وطن نیوز انٹر نیشنل

SCOممالک کے درمیان ثقافت و سیاحت کیلئے ایک نئے طرز کا تعاو ن,,تاشقند میں عالمی فورم کا انعقاد“سیاحت کی ترقی کیلئے عالمی نمائش بھی منظم کی گئی۔سولر انرجی کی اہمیت بھی واضع کی گئی۔اسرائیل نے نمائش کے افتتاع میں حصہ لیا۔۔

مکتوب تاشقند۔
تحریر۔۔محمد عباس خان تاشقند۔
SCOممالک کے درمیان ثقافت و سیاحت کیلئے ایک نئے طرز کا تعاو ن,,تاشقند میں عالمی فورم کا انعقاد“سیاحت کی ترقی کیلئے عالمی نمائش بھی منظم کی گئی۔سولر انرجی کی اہمیت بھی واضع کی گئی۔اسرائیل نے نمائش کے افتتاع میں حصہ لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی ایسی ہے کہ ہر روز ہر دم نئی صبحیں طلوع ہوتی ہیں۔لیکن پھر ان پر شاموں کے گہرے سائے رات کا اندھیرا نافذ کر دیتے ہیں۔وسطی ایشیاء اور پاکستان کے تعلقات بھی انہی صبح کی روشنیوں کی امید دلاتے ہیں‘پھر شامیں نازل ہو جاتی ہیں۔آخر کب تک آخر کب تک ہماری امیدیں دم توڑتی رہیں گی؟
سویت یونین کی سرخ افواج افغانستان سے واپس اپنے سوشلسٹ دیس جا چکی تھیں‘مغرب کا ایجنڈہ مکمل ہو گیا۔سویت یونین منتشر ہو گیا لیکن اس کے آفٹر شاک جاری تھے۔افغانستان کے اندر آٹھ جنگی گروپ اور تقریباً اتنی ہی سیاسی پارٹیاں آپس میں دست و گریبان تھیں۔اں آفٹر شاکس سے نپٹنے کیلئے پاکستان میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹوکی حکومتیں سر گرم تھیں۔لیکن وسطی ایشیائی حکومتوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اگر ایک طرف پیپلز پارٹی کی حکومت سے رابطہ کرتے ہیں تو عمل میں نواز شریف سامنے آ جاتا ہے۔اسی طرح اگر نواز شریف کوئی قدم آگے بڑھاتا ہے تو بے نظیر والے کیسے دلچسپی لیں گے۔اوپر سے جناب غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری کے تابڑ توڑ حملے اور عبوری حکومتوں کی غیر عملی وزارتیں تو پھر کام کیسے ہو۔لیکن ایک بات جو خوشگوار تھی وہ یہ کہ نواز شریف اور بے نظیر دونوں وسطی ایشیاء کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کیلئے نہ صرف دیانتدارانہ طور پر سر گرم تھے بلکہ ہم جیسے پرائیویٹ کاروباری حلقوں اور سفارتخانوں کے پاکستانی سفارتخانوں کے درمیان ایک حیرت انگیز تعاون اور دوستی اور مشترکہ عمل اس معاملے میں رواں دواں تھا۔اس سارے مثبت تعاون کے نتیجے میں تمام تر علاقائی جنگی روائتوں کے باوجود نتائج یوں ہی رہے تھے کہ صرف ازبیکستان میں کوئی پانچ ہزار پاکستانی درمیانے درجے کے بزنس مین کام کر رہے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تابانی گروپ اور ازبیک ایئر نے مل کر ایئر ایشیاء کے نام سے جوائنٹ وینچر بنایا۔راقم کو اس کا پاکستانی ڈاریکٹر نامزد کیا گیا اور ہم لوگوں نے پرانے سویت جہازوں کی مدد سے پاکستان کی فضاؤں کو وسطی ایشیاء کی فضاؤں سے جوڑ دیا۔کیا آج کوئی یقین کر سکتا ہے کہ اس وقت جب افغانستان میں کابل‘ جلال آباد‘قندھار اور مزار شریف پر راکٹ برس رہے تھے اور جہازوں کو تاشقند کراچی پرواز کیلئے لمبا چکر کاٹ کر ساڑھے تین گھنٹے اوڑان کر نا ہوتی‘اس وقت بھی ہم لوگ تاشقند کراچی روٹ پر ہر ہفتے ایک ریگولر اور دو چارٹرپروازیں کرتے اور اس کیلئے 11-86جہاز استعمال ہوتا جو کہ ساڑھے تین سو مسافر اٹھاتا تھا۔اس کے ساتھ ہی ہر ہفتے چار AN-12..AN -18کی کارگو پروازیں بھی منظم کرتے جو کہ پاکستان سے سمال انڈسٹریز کا سامان لاتے۔اس طرح دوشنبے‘ المیاتی‘عاشق آباد اور باکو سے ہر ہفتے ایک عدد TU-154کی چارٹرڈ فلائیٹ کراچی جاتی جبکہ بشکک سے ایک ایئرو ایشیاء اور ایک کرگیز ایئرکی ریگولر پرواز کراچی جاتی۔ان تمام سیاحوں کو ہم بحیرہ عرب کا منظر دکھاتے۔قائد اعظم کے مزار پر حاضری دلواتے اور کراچی کے بازاروں میں ان کی خریداری کرواتے۔سارا سامان تابانی گروپ کے سیئر ہاؤس میں جمع ہو جاتا اور پھر کارگو پروازوں سے تاشقند پہنچ جاتا۔وسطی ایشیاء میں پاکستان کی محبتوں اور قربتوں کو یوں محسوس کیا جاتا کہ ورلڈ بنک‘اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ڈائریکٹرز پاکستانی نامزد کئے جاتے۔پاکستانی سفیر جناب شفقت علی شیخ صاحب ان تمام لوگوں سے رابطے رکھتے اور اکثر انہیں جب کھانے پر بلاتے تو گویا ساری دنیا پاکستانی چھتری تلے وسطی ایشیاء کے بنچوں پر براجمان ہو جاتی۔یہ سب کچھ تب ہو رہا تھا جب افغانستان میں ایک خطرناک ترین جنگ جاری تھی۔پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کاروائیاں جاری تھیں۔تاجکستان کے سول وار جاری تھی‘آذرنائیجان میں آرمینیا حملہ آور ہو چکا تھا اور روس اس کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ایران میں امریکی ریشہ دوانیاں زوروں پر تھیں لیکن وسطی ایشیاء اور پاکستان کے درمیان فضائی پل کام کر رہا تھااور اس کے بہترین نتائج سامنے آ رہے تھے۔آخر کیوں؟آخر کیسے؟ ہم تمام ٹورسٹ گروپس اور مسافروں کیلئے گروپ ویزے کا بندوبست کرتے۔پاکستان اور ازبیکستان کی حکومتیں پاسپورٹ کے ساتھ ٹورسٹ گروپ کی لسٹ یعنی ایئر پورٹ امیگریشن حکام ویزے کی مہر لگاتے اور کام ختم۔دونوں اطراف کے حکام مسافروں کا اگر کوئی پرابلم ہوتا تو ٹورسٹ آپریٹرسے مل کر حل کر لیتے اگرکوئی گڑبڑ ہوتی تو بھی ذمہ دار ٹورسٹ آپریٹر ہوتا‘گویا ویزے کا عمل نہایت ہی آسان تھا۔نہ تو سڑکیں کھلی تھیں اور نہ ہی فضائیں کھلی تھیں اور نہ ہی ایک تواتر سے کام کرنے والی حکومت اسلام آباد میں تھی لیکن جذبے جوان تھے اور وسطی ایشیاء کے ساتھ کام کرنے کیلئے خلوص و نیت کی کمی نہ تھی گویا 1992ء سے لے کر 1997ء تک تمام تر مسائل اور جنگی حالات کے باوجود ایک ایسا ریجنل کوآپریشن جاری تھا جو لمبے چوڑے بلند بانگ دعوے نہ رکھتا تھا لیکن نتائج دے رہا تھا۔
قارئین کو میں اس موقع پر مبارکباد دیتا ہوں کہ اس سال شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی ازبیکستان کے ذمے ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب 2022ء شروع ہوا ہے تو تاشقند میں علاقائی تعاون و سلامتی سے متعلق کئی عالمی کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ابھی حال ہی میں ہوٹل پیلس میں ٹورزم اور سولر انرجی سے متعلقہ ایک اہم عالمی نمائش کا بندوبست کیا گیا۔نمائش میں ازبیکستان کے ہوٹلوں میں ٹورسٹ کمپنیوں‘ٹرانسپورٹ کمپنیوں اور ممالک غیر کی ٹورسٹ کمپنیوں اور سولر انرجی سے متعلقہ اداروں نے اپنے اپنے سٹال لگائے اور بزنس ٹاکس کا انتظام کیا۔ممالک غیر سے جرمنی‘اسپین‘لوٹیویا‘اسٹونیا‘اسرائیل‘رومانیہ‘بلغاریہ‘بیلا روس‘تاجکستان‘گرگستان‘قزاخستان وغیرہ ممالک نے حصہ لیا۔بد قسمتی سے پاکستان کی ایک بھی ٹورسٹ کمپنی اس نمائش میں موجود نہیں تھی۔اسرائیل کے وزیر سیاحت نے ازبیکستان کے وزیر سیاحت کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے نمائش کا افتتاع کیا۔اسی طرح دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافیوں کی لسٹ میں پاکستان سے صرف راقم کا نام تھا۔نمائش کے علاوہ اسی ہوٹل پیلش میں SCOکے زیر اہتمام ایک فورم بھی بنایا گیا‘موضوع تھا,,سیاحت و ثقافت“کیلئے SCOممالک کے درمیان ایک نیا تعاون“ اس فورم کے ساتھ ہی ایک دوسرا فورم بھی SCOممالک کا منظم کیا گیا جو کہ ثقافت و کھیلوں کے میدانوں میں تعاون کے بارے میں تھا۔موضوعات پر SCOکے آٹھ ممبر ممالک کے متعلقہ وزراء نے اپنی اپنی تقریروں میں اپنی اپنی تجاویز دیں۔تمام متعلقہ مقرروں اور وزراء نے ایک مشترکہ تعاون کے معاہدے کو منظور کیا۔ازبیکستان کی طرف سے ڈپٹی وزیر اعظم اور سیاحت و ثقافت کے وزیر عبدو حاکموف عزیز‘عبدو حاکمووچ نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔بھارت کی طرف سے ڈپٹی منسٹر آف ٹورزم راکیش کمار ورما‘قزاخستان کی طرف سے منسٹر آف کلچر اینڈ سپورٹس آمائیف دورین اصغر بیکووچ‘ کرغزستان سے زمان کولوفعظمت کپارووچ‘روس کی طرف سے محترمہ داگو زودا زوینہ ولیری ونا‘ تاجکستان کی طرف سے تاجدین جورا زادہ اور پاکستان کی طرف سے جناب احسان الرحمان مزاری نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔یاد رہے کہ وہ بین الصوبائی رابطہ وزیر ہیں۔انہوں نے بھی زور دیا کہ SCOمملالک کے درمیان ویزے کے با آسانی حصول کو ممکن بنایا جانا چائیے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آذربائیجان میں آسان ویزے کے حصول کی وجہ سے نہ صرف پاکستان سے پروازیں باقاعدگی سے شروع ہو گئی ہیں بلکہ پاکستان سے سب سے زیادہ سیاح اور کاروباری حلقے آذربائیجان کا رُخ کر رہے ہیں۔عوام SCOکی حکومتوں سے ویزے آسان بنانے اور پروازیں شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس کے نتائج سامنے آنے چاہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں