وطن نیوز انٹر نیشنل

معاشرے میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان اور ہمارا قانون

تحریر: جویریہ اے کاشف ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
پاکستان میں کم عمری کی  شادیوں کی روایت پرانی چلی آرہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ماں اور پیدا ہونے والے بچے اٹھاتے ہیں۔ کم عمری کی شادی جیسےظلم کا شکار صرف ہمارے بچیاں اور بچے نہیں ہوتے بلکہ پوری دنیا میں ہی یہ ظلم جاری ہے۔ ان سے نہ صرف ان کا بچپن چھین لینا جاتا ہے بلکہ بے فکری، کھیل کود اور پڑھنے کی عمر میں ان معصوم چہروں پر ذمہ داریاں واضح نظر آنے لگتی ہیں۔
اگرایک کم عمر بچی کی شادی کردی جائے گی تووہ خود کو سنبھالے گی یا آنے والے بچے اور گھر کو، کم عمر ماں کی جان کو دوران زچگی شدید خطرات کاسامنا ہوتا ہے اور اکثر اوقات ایسی بچیاں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ اگر بچ بھی جائیں توابھی خود کو سنبھال نہیں پاتی کہ پیدا ہونے والے بچے کی دیکھ بھال میں خود کو ہلکان کرتی ہیں جبکہ ابھی انکو خود توجہ اور دیکھ بھال کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کم عمری کی شادی بھی زبردستی کی شادی ہی کی ایک شکل ہے جسے روکنا ضروری ہے۔
پنجاب میں کم عمری کی شادی کے خلاف ترمیم شدہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2015 کا قانون موجود ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر چھ ماہ تک قید کی سزا اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح نکاح خواِں کو بھی دو بچوں یا ایک بالغ فرد اور بچے کی شادی کرانے کے جرم میں اسی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صوبہ سندھ علاوہ پورے ملک کے صوبائی قوانین کے مطابق شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی کی عمریں 16 سال ہونا ضروری ہیں جبکہ صوبہ سندھ کے قانون کے مطابق عمرکی حد 18 سال مقرر ہے۔اور سندھ میں اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پردو سال کی قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا متعین کی گئی ہے۔
 2016 میں پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کی گئی تھی اور اس کی دفعہ 292-اے کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے کو بہلا پھسلا کر جنسی تعلقات استوار کرنا بھی جرم ہے۔ چنانچہ سندھ میں 18 سال اور پنجاب میں 16 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی جرم ہے۔
پاکستان میں یہ قانون صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس معاملے پر شرعی قانون بھی لاگو ہوتا ہے جس کے مطابق جب لڑکا اور لڑکی بلوغت کو پہنچ جائیں تو ان کا نکاح کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی قانون یہ تو کہتا ہے کہ 16 یا 18 سال کی عمر کی بچی کی شادی نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو جرمانے کے ساتھ چھ ماہ کی قید ہو گی۔ اس کے علاوہ اس نکاح کو روکا جائے گا۔
تاہم ان قوانین میں کچھ خامیاں بھی موجود ہیں۔ اس سے آگے قانون بھی خاموش ہے۔ قانون آگے اس پر کچھ نہیں کہتا کہ اگر نکاح ہو جائے تو پھر کیا کرنا ہے اور کیا اس نکاح کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں شرعی قانون کو لاگو کر دیا جاتا ہے جس کے مطابق اگر کوئی لڑکی اور لڑکا بلوغت کو پہنچ گئے ہیں تو نکاح جائز ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ عدالت کے پاس جب ایسا کوئی کیس آتا ہے تو انھیں لڑکی کی عمر کا تعین کرنا چاہیے جس کے کئی طریقہ کار ہیں۔ یہ میڈیکل کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے اور بے فارم (پیدائش پر بننے والا سرٹیفیکیٹ) بھی یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے۔
دعا زہرا کے کیس میں عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ بچی کو پہلے دارالامان بھیجتے تاکہ اس پر کسی قسم کا کو دباؤ نہ ہوتا۔ کہ اس کیس کو والدین یا شوہر کی موجودگی میں نہیں سنا جانا چاہیے کیونکہ ’ہمارے معاشرے میں یہ بھی حقیقت ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں یا شوہر کی طرف سے بیوی پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے اور اسے دھمکایا جا سکتا ہے۔
ماضی میں سندھ ہائی کورٹ نے کم عمری کی شادی کرنے والی آرزو فاطمہ کو دارالامان بھیج دیا تھا۔ دسمبر 2021 میں عدالت نے آرزو فاطمہ کو 18 سال عمر تک والدین کے ساتھ رہنے کی اجازت دی۔
پاکستان میں آج تک کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی ہے جس کے تحت کسی کم عمری والے نکاح کو ختم کیا گیا ہو۔ تاہم سندھ میں ایک مثال ملتی ہے جس میں ایک مسیحی لڑکی کو مسلمان بنا کر اس کی کم عمری میں شادی کی گئی۔ اس کیس میں عدالت نے اس بنیاد پر وہ نکاح ختم کیا تھا کہ اس لڑکی کو زبردستی مسلمان کیا گیا تھا۔ اگر وہ مسلمان ہوتی تو شاید عدالت یہ نہ کرتی۔
معاشرے میں کم عمری کی شادیوں کے بڑھتے رجحان کی روک تھام کے بارے آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمں اور معاشرے کے دیگرافراد اپنا کردار ادا کریں۔ خاص کر اساتذہ، طبی عملہ اور مذہبی عناصر کو بھی آگاہی مہم میں شامل کیا جائے اور سوشل میڈیا کو بھی اپنا مثبت کردارادا کرنا ہو گا تبھی اس قانون پر عمل درآمد ممکن بنایا جا سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں