وطن نیوز انٹر نیشنل

ٹی ٹی پی اور حکومت میں معاہدے کی خبر: کئی حلقوں میں بحث

ٹی ٹی پی اور حکومت میں معاہدے کی خبر: کئی حلقوں میں بحث
کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات اور غیر معینہ مدت تک فائربندی کی خبروں سے پاکستان کے کئی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس طرح کے مذاکرات ہونے چاہییں اور کچھ کا خیال ہے کہ ایسے مذاکرات بالکل نہیں ہونے چاہییں۔ انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ان مذاکرات میں معاونت افغان طالبان کر رہے ہیں۔ دونوں فریقین کو کچھ شرائط پر تحفظات ہیں لیکن پھر بھی جنگ بندی کی مدت میں غیر معینہ وقت کے لیے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے ایک بار پھر پاکستان پر حملے شروع کر دیے تھے اور بعض اوقات ان حملوں میں شدت بھی آئی تھی۔ کچھ ہفتوں پہلے تو پاکستان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے افغان علاقے میں ڈرون حملہ کر کے ٹی ٹی پی کے کچھ دہشت گردوں کو مارنے کی کوشش کی تھی۔
کوئی بڑی رعایت نہیں دینی چاہیے
واضح رہے کہ ماضی میں بھی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ناقدین کے خیال میں ہر مذاکرات کے بعد حکومت تحریک طالبان پاکستان کو رعایتیں دینے پر تیار ہوئی ہے، جس سے وہ مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان کو کوئی بڑی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمیں زمانہ امن کے اس ماحول کو استعمال کرتے ہوئے، ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو غیر محسوس طریقے سے ختم کرنا چاہیے تھا اور انہیں غیر مسلح کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم نے ان سے مذاکرات شروع کردیے۔ تاہم یہ مذاکرات غیر مشروط نہیں ہونے چاہییں اور تحریک طالبان پاکستان کو کسی بھی طرح کی کوئی بڑی رعایت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے وہ مضبوط ہوں گے۔‘‘
ٹی ٹی پی کو دشمن استعمال کر سکتے ہیں
لاہور سے تعلق والے تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفٰی کا کہنا ہے کہ اس وقت تحریک طالبان پاکستان کمزور ہے اور بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ان سے بات چیت کی جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ممکن ہے کہ مذاکرات کرنے کی ایک وجہ یہ ہو کہ اگر ٹی ٹی پی کے لوگ اسی طرح افغانستان میں رہیں گے، تو انہیں کوئی بھی دشمن ایجنسی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ افغان طالبان نے اصرار کیا ہو کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ایک بار پھر مذاکرات کا موقع ملنا چاہیے اور اگر وہ پاکستان کی شرائط نہ مانے تو پھر نہ صرف پاکستان انکے خلاف کارروائی کرے بلکہ افغان طالبان بھی ان کے خلاف کارروائی کرین گے۔‘‘
‘بدنام زمانہ دہشت گردوں کو معافی نہیں ملنی چاہیے‘
جنرل غلام مصطفٰی کا کہنا تھا کہ حکومت کو طالبان سے اپنی شرائط منوانی چاہیے۔ ”اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ آئین کو مانیں، ہتھیار پھینکے اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرین گے۔ اس کے علاوہ جو دہشت گرد بڑے حملوں میں ملوث ہیں جیسے کہ جی ایچ کیو یا آرمی پبلک اسکول، انہیں معافی نہیں ملنی چاہیے۔‘‘
پاکستانی طالبان کی امن مذاکرات کی پیشکش، کتنی سنجیدہ؟
خطرناک شکست
پشاور سے تعلق رکھنے والی سابق ایم این اے بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات دہشت گردوں کو رام کرنے کے مترادف ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”خفیہ طریقے سے دہشت گردوں کو اس طرح رام کرنے کا یہ عمل انتہائی خطرناک ہے۔ کابل پر دہشت گردوں کے قبضے کے بعد، جسے دوہا معاہدہ نے جلا بخشی، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حوصلے بڑھیں ہیں۔ کیا یہ دعویٰ نہیں کیا جارہا تھا کہ ملٹری آپریشنز نے دہشت گردوں کی کمر توڑدی ہے۔ لیکن آج پھر انہی دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جارہے ہیں، جن کے خلاف آپریشنز کیے گئے تھے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا اگر ایسا ہی ہے تو پھر ان آپرینشنز کے حوالے سے کمشن بننا چاہیے۔
پارلیمنٹ مداخلت کرے
بشریٰ گوہر کے مطابق یہ مذاکرات کر کے پی کو ایک بار پھر دہشت گرودں کے ہاتھوں میں دیا جارہا ہے۔ ”طالبان پہلے ہی صوبے میں آگئے ہیں اور وہ لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان مذاکرات اور معاہدوں کے ملک اور خطے پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ لہذا پارلیمنٹ فوری طور پر اپنا ہنگامی اجلاس بلائے اور اس مسئلے پر بحث کرے اور اس معاہدے کو ختم کرے۔‘‘
معاہدوں کی تاریخ
حکومت اور تحریک طالبان پاکستان میں ماضی میں بھی مذاکرات ہوتے رہے اور معاہدے بھی ہوئے۔ پہلا معاہدہ اس وقت ہوا جب نیک محمد تحریک طالبان پاکستان کی سربراہی کر رہے تھے اور یہ ابھی ابھی ابھری تھی اور مکمل طور پر کسی تنظیم کی شکل میں موجود نہیں تھی دوسرا معاہدہ بیت اللہ محسود کے دور میں ہوا۔ جب کہ پاکستان کی حکومت نے مختلف قبائلی علاقوں میں مقامی سطح پر بھی طالبان سے رابطہ کیا اور معاہدے کیے۔ تیسرا بڑا معاہدہ مالا کنڈ میں ہوا، جس کے نتیجے میں حکومت کو بہت سارے انتظامی اور عدالتی اقدامات اٹھانے پڑے۔ حکومت نے سابقہ اورکزئی، خیبر، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، مہمند اور کرم ایجنسیوں میں مقامی طور پر بھی عسکریت پسندوں سے معاہدے کیے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ ان معاہدوں کی وجہ سے تحریک طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی اور اس نے نا صرف قبائلی علاقوں میں بڑے بڑے حملے کیے بلکہ پشاور، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی کراچی اور سکھر سمیت ملک کے کئی اور علاقوں میں بھی دہشت گردانہ حملے کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں