وطن نیوز انٹر نیشنل

مکتوب تاشقند پاکستان اور ازبیکستان کے کاروباری تعلقات میں پیش رفت ,,افغانستان‘ سلامتی‘و معاشی ترقی“کے موضوع پر تاشقند میں عالمی کانفرنس۔عالمی سوسائٹی‘افغانستان کو تنہائی سے بچائے“


تحریر۔ محمد عباس خان تاشقند۔


پاکستان وسطی ایشیائی ممالک سے چند کلو میٹر دور ہے لیکن پھر بھی اسے ازبیکستان‘ ترکمستان‘ تاجکستان‘ کرغیرستان یا قزاقستان پہنچنے کیلئے ایک بڑی رکاوٹ عبور کرنا پڑتی ہے۔اور یہ رکاوٹ ہے افغانستان‘ ایران اور چین جیسے ممالک۔جب یہ تینوں دوست ممالک ہیں تو میں نے انہیں رکاوٹ قرار کیوں دیا؟اس لئے کہ سوویت یونین جب 1991ء میں منتشر ہوا تو اس وقت سے ہی پاکستانی کاروباری حلقے اس پر زور دیتے رہے کہ ان تینوں ممالک سے سے راہداری کی سہولتیں حاصل کرنے کیلئے پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورے ہے۔کیونکہ ان کی راہداری کی سہولت ہمارے لئے روس اور مشرقی یورپ نیز وسطی ایشیاء و قفقاز جیسی مارکیٹوں کت دروازے کھول دے گی اور پھر یورپ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ بتدریج نئی مارکیٹوں کو بطور متبادل استعمال کر سکیں گے۔ہماری لائیٹ انڈسٹری کی اشیاء ان مارکیٹوں میں کھپ سکتی ہیں۔کئی معاہدے ہوئے MOUدستخط کئے گئے لیکن عملی طور پر کوئی نتائج حاصل نہ کئے جا سکے۔اس معاملے میں جہاں ان ممالک کی خاص صورتحال کا دخل ہے وہاں ہم یا ہماری افسر شاہی کی سستیاں اور نکماپن بھی شامل ہے۔نواز شریف اور بے نظیر کے دور وسطی ایشیاء کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر کام ہوتا تھا تو پرویز مشرف کے دور میں اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔چین اور ایران کے ساتھ ہمارے کاروباری رشتوں کو مغرب متواتر دباؤ میں رکھتا ہے البتہ وسطی ایشیا ء کے ساتھ ہم افغانستان سے ہو کر بڑا کام کر سکتے ہیں۔اور امریکہ کو چونکہ وسطی ایشیا ء کی ضرورت ہے اس لئے وہ ان ممالک کو افغانستان کی راہداری کی ایک محدود ضرورت پوری کرنے کیلئے تو اجازت دے دے گالیکن وسطی ایشیاء اور پاکستان کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔یہی وجہ ہے کہ براستہ افغانستان پاکستان کیلئے گیس پائپ لائن‘ریلوے لائین‘ یا سڑک کا راستہ اور بجلی کی لائن وغیرہ کا کام مکمل نہیں ہو پا رہا‘جبکہ فریقین باہم مخلص بھی ہیں اور ایکٹو بھی۔
پچھلے دنوں ازبیکستان کے کے قائم مقام وزیر خارجہ ولادیمیر نوروف نے غیر ملکی صحافیوں کو دعوت دی تھی جہاں ایکٹو (مخصوص) صحافیوں کو تعریفی اسناد بھی دی گئی تھیں اور چائے پانی کا بھی انتظام تھا۔خوش قسمتی سے راقم کو بھی کچھ وقت مل گیااور دو بدو کھل کر بات چیت ہو گئی‘ راقم کا نقطہئ نظر یہ تھا کہ آپ لوگوں کو ویزے دینا آسان بنا دیں اور سڑک کھول دیں نیز ہفتہ وار پروازیں بھی شروع کر دیں۔ توکاروباری حلقے خود بخود وسطی ایشیاء اور پاکستان کو آپس میں نتھی کر دیں گے اور کاروبار شروع ہو جائیگا۔انہوں نے تسلی دی کی کام ہو رہا ہے جلد ہے مثبت فیصلے عمل میں آئیں گے۔انہوں نے بطور خاص زور دیا کہ مزار شریف‘ کابل‘جلال آباد‘ پشاور ریلوے لائین کے پروجیکٹ کو زیادہ سے زیادہائی لائیٹ کریں‘ہمیں اس اہم پروجیکٹ کیلئے عالمی فنانشل تنظیموں سے فنڈز چاہیں۔ظاہر ہے یہ ایک اہم پروجیکٹ اور بڑا پراجیکٹ ہے۔راقم کی اس معاملے میں دو ٹوک رائے ہے کہ اگر اس پروجیکٹ میں یورپ اور امریکہ شامل ہوئے تو کہانی شروع تو ہو جائے گی لیکن مکمل کبھی نہیں ہو گی۔البتہ اگر اس پروجیکٹ پر روس‘چین‘ازبیکستان‘افغانستان‘پاکستان اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک ملکر کام کریں تو پروجیکٹ مکمل ہو سکے گا۔لیکن اس کے ساتھ ہمیں طالبان سے مطالبہ کرنا چائیے کہ پاکستانی و ازبیک ٹرکوں کو راہداری کی سہولت بھی عمل میں لائی جائے۔اس مسلئے پر جب سے امریکہ افغانستان سے نکلا ہے تب سے تینوں ممالک کام کر رہے ہیں لیکن نتائج کچھ مدو جزر کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔
جہاں تک طالبان کا ذکر ہوا ہے تو یہ خبر دینا ضروری ہے کہ پچھلے ہفتے یہاں تاشقند میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی‘موضوع تھا,, افغانستان کی سلامتی اور معاشی ترقی“ اس کانفرنس میں بیس سے زیادہ ممالکی کے وفود نے شرکت کی۔افغانستان کی عبوری حکومت کے وفد نے بھی کانفرنس میں بھرپور شرکت کی۔کانفرنس کے قیام کو اجاگر ازبیکستان کے صدر,,شرکت میر مینائیف“ کے پیغام نے کیا۔انہوں نے اس پر زور دیا کہ افغان مسئلے پر کچھ توجہ دینا باعث تحسین ہے۔ان کے الفاظ کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ افغانستان کو الگ نہ کیا جائے۔اگر عالمی طور پر ایسا ہوا تو یہ ایک انسانی المیہ ہو گا۔کیونکہ یہاں کروڑوں جانوں کی بات ہو رہی ہے اور ان کے مستقبل کو طے کیا جا رہا ہے۔کانفرنس میں شرکت کرنے والے وفود و مقررین اس سمت میں کام کرنے کیلئے مثبت تجاویز دیں ہیں۔
سعودی عرب کے منصوبہ بندی کے شعبے کے ڈائریکٹر عبداللہ بن خالدالسعید نے کہا کہ,,تمام ممالک و فریقین کے مفاد میں یہ ہے کہ افغانستان مستحکم اور سلامتی والا افغانستان ہو اور اس کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت سے اس معاملے میں مثبت اقدامات زیر بحث لائے جائیں۔ہمارے لئے اہم ہے کہ موجودہ افغان حکومت عالمی سوسائٹی کے اہم مطالبے عمل میں لائے۔اہم معاملہ یہ ہے کہ افغان سر زمین سے ہمسایہ ممالک اور دیگر عالمی ممالک کیلئے دہشتگردی ایکسپورٹ نہ کی جائے۔حکومت میں زیادہ سے زیادہ حلقوں کی نمائیندگی ہو۔انسانی حقوق کی ضمانت مہیا کی جائے۔عورتوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں اور تمام قومی گروپس یا نسلی گروہوں کو ان کے قومی حقوق و آزادیاں میسر ہوں۔افغانستان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ اور افغان وفد کے لیڈر عآمر خان متقی نے کہا,,پچھلے گیارہ ماہ میں بہت سارا تعمیری کام کیا گیا۔سارے معاشرے کیلئے قابل قبول سیاسی سوچ منتقل کی گئی۔دس ہزار افغان نوکوانوں کو روز گار مہیا کیا گیا۔عورتوں کو کام کرنے کا حق دیا گیا۔آج دس ملین بچے سکولوں میں جا رہے ہیں“۔
افغانستان کیلئے چین کے خاص نمائندے,,ژدسیاژوژون“نے کہا کہ افغانستان میں صورت حال بتدریج بہتر ہو رہی ہے۔ہم عالمی سوسائٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ہمیں اپنی قوتوں کو اکٹھا کرنا چائیے تاکہ افغانستان میں امن و استحکام پیدا ہو اور تعمیر نو ہو سکے۔ملک میں ایک باقاعدہ حکومت ہو جو عوام کی زندگی میں بہتری لا سکے‘ خاص طور پر ضرورت ہے کہ دہشتگردی کے خلاف کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں۔“
ازبیکستان کے قائم مقام وزیر خارجہ ولادیمیر نوروف نے کہا,,افغان وفد کے لیڈر نے کہا ہے کہ افغانستان کی حکومت پوری سنجیدگی سے عالمی سوسائٹی کی تشویش پر مبنی معاملات کو مثبت انداز میں حل کرنے میں مصروف ہے۔اس میں نئی حکومت کی ترتیب‘عالمی انسانی حقوق‘خاص طور پر عورتوں کے حقوق پر توجہ دی جا رہی ہے۔چھوٹی قوموں کے حقوق کا تحفظ۔افغان وفد نے کہا کہ افغان حکومت نارکوٹک اور کرپشن کے خلاف سختی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔کانفرنس کے شرکأ نے افغانستان میں امن‘سلامتی‘استحکام کے قیام کیلئے کئی تجاویز دیں۔پاکستان سے محترمہ عائشہ فاروقی اور SCOکیلئے وزارت خارجہ کے ڈائریکٹرنوید احمد صاحب نے شرکت کی۔
ازبیکستان کی طرف سے ریلوے پروجیکٹ مزار شریف‘ کابل‘ جلال آباد‘پشاور پر توجہ مبذول کرائی گئی۔افغان وزیر خارجہ نے اس پر زور دیا کہ افغانستان کے اثاثے جو کہ امریکہ نے منجمد کئے ہیں وہ افغانستان کو ملنے چائیں اور یہ اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ کئی راؤنڈ مذاکرات ہو چکے ہیں اور مذید گفت و شنید جاری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان‘ افغانستان‘ ازبیکستان اور وسطی ایشیائی ممالک مل جل کر اپنے وسائل اکٹھے کریں اور ان کا متناسب استعمال کریں۔کئی چیزیں ایسی ہیں جو کہ عام لوگوں کی سمجھ میں آ رہی ہیں لیکن اوپر والے لیول تک پہنچتے پہنچتے پانی سر سے گزر جاتا ہے۔مثلاً پاکستان کے اندر افغان باشندے مقامی طور پر پاک روپے دستیاب کرتے ہیں اور ان سے ڈالر خرید کر افغانستان پہنچا دیتے ہیں‘ان ڈالروں سے وہ کیش میں یورپ و جاپان سے ضروریات کی اشیأ خدیدتے ہیں۔ہمارے بارڈر پر امیگریشن‘کسٹم و دیگر متعلقہ اداروں کے احکام اس عمل آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
4110

اپنا تبصرہ بھیجیں