وطن نیوز انٹر نیشنل

ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کی طرف سے ڈنمارک میں پچاس سال قبل آنے والے اورسیز پاکستانیوں کے اعزاز میں شاندار تقریب۔ ,,تقریب کے مہمان ِ خصوصی ڈنمارک میں سفیر پاکستان عزت مآب احمد فاروق تھے۔“

ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کی طرف سے ڈنمارک میں پچاس سال قبل آنے والے اورسیز پاکستانیوں کے اعزاز میں شاندار تقریب۔
,,تقریب کے مہمان ِ خصوصی ڈنمارک میں سفیر پاکستان عزت مآب احمد فاروق تھے۔“
رپورٹ۔وطن نیوز انٹرنیشنل۔
گزشتہ دنوں مورخہ 10اگست 2022ء بروز بدھ وار ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کے چیئرمین طارق سندھو اور ان کی انتظامیہ نے ایک خوبصورت قدم اٹھاتے ہوئے اپنے پلیٹ فارم پر آج سے 50سال قبل پاکستان سے ڈنمارک آنے والے تارکین وطن کے اعزاز میں کوپن ہیگن کے ایک خوبصورت پنجاب ریسٹورانٹ میں ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا۔طارق سندھو ڈنمارک میں پاکستانی کمیونٹی میں ایک متحرک نوجوان ہیں۔جو اپنی محنت و جدوجہد کے بل بوتے پر پاکستان اورڈنمارک کے درمیان تجارتی رابطہ مہم کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔گو کہ آج کی تقریب پاکستانیوں کے باہمی میل جول کی تقریب تھی لیکن پھر بھی انہوں نے اس تقریب میں کچھ ڈینش خواتین و حضرات کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔عزت مآب سفیرِ پاکستان جناب احمد فاروق تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔طارق سندھو نے اپنے ابتدائی کلمات میں سفیر محترم اور دیگر تمام حاضرین کو خوش آمدید کہا اور انہوں نے بتایا کہ میں چاہتا تھا کہ ہم دوسری نسل کے ڈینش نژاد پاکستانی بھی اپنے بزرگوں سے پچاس سال قبل ڈنمارک آنے کے حالات و واقعات جان سکیں۔اپنے ابتدائی کلمات کے بعد انہوں نے نضامت کے فرائض سنبھالنے کیلئے مائیک نصر ملک کے سپرد کیا۔
نصر ملک جو ایک منجھے ہوئے صحافی‘ ادیب‘ مصنف‘ مترجم اور براڈ کاسٹر بھی ہیں‘ انہوں نے سب سے پہلے اپنے خیالات کے اظہار کیلئے ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کے بانی صدر جناب منور حسین شاہ صاحب جو اس وقت ناسازیئ طبیعت کی وجہ سے مجلس میں موجود نہیں تھے‘ سے بذریعہ فون اپنے خیالات کے اظہار کی درخواست کی۔ انہوں نے مختصر طور پر اپنے ڈنمارک آنے حالات پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد مسٹر شوکت علی ریڈیو ہموطن براڈ کاسٹر اور سیاسی و سماجی کارکن کو دعوت دی‘ تو انہوں نے نہایت ہی خوبصورت الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس محفل کی افادیت پر روشنی ڈالی۔اس کے بعد ڈنمارک کے دوسرے بڑے جزیرے فیون کے شہر اوڈنسے سے آئے ہوئے خالد بٹ نے تقریب میں موجود نوجوانوں اور ڈینشوں کی خاطر اپنے خیالات کا اظہار ڈینش زبان میں کیا۔جس کو بہت سراہا گیا۔خواجہ محمد طارق عسکری جو ڈنمارک سے اپنا ایک ماہنامہ اردو تنظیم بھی شائع کرتے رہے ہیں‘انہوں نے اپنی ڈنمارک میں ہجرت کو بڑے خوبصورت اور مختصر انداز میں بیان کیا جسے بہت پسند کیا گیا۔
رپورٹ کے راقم امانت علی چوہدری کو اپنے خیالات کے اظہار کیلئے کہا گیا تو انہوں نے سفیر محترم اور طارق سندھو کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ ڈینش پاکستان بزنس کونسل کی انتضامیہ نے پچاس سال قبل آنے والے تارکین وطن کے اعزاز میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا ہے۔آج ہمیں اس تقریب میں اپنے ماضی کی یادوں‘ سفر کی صعوبتوں‘ مشکلات اور پیش آنے والے مصائب پر روشنی ڈالنے موقع مل رہا ہے۔یہاں پر مجھے کچھ تفصیل کے ساتھ اپنی رودادِ ہجرت کی کہانی اس لئے سنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میرے دوست اس کا ذکر کر چکے ہیں۔چونکہ ہم سب کے سفر کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہی ہے‘ اس لئے میں اسے دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ہاں مختصراً میں اتنا ہی کہوں گا کہ 1969-70ء کی دہائی میں جب میں نے گاؤں کے دو دوستوں کو ساتھ لے کر اپنے گاؤں کو خیر باد کہا تو یقین جانیں کہ ہمیں بالکل اپنی منزل کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ ہم نے ڈنمارک کا نام صرف کتابوں میں ہی پڑھا اور سنا تھا۔ہم ویسے ہی اس نامعلوم منزل کی جانب منہ اٹھائے چل پڑے تھے۔ والدین اور خاندان والوں نے بہت روکا اور سمجھایا لیکن ہمارے دماغ میں ڈنمارک پہنچنے کا خبط سوار تھا اور جوانی بھی تھی‘سب کچھ پس پشت ڈال کر چل پڑے۔ہم بسوں‘ ویگنوں میں سفر کرتے ہوئے پاکستان سے براستہ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ بلغاریہ‘ یوگو سلاویہ‘ آسٹریا‘ جرمنی ہوتے ہوئے ڈنمارک پہنچے۔اس رپورٹ میں سفر ہجرت کی پوری تفصیل نہیں بتائی جا سکتی۔بس اتنا ہی کہوں گا کہ ہم سب نے اپنے اس وطن ِ ثانی ڈنمارک میں قدم جمانے کیلئے جو محنت و مشقت اور جدو جہد کی ہے‘یہ آج اسی کا ثمر ہے کہ آج ہم یہاں پر ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔اور ہماری دوسری اور تیسری نسل یہاں پر ہر ہر شعبے میں نمایاں کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہی ہیں۔اور اب ہم پہلی نسل کے تارکین وطن ایک آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ان دنوں جو حالات سفر ہجرت میں ہمیں پیش آئے‘ان کا ذکر عموماً ہماری نجی محفلوں میں ہوتا رہتا ہے۔لیکن میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے اس سفر نامہ کو ایک کتابی شکل میں قلمبند کر دیا جائے‘ تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں یہ جان سکیں کہ ہمارے اجداد کن حالات میں اور کیسے یہاں پہنچے۔اور ان کا تعلق کس ملک اور کس کس علاقہ اور گاؤں سے تھا۔اس لئے میں نے ڈنمارک پہنچنے تک کے حالات اور پس منظر کو ایک کتابی شکل میں بنام,, ناگڑیاں سے کوپن ہیگن تک“ قلمبند کر چکا ہوں۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہماری آئندہ پچاس سال بعد پیدا ہونے والی نسلوں کو معلوم ہو سکے گا کہ ہمارے اجداد کا تعلق کس ملک اور سر زمین سے تھا۔میں یہاں پر موجود تارکین وطن سے بھی درخواست کرونگا کہ آپ بھی اپنی اپنی ہجرت کی یاداشتوں کو قلم بند کر دیں تاکہ آپ سب کی نسلیں بھی اپنے اجداد کو جان سکیں۔
ناظم پروگرام نصر ملک نے بڑی تفصیل کے ساتھ یہاں پر مقیم مختلف خاندانوں کے بچوں کی شاندار کارکردگی اور ان کے سیاسی و سماجی اور علمی کارناموں پر بھر پور روشنی ڈالی۔انہوں نے یہاں سے شائع ہونے والے اردو جریدوں مثلاً صدائے پاکستان‘ تنظیم‘ ماہنامہ شاہین‘ ہفت روزہ وقار‘ اور وطن نیوز انٹرنیشنل کا بطور خاص ذکر کیا اور ان سب کی افادیت اور کارکردگی کی تعریف کی۔اس کے بعد نصر ملک نے سفیر پاکستان کو اپنے خیالات کے اظہار کیلئے دعوت دی۔تو انہوں نے ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کی انتظامیہ کی تعریف کی کہ یہ ایک نہایت ہی احس قدم ہے‘انہوں نے کہا کہ جب سے میں یہاں ڈنمارک میں آیا ہوں‘اور بہت سے پروگرام تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اس قسم کی تقریبات بہت کم دیکھنے میں آئی ہیں۔مجھے اس انفرادی قسم کی تقریب کے انعقاد پر بہت خوشی ہوئی ہے۔میں سمجھتا ہوں اس قسم کے پروگرام ہوتے رہنا چائیے تاکہ یہاں پروان چڑھنے والی نسلوں کے پاکستانی بھی اپنی پہلی نسل کے بزرگوں کی حالات سے اگاہ ہو سکیں۔انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں گاہے بگاہے کہ اس قسم کے پروگرام ہوتے رہنا چائیے۔سفیر محترم نے تمام پاکستانیوں کو پاکستان کے 75سالہ یوم آزادی پر بھرپور شرکت کی بھی دعوت دی اور کہا کہ آپ سب لوگ سفارتخانہ پاکستان میں تشریف لا کر اپنے ملک کی آزادی کو شایان شان طور پر منائیں۔آخر میں ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کے چیئر مین طارق سندھو نے ایک بار پھر تمام آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سب کیلئے کھانے کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔
اس تقریب میں شامل لوگوں میں رشید مالک‘ خواجہ محمد آصف‘ خواجہ محمد طارق عسکری‘ شاکر صاحب‘ اوڈنسے سے خالد بٹ‘ اشرف ایرانی‘ عامر سندھو‘ شوکت علی‘ محمد بوٹا چوہدری ایڈوکیٹ‘ محمد اسلم‘ خوش دل خان‘ نصر ملک‘ امانت علی چوہدری‘ جاوید محمود آرائیں اور بہت دیگر احباب کے علاوہ کچھ ڈینش خوانین و حضرات بھی موجود تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں