وطن نیوز انٹر نیشنل

ازبکستان اور پاکستان کے برادرانہ تعلقات

ازبکستان کا دارالحکومت تاشقند اور بولی جانے والی زبانوں میں ازبک، تاجک، ترکمان، روسی اور عربی شامل ہیں۔ ملک کی اکثریت یعنی اٹھاسی فیصدآبادی مسلمان ہے، نو فیصد عیسائی اور باقی مذاہب کے ماننے والے کل آبادی کا بمشکل تین فیصد ہیں۔ کرنسی کا نام ازبک سوم ہے۔1991 میں آزادی سے لے کر پاک ازبک سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ گزشتہ برس دونوں ملکوں کے تجارتی حجم میں پچاس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن اِسے بہت بہتر نہیں کہہ سکتے۔ تجارت میں پاکستانی برآمدات کا حصہ 32.5 ملین ڈالر اور 0.276 بلین ڈالر درآمدات ہیں۔ دونوں ممالک میں تعاون کے بے شمار مواقع ہونے کے باوجود یہ صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ تجارت کے علاوہ فنی تعاون کی بھی کافی گنجائش ہے۔ پاکستان کو طویل عرصے سے توانائی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ ازبکستان پاور پلانٹس میں ترقی یافتہ ہے۔ اِن تجربات سے فائدہ اُٹھا کر ملک کی توانائی کی طلب پوری کی جا سکتی ہے۔ ازبکستان کے پاس ملکی ضروریات سے بجلی وافر ہے یہ اضافی بجلی ہمسایہ ملک افغانستان کو فروخت بھی کر رہا ہے۔

رواں ماہ تین اور چار مارچ کو ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف دو روزہ دورے پر پاکستان آئے ویسے تو دونوں ملکوں میں کئی دہائیوں سے دوستانہ مراسم ہیں جن میں وقت کے ساتھ مزید گرمجوشی آ رہی ہے۔ یہ مراسم مضبوط ثقافتی و مذہبی رشتوں کے ساتھ باہمی خلوص اور افہام و تفہیم جیسے رشتوں پر مبنی ہیں۔ دونوں برادر ممالک کے حکومتی مراسم اب عوامی اور ثقافتی سطح کے روابط تک فروغ پذیر ہیں۔ توانائی، سرمایہ کاری اور تجارت میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اُزبک صدر کے حالیہ دورے کے دوران قریبی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے کچھ سنجیدہ فیصلے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے اگلا قدم کے عنوان سے مشترکہ اعلامیے پر دستخط ہوئے اور نہ صرف مسلح افواج کی سطح پر گفت و شنید اور تعاون بڑھانے کا فیصلہ ہوا بلکہ مشترکہ مشقوں، پیشہ ورانہ تجربات اور تربیت کے تبادلے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ دوطرفہ ترجیحی تجارتی معاہدے کے ساتھ دیگر شعبوں جیسے ریلوے، مذہبی، سیاحت، موسمیاتی تبدیلیوں، سرمایہ کاری، توانائی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کے نئے معاہدوں کے ساتھ 9 یادداشتوں پر بھی دستخط ہوئے جس سے قریبی تعاون میں اضافہ متوقع ہے۔ یہ دورہ پاک ازبک تعلقات کا نیا خوشگوار موڑ بن سکتا ہے۔

موجودہ صدی میں ریاستوں کی سطح پر تعلقات میں بہتری اور عالمی تنازعات میں کمی آئی ہے۔ دنیا جیو سٹریٹیجک سے جیو اکنامکس کی طرف آ چکی ہے۔ علاقائی سطح پر تعاون کو فروغ دینے کے لیے تنظیمیں معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ آسیان ، یورپی یونین اور افریقی ممالک میں اقتصادی اور تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے اِن تنظیموں نے قابلِ قدر کا م کیا ہے جس سے ممبر ممالک کی معاشی حالت بہتر ہوئی۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیا میں 1985 میں سارک کے نام سے تنظیم بنی لیکن سارک تنظیم رُکن ممالک کے تنازعات حل کرنے اور تعلقات کو فروغ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جس کی وجہ بھارتی ہٹ دھرمی ہے۔ جو برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کے بجائے علاقے میں بالادستی چاہتا ہے لیکن اہداف حاصل نہ ہونے پر مختلف ہتھکنڈوں سے تنظیم کے اجلاس میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر تا ہے۔ اِن حالات میں نئی منڈیوں کی تلاش اشد ضروری ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ تجارت کو فروغ کے لیے نئی منڈیوں کی جستجو کی جا رہی ہے۔ تجارت کے لیے نئی منڈیاں حاصل ہونے سے پاکستان اپنی خراب معاشی حالت بہتر بنا سکتا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا تجارتی خسارہ آٹھ ماہ میں 82.26 فیصد بڑھ کر جولائی سے فروری تک31 ارب 95 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہو گیا ہے حالانکہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران یہ خسارہ17 ارب 53 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھا اگر تجارتی خسارے کو منفی سے مثبت بنانے کے لیے موثر طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا تو معاشی حالت میں بہتری یا استحکام ممکن نہیں۔

پاک ازبک تعاون بڑھانے کے بے شمار مواقع ہیں۔ ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف نے اپنے حالیہ دورے کے دوران میزبان وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ باہمی تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے پشاور، کابل، مزار شریف اور ترمیز ریلوے منصوبے کی افادیت کے پیشِ نظر توثیق کرتے ہوئے روڈ میپ تیار کرنے پر اتفاق کیا اور جلد ہی منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ بنانے اور تعمیراتی کام کے آغاز کا عندیہ دیا۔ اگر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تو ازبکستان متبادل منصوبے پر کام کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اسی لیے افغانستان کو بائی پاس کرتے ہوئے وسطی ایشیا، چین کے علاقہ سنکیانگ کو شاہراہ قراقرم کے ذریعے گلگت بلتستان کے راستے کو تجارتی گزرگاہ بنانے پر غور و خوض جاری ہے۔ ازبکستان بیرونی تجارت کے لیے اِس وقت ایرانی بندرگاہ بندر عباس پر انحصار کرنے پر مجبور ہے لیکن طویل مسافت اور مختلف رکاوٹوں کی وجہ سے متبادل گزرگاہ چاہتا ہے تاکہ فاصلہ کم ہونے سے نقل و حرکت پر اُٹھنے والے بھاری بھرکم اخراجات کم ہوں۔ ازبکستان کی یہ ضرورت پاکستان کی بندرگاہیں بآسانی پوری کر سکتی ہیں لیکن اعتماد سازی کے لیے سہولتیں فراہم کرنے سے ہی اُسے راغب کرنے میں مدد ملے گی۔

اُزبکستان کی صورت میں پاکستان کو وسطی ایشیا میں ایک اور اچھا دوست مل سکتا ہے کیونکہ خوش قسمتی سے اُزبکستان کی قیادت بھی پاکستان کی طرف مائل ہے۔ دونوں ملک افغانستان کے بینکوں کے اثاثے منجمد نہ کرنے کے حوالے سے یکساں موقف رکھتے ہیں۔ شوکت مرزایوف اور عمران خان نے ملاقات کے دوران اسلاموفوبیا کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اوآئی سی کی طرف سے پندرہ مارچ کا دن اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کے طور پر منانے کی حمایت کی۔ مہمان صدر نے 2025-26 کے لیے اقوامِ متحدہ میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کے لیے پاکستان کی بطور امیدوار حمایت کا یقین دلایا لیکن یہ کوششیں تبھی بارآور ثابت ہو سکتی ہیں جب پالیسیوں میں تسلسل رکھا جائے۔ ازبکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے معروف ہے چین، روس اور یورپ کے کئی ممالک اُس سے کپاس خریدتے ہیں کیونکہ اُس کی کپاس کا معیار اچھا ہے نیز وہ کم پانی سے فصلیں اُگاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے پاکستان بھی اپنی زرعت کو بہتر بنا کر پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ دونوں ممالک نے یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے وفود بھیجنے پر جو اتفاق کیا ہے اُسے باہمی ریسرچ سے فائدہ اُٹھانے اور مشترکہ تحقیقات کے فروغ تک وسعت دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں