وطن نیوز انٹر نیشنل

پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری: الزامات اور رد الزام


پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری پر کئی حلقے تشویش کا شکار ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر سیاستدانوں نے بروقت مداخلت کر کے اپنے کارکنان کی تربیت نہیں کی تو ملک میں سیاسی عدم رواداری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔
واضح رہے ہے اٹھائیس اپریل کو وزیراعظم شہباز شریف کے وفد میں شامل وفاقی وزیرا طلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور وفاقی وزیر برائے انسداد منشیات شاہ زین بگٹی جب مسجد نبوی پہنچے، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے شاہ زین بال بھی کھینچے۔ اس موقع پر مریم اورنگزیب کے خلاف انتہائی نا مناسب زبان استعمال کی۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنماوں کی ٹویٹس سے یہ تاثر ابھرا کہ انہوں نے اس اقدام کی تائید کی ہے جب کہ مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز سمیت کئی سیاسی رہنماوں نے اس واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس واقعے کو اشتعال انگیز قرار دیا اور وفاقی وزیر برائے کشمیر قمر زمان کائرہ نے عمران خان سے اپیل کی کہ وہ اقدار کی پاسداری کریں اور قوم کو تقسیم نہ کریں۔
قاسم سوری پر حملے کی کوشش
ابھی اس واقعہ کی گونج ملک میں ہر طرف پھیل رہی تھی کہ اسلام آباد میں میں جمعہ کی صبح سحری کے وقت سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری پر کچھ لوگوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی اور برا بھلا کہا۔ قاسم سوری نے اس حوالے سے تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائی ہے
پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکنوں میں پتھراؤ
تھانہ کوہسار کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” قاسم سوری نے نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اسلام آباد میں ایک ہوٹل پر بیٹھے تھے کہ کچھ عناصر نے آکر گالی گلوچ شروع کی لیکن وہاں پر موجود لوگوں نے اس پر شدید ردعمل کیا اور حملہ اور بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔‘‘
قاسم سوری نے اپنے ویڈیو بیان میں اس حملے کا ذمہ دار شہباز شریف حکومت کو ٹھہرایا ہے اور اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ سازش کے ذریعے برسراقتدار آئی ہے۔
یہ عوامی رد عمل ہے
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک عوامی رد عمل ہے ان لوگوں کے خلاف جو سازش کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے ایک رہنما محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” میں یہ بتاؤں کہ یہ واقعہ مسجد نبوی کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر ہوا ہے، یہ عوامی ردعمل ہے، لوگ اخلاص کے ساتھ یقین رکھتے ہیں کہ یہ چوروں اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے اور یہ ایک سازش کے تحت اقتدار میں آئے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چور کو مقدس مقامات پر چور نہیں کہا جائے گا تو کہاں کہا جائے گا۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں