وطن نیوز انٹر نیشنل

کشمیر کی سیاسی دوستیاں …. شیخ وبرہمن کا انوکھاملن

کشمیر کی سیاسی تاریخ میں دو کشمیری ا لاصل عبقری شخصیات۔۔۔ علامہ اقبال اور پنڈت جواہر لال نہرو۔۔۔ کا اپنے اپنے دائرے میں کلیدی کردار رہاہے۔ یہ دونوں متحارب فکری دھاروں سے منسوب تھے اور ان میں سیاسی طور بعد المشرقین پایا جاتا تھا مگر شیخ محمد عبدا للہ دونوں کی صحبت سے مستفیض تھے۔ علامہ کے فرزندجسٹس جاوید اقبال اپنے والد بزرگوار کی بیوگرافی”زندہ رُود” کے پیش گفتار میں رقم طراز ہیں:
( ”زندہ رُود”لکھنے کے ضمن میں) میں مطالعہ کی خاطر مواد اکھٹا کر نے لگا اور باب اول یعنی اقبال کے سلسلۂ اجداد کی تدوین کے لئے تحقیق شروع کردی ۔اسی تحقیق کے دوران ایک دن میں نے اپنی بیوی سے ازراہ ِمذاق کہاکہ دیکھو کشمیری پنڈتوں( اول مراد جواہر لال نہرو جن کے آبا واجداد کشمیری تھے اور مغل دور میں دلی ہجرت کر گئے تھے،دوم علامہ اقبال جو پشتینی طور کشمیری پنڈت تھے) نے ہندوستان کو سیاسی آزادی دلوائی اورآزاد مسلم ریاست یعنی پاکستان کے قیام کا تصور بھی کشمیری پنڈت ہی نے دیا۔ سو یہ پنڈتوں کا آپس میں جھگڑا معلوم ہوتا ہے” ۔ ڈا کٹر جاوید اقبال آگے اپنے خواب کی کہانی سنا کر علامہ کے ا ن اشعار کا حوالہ دے اپنی کہی ہوئی بات کی نفی کر تے ہیں بلکہ اس پر شرمساری کا اظہار بھی کر تے ہیں
بُت پرستی کو مرے پیش ِ نظر لاتی ہے
یاد ِا یامِ گذشتہ مجھے شرماتی ہے
ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبال
کوئی پنڈت کہتا ہے تو شرم آتی ہے
کشمیرکے قدآورسیاسی شخصیت شیخ محمد عبداللہ اپنی سوانح عمری”آتش چنار”میں ان دو اہم ہستیوں کا ذکر وضاحتاً کر تے ہیں ۔ واضح رہے کہ شیخ صاحب کی سیاسی فکر کی طرح اُن کی یہ داستان ِ حیات بھی اپنے بعض مندجارت کی روشنی میں کافی متنازعہ رہی ہے ۔ بلاشبہ یہ ضخیم کتاب تاریخ کشمیر کی ہنگامہ خیز ماہ وسال کا احاطہ کر تی ہے مگر اس میںجو رُوداد یں اور قصہ کہا نیاں قلم بند کی گئی ہیں ، ضروری نہیں اُنہیں سو فی صد تاریخی حقیقتیں تسلیم کیا جائے۔اصولی طور پر خود نوشتہ سوانح عمری کسی شخصیت کے خدوحال اوراس کی سوچ اوراس کے عمل کے تاروپود سمجھنے میں بنیادی ماخذ کا کام دیتی ہے ، یہ وقت کی نبضیں تاڑنے میں بھی مد د گار ثابت ہوسکتی ہے مگر یہ صداقت شعاری اور حقیقت بیانی کی آئینہ دار بھی ہو،اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔اس لئے مبصرین ا ور تجزیہ کاروں کے لئے کسی بھی سوانح عمری پر کلام کر نے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ سوانح حیات لکھنے والا وقت کاحال احوال اور زمینی حقائق کو اپنی پسند وناپسند کے مطابق دیکھتا، تاڑتا ، بتاتا اور تحریر کرتا ہے ۔ ”آتش چنار” اس عموم سے کسی طور مستثنٰی نہیں ۔ اس کا مصنف کوئی ادیب ، مورخ یا دانش ور نہیں تھا بلکہ اپنی حیاتِ مستعار کی آخری گھڑی تک کشمیر کا ایک اہم سیاسی قائد رہا ۔شیخ کو بھی پیش آمدہ حالات وواقعات یا وطن کے سیاسی نشیبNehru وفراز یا تواریخ کے سفر کو قدرتی طور اپنی مخصوص سیاسی عینک سے دیکھنے کی مجبوری لاحق تھی ، انہیں اپنے ہر کام اور ہرحرکت اور ہراقدام کا جواز بھی تراشنا تھا، چاہے تراشیدہ جواز ٹھوس ہویا محض ان کا مفروضہ۔ ا س عمومی کلیہ کو زیر نظر رکھتے ہوئے جب ہم شیخ محمد عبداللہ صاحب کی سوانح عمری میں پنڈت نہرو اورعلامہ اقبال کے حوالے سے مسلم کا نفرنس کو نیشنل کا نفرنس میں بدلنے کے حساس موضوع پر خامہ فرسائی کا جائزہ لیتے ہیں توایک پہلوسے اتفاق کرناپڑتاہے اوردوسرے پہلوسے حیرت واستعجاب میں پڑجاتے ہیں۔ شیخ کے قلم سے نہرو کے حوالے سے جو باتیں درج ہیں ،اُن سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر مذکورہ موضوع پر علامہ اقبال سے منسوب باتیں پڑھئے تو حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہے گا۔ کیایہ امر ناقابل ِفہم نہیں کہ وہ شاعر مشرق جو29دسمبر1930ءکوالہٰ آباد میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنے تاریخی خطبے میں اپنی سیاسی فلاسفی۔۔۔ دوقومی نظریہ ۔۔۔ کا نچوڑ پیش کرتے ہیں اور مسلمانان ِ ہند کے لئے متحدہ قومیت کا نظریہ سختی سے مسترد کرکے اُن کی ایک الگ قومیت اور الگ مملکتی پہچان یعنی پاکستان کا خاکہ پیش کر تے ہیں، وہی اقبال کشمیر کے سیاسی قضا وقدر کے مالک رہنما شیخ صاحب کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ موصوف جموں وکشمیرمسلم کا نفرنس کو غیر مسلم کشمیریوں کے لئے کھلا چھوڑ دیں ؟ شیخ کی اس خامہ فرسائی سے کیا اقبال کی سیاسی سوچ میں کھلا تضاد متباور نہیں ہوتا ؟شیخ صاحب کا دعویٰ ہے کہ علامہ نے ہی اُنہیں سجھاؤدیا کہ مسلم کا نفرنس کے دروازے ”غیرمسلموں پر بھی کھول دئے جائیں”۔
اُن کایہ دعویٰ بہ حیثیت مجموعی اقبالی فکر اور شخصی راج کے زیرسایہ کشمیری مسلمانوں کی مظلومیت ومحکومیت پر پریشاں ہونے والے فلسفی شاعر کی سیاسی بصیرت سے کہاں تک میل کھاتی ہے،اس کا فیصلہ مورخ ہی بجاطور کرسکتے ہیں۔ یہاں ”آتش چنار” میں نہرو اور اقبال سے متعلق اہم اقتباس کوقارئین کرام کی سہولت کے لئے من وعن درج کیاجاتاہے۔ شیخ لکھتے ہیں”
1937ءکے آس پاس ہی میری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ہوئی۔اُن دنوں میں اور بخشی غلام محمد لاہور میں تھے ۔ نہرو پنجاب پردیش کانگریس کے صدر میاں افتخار الدین کے مہمان تھے۔ ہم نے پنڈت جی سے ملاقات کے لئے میاں صاحب کی رہائش گاہ پر فون کیا اور وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ صوبہ سرحد کے دورہ پر جانے کے لئے ریلوے اسٹیشن جانے والے ہیں۔ ہمیں مشورہ دیا گیا کہ ہم ملاقات کے لئے اُدھر ہی پہنچ جائیں۔ چناںچہ ہم دونوں ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ پنڈت جی اپنی سُرخ وسپید رنگت اور چہرے بُشرے سے کشمیری خدوخال کا دلکش پیکر لگ رہے تھے۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اورریل کے ڈبے میں اس طرح محوگفتگوہوگئے جیسے ہم رسوں کے دوست ہوں ۔ اتنے میں ٹرین چل دی لیکن گفتگو ا س قدر دل چسپ تھی کہ ہمیں اُٹھنے کا خیال ہی نہ آیا ۔ اور ہم شاہدرہ تک اُن سے باتیں کرتے ہوئے چلے گئے ۔ وہاں بخشی غلام محمد تو اجازت لے کر رخصت ہوگئے مگر پنڈت جی مجھ سے اصرار کر نے لگے کہ میں اُن کے ساتھ صوبہ سرحد چلا آؤں۔ اُن کے اصرار میں اتنی اپنائیت، تپاک اور گرمی تھی کہ میں یوں ہی چلنے پر آمادہ ہوگیا،تاکہ پنڈت جی سے تبادلۂ خیال کا تفصیلی موقع بھی ملے۔میں نے
صوبہ سرحد میں اُن کے ساتھ کئی روزگزارے اوراُن کی دلکش شخصیت کو قریب سے دیکھا بھالا۔اُن کے انداز میں بچوں کی سی معصومیت تھی جس پر خواہ مخواہ پیار آتا تھا۔ اسی دورے میں بادشاہ خان اور دیگر سُرخ پوش رہنماؤں سے میرا تعارف ہوا اور بادشاہ خان سے تودائمی دوستی کے ا سی رشتے کی بنیاد پڑی جو زمانے کے زیروبم کے باوجود آج تک قائم اور سر سبز ہے۔ پنڈت جی سے گفتگو کے دوران مجھے یہ دریافت کر کے بڑی مسرت ہوئی کہ انہوں نے ہماری تحریک کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا۔ وہ ہماری تحریک کے ساتھ صرف ایک ممتاز سیاسی قائد کی حیثیت سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ ایک کشمیری سپوت کی حیثیت سے اپنے وطن ِ مالوف کی تقدیر بدلنے کی کوششوں سے خوب لو لگائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اُ نہیں مادر ِ وطن کشمیر کے ایک فرزند کی حیثیت سے خود اس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ مجھ سے ملیں جو اُن کے الفاظ میں ”سوئی ہوئی قوم کوجگارہاتھا ” ۔ انہوں نے مجھ سے تحریک کے متعلق بہتیرے سوالات پوچھے ۔ میں نے بساط بھر انہیں تحریک کے پس منظر سے واقف کرایا اور اور اُن پر واضح کیا کہ یہ تحریک کسی صورت میں فرقہ وارانہ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ تحریک اس وقت تک مسلم کانفرنس کے نام سے جاری ہے لیکن ا س کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باوجود کوشش کے غیرمسلموں نے ہمارے ساتھ اشتراک کر نے میں دلچسپی نہیں ظاہر نہیں کی ۔ پنڈت جی نے مشورہ دیا کہ ہمیں تنظیم کے دروازے ریاست کے ہر باشندے کے لیے بلا لحاظ مذہب وملت کھلے رکھنے چاہیںتاکہ غیر مسلموں میں بھی جسے اس تحریک کا ساتھ دینے کی توفیق ہو، وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر ایسا کرسکے۔اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہندوفرقہ پرست پریس اورجماعتوں کو تحریک پرفرقہ پرستی کاالزام لگانے کیلئے کوئی دلیل نہ مل سکے گی ۔رخصت ہونے سے قبل میں نے اُن کواوربادشاہ خان کو کشمیر آنے کی دعوت دی جسے دونوں رہنماؤں نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔
کچھ ہی عرصے بعد ہندوستان میں اسٹیٹس پیوپلز کانفرنس پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت میں قائم ہوئی جس کامقصد راجواڑوں کی عملداری کے تحت ریاستوں کے عوام کے حقوق کے لئے تحریک چلانا تھا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اگر مسلم کانفرنس کے زعماء تحریک ِ حریت ِ کشمیر کی ہندوستان کے قوم پرستوں سے حمایت چاہتے ہیں تو اُنہیں اپنے نظریات میں وسعت پیدا کر نا ہوگی اور جماعت کے نام اور ا س کے دستور میں تبدیلی لانا ہوگی ۔
حسنِ اتفاق سمجھ لیجئے یا مشیت ِ ایزدی کہ کشمیر کے دوسرے عظیم فرزند اور تحریک ِ حریت ِ کشمیر کے دعا گواور مربی علامہ سر محمد اقبال نے 37 ء میں مجھے کچھ اسی قسم کا مشورہ دیا۔ وہ اُن دنوں علیل تھے ۔ میں نے انہیں کشمیرآنے کی دعوت دی،ان کے کشمیر میں داخلے پر31ء سے پابندی تھی۔اس پابندی کوواپس لینے کی درخواست کی گئی لیکن مہاراجاکی حکومت نے اکتوبر تک اُنہیں کشمیرآنے کا اجازت نامہ نہیں دیا اورجب اجازت نامہ آیا تو سردی کا زمانہ آگیا تھااور اقبال نے دوسرے سال کے لئے اپنا دورہ ٔ کشمیر ملتوی کردیا۔ اُنہیں کیا معلوم تھا کہ دوسرے سال وہ جنت ِارضی کے بدلے جنت ِ فردوس کی سیاحت کے لئے بلا لئے جائیں گے ۔ جب میں اُن سے رخصت ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ کشمیر یوں کی نجات اسی میں ہے کہ وہ ایک متحدہ تنظیم میں شیرازہ بندہوجائیں اورمسلم کانفرنس کے دروازے غیرمسلموں پربھی کھول دئے جا ئیں۔صرف یہی صورت کشمیر کیلئے آزادی حاصل کر نے کی ہوگی، ورنہ آپسی اختلافات کو غرض مند اور مفاد خصوصی والے اُچھالتے رہیں گے ۔
مسلم کانفرنس میں قومی تنظیم کا بیج پہلے ہی مضمر تھا، اب اس کا پیرہن بدل کر اسے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی گھڑی بھی آن پہنچی تھی اور کسی شاعر کے الفاظ میں ہر طرف یہ احساس عام ہورہاتھا.
بقدرشوق نہیں ظرفِ تنگ نائے غزل
کچھ اورچاہیے وسعت میرے بیان کے لئے
اس طویل اقتباس کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھ کراشارہ ملتاہے کہ شیخ پرنہروکی دوستی غالب تھی یااقبال کی۔۔۔۔۔
نوٹ : ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں