وطن نیوز انٹر نیشنل

خطے کے دو بڑے حریف، ترکی اور اسرائیل باہمی قربت کے لیے کوشاں


ترکی اور اسرائیل دو علاقائی حریف ہیں، جو اب باہمی قربت کی کوشش میں ہیں۔ صدر ایردوآن کی دعوت پر اسرائیلی صدر ہرزوگ نو مارچ سے ترکی کا سرکاری دورہ کریں گے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں ترک اسرائیلی تعلقات میں زیر و بم پر ایک نظر۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن کی دعوت پر بدھ نو مارچ سے ترکی کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں، جس دوران دونوں علاقائی حریف ریاستیں مابین ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک نئی ابتدا کی کوشش کریں گی۔ دونوں ممالک کے باہمی روابط ماضی میں کئی مرتبہ شدید کشیدگی کا شکار رہے ہیں اور صدر ہرزوگ کا یہ دورہ 2008ء سے لے کر آج تک اسرائیل کے کسی بھی اعلیٰ ترین رہنما کا ترکی کا اولین دورہ ہو گا۔
ترک اسرائیلی تعلقات میں گ‍زشتہ بارہ برسوں کے دوران کیا کچھ ہوا؟
۔ مئی 2010ء: حماس کے زیرانتظام غزہ کے فلسطینی علاقے کی اسرائیل کی طرف سے بحری ناکہ بندی کے دوران غزہ کے لیے امداد لے کر جانے والے ایک ترک بحری امدادی قافلے پر بحیرہ مارمرہ میں اسرائیلی کمانڈوز کے ایک حملے میں نو ترک امدادی کارکن مارے گئے تھے۔ دسواں زخمی کارکن تقریباﹰ چار سال تک مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد 2014ء میں انتقال کر گیا تھا۔ یہ واقعہ ترکی اور اسرائیل کے مابین شدید نوعیت کی طویل کشیدگی کی وجہ بنا تھا۔
۔ ستمبر 2011ء: ترک حکومت نے انقرہ میں اسرائیلی سفارتی موجودگی کی سطح کم کر کے صرف سیکنڈ سیکرٹری لیول تک کر دی تھی۔ ایسا اقوام متحدہ کی طرف سے مئی 2010ء کے ہلاکت خیز سمندری واقعے سے متعلق ایک رپورٹ کے اجراء کے بعد کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مطلب یہ تھا کہ ترکی نے عملاﹰ اپنے ہاں سے تمام بڑے اسرائیلی سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا تھا۔
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ
۔ مارچ 2013ء: امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے کی گئی کوششوں کے بعد ایک فون کال میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے رجب طیب ایردوآن سے گفتگو میں باقاعدہ معافی مانگی اور ان ترک ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا، جو بحیرہ مارمرہ میں ترک بحری امدادی قافلے کے خلاف اسرائیلی کمانڈو آپریشن میں ہوئی تھیں۔
۔ دسمبر 2015ء: اسرائیل اور ترکی کے باہمی تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کے لیے ایک ابتدائی معاہدہ طے پا گیا اور دونوں ممالک کے سفیر بھی ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں لوٹ گئے۔
۔ جون 2016ء: اسرائیل اور ترکی کے مابین چھ سالہ کشیدگی کے بعد دوطرفہ روابط کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کر دیے گئے۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے علاقائی سلامتی اور استحکام کے لیے ‘ایک بڑا اشارہ‘ قرار دیا تھا۔
۔ نومبر 2016ء: دونوں حریف ممالک کے مابین روابط میں مزید بہتری آئی اور صدر ایردوآن نےاسرائیل میں نیا ترک سفیر نامزد کر دیا، جس کے بعد اسرائیل نے بھی انقرہ میں اپنا نیا سفیر بھیج دیا۔
۔ جون 2017ء: ترک وزیر خزانہ نے تصدیق کی کہ اسرائیل نے بحیرہ مارمرہ میں پیش آنے والے واقعے میں ترک ہلاک شدگان کے خاندانوں کو مجموعی طور پر 20 ملین ڈالر کی رقم بطور تلافی ادا کر دی ہے۔
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
۔ مئی 2018ء: دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے اعلیٰ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔ وجہ غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں جاری مظاہروں کے دوران اسرائیلی دستوں کی کارروائیوں میں 60 فلسطینیوں کی ہلاکت بنی۔ یہ فلسطینی اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت کو ترک صدر ایردوآن نے نسل کشی اور اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا۔
دسمبر 2019ء: اسرائیل نے چند ماہ قبل ترکی اور لیبیا کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کی مخالفت کی، جس میں مشرقی بحیرہ روم میں سمندری حدود کا تعین کیا گیا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد اسرائیل، یونان اور قبرص نے بھی ایک معاہدے پر دستخط کر دیے، جو قدرتی گیس کی یورپ کو ترسیل کے لیے ایک پائپ لائن سے متعلق تھا۔ ترکی نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی تھی اور بعد میں یہ منصوبہ روک دیا گیا تھا۔
۔ نومبر 2021ء: ترکی نے اس اسرائیلی جوڑے کو رہا کر دیا، جس پر جاسوسی کا الزام تھا اور جسے استنبول میں صدر ایردوآن کی سرکاری رہائش گاہ کی تصویریں بناتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے جاسوسی کے ان الزمات کی تردید کی۔ بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ٹیلی فون پر صدر ایردوآن سے گفتگو کی، جو بینیٹ کے دفتر کے مطابق دونوں ممالک کے حکومتی سربراہان کے مابین 2013ء کے بعد ہونے والی پہلی بات چیت تھی۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے
۔ فروری 2022ء: صدر ایردوآن نے کہا کہ ترکی اور اسرائیل مل کر اسرائیلی قدرتی گیس کی یورپ کو ترسیل کے منصوبے پر کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے مابین توانائی کے شعبے میں تعاون پر مارچ میں ہونے والی بات چیت میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
۔ فروری 2022ء: ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے اسرائیلی صدر کے آئندہ سرکاری دورہ ترکی سے قبل کہا کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے قیام کے لیے ایک آزاد اور خود مختار فلسطینبی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت سے کبھی دست بردار نہیں ہو
۔ مارچ 2022ء: اسرائیل اور ترکی دونوں کی طرف سے کہا گیا کہ اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کے دورہ ترکی کے دوران ایردوآن اور ہرزوگ اپنے مذاکرات میں دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے باہمی تعاون میں اضافے پر مشورے کریں گے۔
م م / ع ت (روئٹرز، اے ایف پی)
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں