وطن نیوز انٹر نیشنل

منی لانڈرنگ کیس؛ شہبازاورحمزہ کی عبوری ضمانتوں کی توثیق کا تحریری فیصلہ جاری

اسپیشل کورٹ سنٹرل لاہورنے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سمیت دیگر کی عبوری ضمانتوں کی توثیق کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

اسپیشل جج سنٹرل اعجاز حسن اعوان نے 22 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر نے ڈائری میں کہیں نہیں لکھا کہ مزید تفتیش کیلئے شہباز شریف و دیگر ملزموں کی گرفتاری مطلوب ہے۔

منی لانڈرنگ کیس تحریری فیصلہ

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ شہبازشریف سمیت دیگر کو گرفتار نہ کرنے کے حقائق کو پراسیکیوٹراورتفتیشی نے عدالت میں تسلیم بھی کیا۔ ملزم محمد اسلم، اظہر عباس، خضر حیات، اقرار حسین، محمد انور، محمد یاسین، توقیر الدین، ظفر اقبال انجم، تنویر الحق، کاشف مجید، مسرور انور، محمد عثمان، زاہد علی چودھری، اورنگزیب بٹ پراعانت جرم کا الزام ہے۔

منی لانڈرنگ کیس تحریری فیصلہ

Advertisement

عدالتی فیصلے یہ بھی کہا گیا کہ مسرورانورسمیت 14 شریک ملزموں کا جرم شواہد سے ثابت ہونا باقی ہے۔ مرکزی ملزموں کی ضمانتیں کنفرم ہونے کے بعد شریک ملزموں کو گرفتار کرنے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا۔

اسپیشل جج سنٹرل اعجازحسن اعوان نے تحریری فیصلہ میں کہا کہ تحریری فیصلے میں دی گئی آبزرویشن سطحی نوعیت کی ہیں جن کا اثر ٹرائل پرنہیں ہوگا۔ بادی النظرمیں کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال، کک بیکس کے الزامات مزید شواہد کے متقاضی ہیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ضمانت کے موقع پر کرپشن و دیگرالزامات کے مضبوط شواہد موجود نہیں ہیں۔ شہبازشریف اورحمزہ شہبازانہی الزامات کا سامنا احتساب عدالت میں 2020ء سے کررہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات مکمل ہونا تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ ملزمان کو قانون کے مطابق چالان کی کاپیاں بھی فراہم کی جا چکی ہیں۔ شہبازشریف سمیت دیگر ملزموں کی گرفتاری سے کوئی فائدہ مند مقصد پورا نہیں ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیش کے مطابق 16 ارب کے مقابلے میں صرف 6 کروڑ 70 لاکھ کی رقوم اکائونٹس میں جمع ہونے کا ذکرموجود ہے۔ رقم جمع کروانے والوں میں سے کسی نے بھی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نامزد نہیں کیا۔ ایف آئی اے کو دیے گئے بیانات میں کسی گواہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ رقوم رشوت، کک بیکس یا کمیشن کی مد میں جمع کروائی گئیں۔

عدالت فیصلے یہ بھی کہا گیا کہ 18 دسمبر2020ء کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جیل میں شامل تفتیش کیا گیا مگر گرفتار نہیں کیا گیا۔ ایف آئی اے نے جیل میں تحقیقات کے بعد 5 ماہ تک جاموشی اختیار کئے رکھی۔ بادی النظر میں ایف آئی اے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اثاثوں کے کیس میں رہائی کے بعد دوسرے کیس میں گرفتارکرنا چاہتا تھا۔ بادی النظر میں ایف آئی اے نے بدنیتی کا مظاہرہ کیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے حالانکہ 14 نومبر 2020ء میں مقدمہ درج کیا اور 12 دسمبر 2021ء تک عبوری چالان عدالت میں پیش ہی نہیں کیا۔ شہبازشریف پر سیاستدان سے 14 ملین روپے کا چیک لینے کا الزام لگایا گیا مگراس سیاستدان کو گواہ نہیں بنایا گیا۔ سیاستدان سے رقم لینے سے متعلق عالم زیب نامی شخص کا بیان تفتیشی افسر نے قلمبند کیا مگر پراسیکیوٹر نے اس بیان کو عدالت میں بنیاد نہیں بنایا۔ عالم زیب نے بھی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اپنے بیان میں نامزد نہیں کیا تھا۔

عدالتی تحریری فیصلے میں مذید یہ بھی کہا گیا کہ سلمان شہباز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے اکائونٹس کھلوانے کا گھٹ جوڑ ٹرائل میں ثابت ہونا باقی ہے۔ شہبازشریف کا رمضان شوگر ملز سے تعلق ہونے سے متعلا پراسیکیوشن کوئی بھی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ حمزہ شہباز رمضان شوگر ملز کے سی ای او مگر بادی النظر میں پراسیکیوشن یہ ثابت نہیں کرسکی کہ اکاؤنٹس حمزہ شہباز کے کہنے پر کھولے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں