وطن نیوز انٹر نیشنل

مکتوب تاشقند ۔۔انسان سماج اور ریاست پر آئینی اصولوں کا اطلاق مقامی و عالمی تجربہ۔۔ خوارزم میں عالمی کانفرنس

مکتوب تاشقند
۔۔انسان سماج اور ریاست پر آئینی اصولوں کا اطلاق مقامی و عالمی تجربہ۔۔ خوارزم میں عالمی کانفرنس
نیا ازبیکستان طلوع ہو رہا ہے۔انسان کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے نیاازبیکستان نئے جدیددورسے ہم آہنگ اصولوں پر مبنی آیئنی تقاضے اور ضمانتیں مہیا کریگا

تحریر: محمد عباس خاں تاشقند
والد صاحب راولپنڈی ڈویژن کی ریلوے کلریکل ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور ہر وقت کسی نہ کسی کے مسائل کے لئے جدوجہد کرتے نظرآتے۔ بچپن میں ہمارے ہاں کوہستان اخبار، چٹان، اردو ڈائجسٹ، ترجان القران تعلیم وتربیت و بچوں کی دنیا وغیرہ باقاعدگی سے ایک چچا حضور صبح سویرے کھڑکی سے پھینک جاتے تھے۔پھر جب کوہستان بند ہوگیا تو نوائے وقت نے سکی جگہ لے لی۔ایک بات جو وہ اکژ دہراتے تھے وہ ہمیں کبھی بھی سمجھ نہ آئی۔ جب تک یہاں ایوب خان کی حکومت ہے یہاں برے حال ہی رہیں گے۔ انسانی حقوق کی تو بات ہی نہ کرو۔ سیاستدانوں کی حکومتیں مارشل لاء سے بہت بہترہوتی ہیں۔ صدارتی نظام نہیں چل سکتا۔ پارلیمانی طرز حکومت ہی موزوں ہے۔ہمیں تب یہ باتیں سمجھ نہ آتی تھیں۔ہمارے وطن عزیز نے چار دفعہ مارشل لاء اورصدارتی نظام کا تجربہ کیااور صدارتی نظام بھی ایسا کہ صدر صاحب کو مکمل اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ ان کی انگلی کے اشارے سے سارا ملک کانپتا تھا۔ لیکن چاروں دفعہ نتیجہ یہ نکلاہم بے نتیجہ ہی رہے۔اور جو پارلیمانی حکومتیں بنتی رہیں وہ بھی بلواسطہ طور پر مختلف دیگر قوتوں کے تابع یامجبوررہیں۔ آجکل پھر سے نئی بحث جاری ہے کہ ہمارے ملک میں کونسا نظام ہو نا چاہیے۔دنیا بھر میں مختلف سیاسی نظاموں پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ بحث اگر انسان کی ضرروتوں اسکے حقوق اور ترقی کو سامنے رکھ کرکی جائے تو نیتجے اچھے نکلنے ہیں اور اگر قوانین بغیر سوچ وبچار کے ایک روزمیں بیسیوں قوانین پاس کر لئے جایئں اور بند لفافے میں موجود کسی معاملے کی منظوری دیدی جائے اور سب کے سب وزیر اندھے بن جائیں تو چاہے کوئی سابھی نظام ہو نتجہ دھی ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔ بات یہ بنی کہ قوانین و آئین پر بحث بلکہ علمی بحث ہونا چاہیے اور چیزوں یاقوانین کی منظوری آنکھوں سے دیکھ کر اور دماغ سے سوچ کردینا چاہئے۔
دنیا میں آخر کیا ہورہا ہے۔چند دن پہلے کی بات ہے ھمارے پرانے دوست ہاشم مرادوف کا فون آیا۔ وہ اردو کے ماہر ہیں۔ ازبیک صدارتی دٖفتر ہیں وہ ازبیکستان کے میڈیا مسائل و سائل کودیکھتے تھے۔ جب وہ اونچے اوانوں سے ہمیشہ لرزاں رہا ہے۔ انھوں نے کہا آپ سے ملنا چاھتا ہوں معلوم ہوا کہ وہ آجکل ریٹائرڈ ہیں اور اب قابل اعتبار ترقی کے مرکز میں ایک شعبے کے چیف ہیں۔ ہاشم جان مرادوف اگر ایک دفعہ کسی سے مل لیں تووہ ان کا گرودہ ہو جاتا ہے۔ اور اسکا ثبوت مولانا کوثر نیازی کی کتاب کوہ قاف کے دیس میں جسمیں انھوں نے ہاشم جان کا اور راقم کا بڑی محبت سے ذکر کیاہے۔ چہ جائیکہ میں ہاشم جان کے ساتھ دس سال تک ریڈیو تاشقند کی اردو سروس میں اکٹھے کام کرتا رہا۔ تو ظاہر ہے ہاشم اکا کے فون پر جانا ہی تھا۔ اور اس ملاقات میں ان کے ساتھ مرکز کے ڈائریکٹر معرف جان عثمانوف بھی تھے۔ عام تعارفی گپ شپ آہستگی سے آیئن و قانون کے گرد گھومتے ہوئے انسان سماج اور ریاست جسے موضوع پر آگہی۔ فیصلہ ہوا کہ آئیندہ ملتے ملاتے رہا کریں گے۔
اگلے ہی دن ہاشم اکا کا فون آیا۔ میں ائرٹکٹ بھیج رہا ہوں آپ عالمی کانفرنس میں ہمارے مہمان ہوں گے۔ اگر ضرورت ہوتوصبح سویرے ائرپورٹ کے لئے آپ کو ہماری گاڑی لینے آجائے گی۔ شکریہ، میں نے انکساری سے کہامجھے گاڑی کی ضرورت نہیں خیر توارگیخ میں عالمی کانفرنس کاموضوع تھا۔
۔انسان سماج اور ریاست پر آئینی اصولوں کا اطلاق مقامی و عالمی تجربہ۔
اس موضوع پر ہونے والی کانفرس خوارزم کے مرکزارگیخ میں منعقد ہوتی اسکو منظم کرنے کیلئے درج ذیل تنظیموں نے حصہ لیا، انسانی حقوق کے لئے ازبیکستان کا قومی مرکز، غیر حکومتی تنظیم قابل اعتبار ترقی کا مرکز، ازبیکستان کی سائنسی اکیڈیمی کا ریاست وقانون نامی انسٹی ٹیوٹ اور یورپی یونین کے وفدکے ساتھ خوارزم کے حاکم کا دفتر۔
کانفرنس میں شرکاء کی رجسٹریشن کے ابتدائی عمل کے بعد ازبیکستان میں رومانیہ کے سفیر ڈینیل کرسچن سے اوبانونے موضوع پرافتتاعی تقریر کی۔ ان کے بعد یورپی یونین کے وفدکے چارج ڈی افیعرز من دااوگاس کاسی راؤس کیس اور پھر خوارزم صوبے کے حاکم فرہاد یرمانوف نے موضوع کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کے دو اہم سیشن ہوئے۔ ایک کا موضوع تھاانسانی عزت و وقار کا آئینی بنیادوں پر تحفظ اور اسکے بارے میں قومی اور عالمی تجربہ، جبکہ دوسرے سیشن کا موضوع تھا۔ شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کی ضمانت کے لئے آئینی اصلاحات میں سول سوسائٹی کے اداروں کا بڑھتاہوا کردار
مختلف موضوعات پر پہلے سیشن میں فرانس کے جین انتونی ڈوپرات امریکہ کے پاؤل پولٹین، یونیسف کے میز محمدزادے، اٹلی کی ماریالودو ویسا، ہنگری کے حمزہ ہاپور، یورپین پارلیمنٹ کے رچرڈ زارنکی، اور ازبیکستان کے مرادتورگونوف و مرزا طلوطلابائیف جیسے اہم سکالرز نے خطاب کیا۔ جبکہ دوسرے سیشن میں مختلف موضوعات پر تقریروں کا سلسلہ قابل اعتبار ترقی کے مرکز کے ڈائریکٹر معرف جان عثمانوف نے شروع کیا۔ ان کا مو ضوع تھا، سول سماجی اداروں کی مصروفیات کے لئے آئینی ضمانتیں مقامی و عالمی تجربہ۔ ان کے بعدمختلف موضوعات پر پولینڈ سے جرزی ژوکالسکی، لاٹویا سے الیوٹالیکسی، یورپین پارلیمنٹ سے ای پیک تیکدے، بلجیم سے البرٹوترکسڑا، ترکی سے میسوت امیرکا راکو سے، ازبیکستان سے اصغر غوروف اور شہرت بفایؤ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہر دو سیشنز کے اختتام پر شرکا نے آپس میں بحث و مباحثہ کیااور تجاویز ترتیب دیں۔ آخری علامیہ ترتیب دیا گیا اور منظوری دی گئی اور آخر میں صوبہ خوارزم کے خاکم اور کانفرنس کے مرکزی میزبان کی طرف سے مقامی و عالمی شرکاو مہمانوں کے اعزاز میں ازبیکستان کی مہمان نوازی کے طور قومی کھانوں سے تواضع کی گئی۔
قارئین اکرام آخر کیا معاملہ ہے کہ اس اہم موضوع پر دنیا بھر میں بحث ومباحثہ کیا جارہا ہے اور آج کی دانش کا مرکزی نقطہ انسان کی اہمیت اور ذندگی کوبچانے کا درس سیکھاتھا۔وقت کے ساتھ ساتھ اب وہ سب کچھ غلط ملط ہوتا جارہاہے۔ اگر تیسری دنیا میں ریاست کے نام پر سماج اور انسانی حقوق کو مسخ کیاجارہا ہے، تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی بالواسطہ طور پر انسان وسماج کو بچانے کے نام پر ریاست کو زیادہ تحفظ دیتے ہوئے رولنگ کلاس اپنے مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہے۔
ایسے میں ایک نیا ازبیکستان جنم لیتا ہوا نظر آرہا ہے، مشرق کا ستارہ تاشقند ایک نئے سماج کو تخلیق کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ایسانیاآئین ایسانیا قانون جو انسانی حقوق، سماجی نظم اور ریاست کو ایک توازن سے آگے ترقی
کی طرف لے جائے۔ جہاں انسان اور انسانیت سب سے اول درجہ پر ہو۔ کانفرنس میں اس ضرورت کا احساس ہوا کہ ایک ایسا آئین ہونا چاہے جو انسان کو اولیت دیتے ہویے جدیددور میں انسانی حقوق کی ضمانت بن جائے۔ نئے آئین کے لئے کانفرنس میں یہ تجاویز دی گئیں کہ انسانی عزت و وقار میں اضافہ کیا جائے اسکے حقوق اور آزادیوں کی ضمانت دی جائے، ملزم کو شک کا فائدہ دیا جائے او ر کہیں کوئی ایسی غلطی نہ ہوجائے کہ بے قصور ملزم کو قصوروار مجرم بنا دیا جائے، غربت کی لائن کا تعین کیا جائے۔ روزمرہ ضرورت کی ایشاء کی ٹوکری کا تعین کرتے ہوئے یہ سماجی ضمانت مہیا کی جائے کہ سماج کے کمزور طبقے معذور، بوڑھے پنشنرز اور غریب افراد کو یہ ٹوکری بھری ہوئی ملے، یتیم اور بغیر والدین کے بچوں کو سماج میں پنپتے اور تعلیم و تربیت و روزی روٹی کے وسائل مہیا ہوں۔
ازبیکستان کے تاریخی ورثے کے مطابق قومی روایات و روحانی قدروں کو پھلنے پھولنے کا موقع حاصل ہو۔ غرض وسطی ایشیاء کے مرکزی ملک ازبیکستان میں انسان اور اسکے حقوق وترقی اولیت حاصل ہواور سماج اور ریاست اسکی ترقی کی ضمانت بن جائیں، کیا پاکستان میں ہم اس نقتے پر توجہ دیں گے اگرہاں تو کب؟

اپنا تبصرہ بھیجیں