقلیتی برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تشدد میں کئی ریاستوں کے اندرغیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ دہلی کو چھوڑ کر (جہاں مرکزی حکومت پولیس کو کنٹرول کرتی ہے) ریاست آسام، دہلی، گجرات، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور اتراکھنڈ، ان تمام ریاستوں میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں ہے، ایک خوفناک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔‘‘
ملک کے سابق نوکر شاہوں کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بے مثال خطرہ ہے اور یہ صرف آئینی اخلاقیات اور طرز عمل کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس منفرد ہم آہنگی والے سماجی تانے بانے کے لیے بھی خطرہ ہے، ’’جو ہماری سب سے بڑی تہذیبی وراثت ہے اور جس کے تحفظ کے لیے ہی ہمارے آئین کو بہت احتیاط سے تیار کیا گیا تھا اور اب اس کے ٹوٹنے کا امکان ہے۔‘‘
وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے دانشوروں نے لکھا، ’’اس بہت بڑے معاشرتی خطرے پر، آپ کی خاموشی سب کو بہرا کر رہی ہے۔ ہماری آپ کے ضمیر سے اپیل ہے کہ آپ نے ‘سب کا ساتھ، سب کی ترقی اور سب کے اعتماد’ کا جو وعدہ کیا ہے اس پر صمیم قلب سے غور کریں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’سابق سرکاری ملازمین کے طور پر، یہ ہماری عادت کے برعکس ہے، کہ ہم اظہار خیال کے لیے اس طرح کے انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کریں۔ لیکن مسلسل جس تیز رفتاری سے ہمارے بانیوں کے تعمیر کردہ آئینی عمارت کو تباہ کیا جا رہا ہے، وہ ہمیں بولنے اور اپنے غم و غصے کے اظہار پر مجبور کرتا ہے۔‘‘
اس مکتوب میں وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’ہمیں توقع ہے کہ ملک کی آزادی کے 75 برس کی تکیمل کے موقع پر رواں برس جو ‘آزادی کا امرت مہوتسو’ منایا جا رہا ہے، اس میں متعصبانہ خیالات سے بالاتر ہو کر، آپ اس نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں گے، جس پر آپ ہی کی جماعت کی حکومتیں بڑی محنت سے عمل کر رہی ہیں۔‘‘
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بی جے پی 2014 ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی، جم کر سماج کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں اور آئے دن مساجد اور دیگر املاک کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
کئی ریاستیں تبدیلی مذہب کی مخالفت میں متنازعہ قوانین منظور کر چکی ہیں اور کئی اس پر غور کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ اقدام آئینی طور پر عقیدے کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنے والے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
مودی حکومت نے شہریت سے متعلق ایک نیا قانون بھی منظور کیا ہے، جس میں مسلمانوں کے علاوہ، پڑوسی ممالک سے آنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت دینے کا وعدہ کیا گيا ہے۔
سن 2019 میں دوبارہ انتخاب میں کامیابی کے فوراً بعد مودی کی حکومت نے مسلم اکثریتی خطے کشمیر کو حاصل تمام خصوصی آئینی اختیارات ختم کرتے ہوئے اس کا ریاستی درجہ تک ختم کر دیا تھا۔ اس وقت سے کشمیر بھارتی سکیورٹی کے سخت حصار میں ہے، جس کے سینکڑوں سیاسی رہنما اور ہزاروں کارکن بھارت کی مختلف جیلوں میں اب بھی قید ہیں۔
حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ایک ریاست میں تو حجاب پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں