وطن نیوز انٹر نیشنل

سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(5)

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
دوردراز بستیوں میں‘ صحراؤں کی سلگتی ہوئی ریت پر‘ بلند و بالا پہاڑوں پر‘کسی کی مدد کرنی ہو۔ کسی کی ڈھارس بندھانی ہو۔دیر کر دینے کی یہ عادت ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ پچھتر برس بیت گئے ہم ان لوگوں تک نہیں پہنچے جو روٹی‘ کپڑا اور مکان سے محروم ہیں۔ جن کے دامن میں امید کی کوئی کونپل بھی نہیں کھلتی۔ اس دوران ہم نے کتنے نئے شہر بنائے‘ کتنی بستیاں بسائیں لیکن ان لاکھوں لوگوں کے گھر آباد نہ ہوسکے۔ ابھی ہم اور کتنی دیر کریں گے۔ کتنے بے یارومددگار روٹی‘ کپڑااور مکان کو ترستے رہیں گے۔ ہمارے مسیحا کہاں ہیں؟کہاں ہیں ہمارے چارہ گر‘قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟چارہ گری کیوں نہیں کرتے؟ ٹوٹی پھوٹی چھت‘ ایک کمرہ‘ چند مرلے۔ یہ کم نصیب‘ بنی گالا‘ رائے ونڈ اور لاڑکانہ تو نہیں مانگتے۔صرف چند مرلے چاہئیں انہیں۔
اچانک ایک ننگ دھڑنگ اور معصوم سے بچے نے میرا ہاتھ تھام کے جھنجھوڑا تو میں ان الجھے الجھے خیالوں سے واپس لوٹ آیا۔ لوگ کچھ کہہ رہے تھے۔ اکثر خاموشی سے‘ چند ایک آہستگی سے۔ اس آہستگی میں کچھ خوف چھپا تھا۔ یہ سن کر البتہ ایک بار پھر اطمینان ہوا کہ یہ لوگ بھیک نہیں مانگ رہے۔ بس یہ کہتے ہیں کہ کوئی ہمارے گھر کی تعمیر میں مدد دے دے۔بھیک اور دوستی میں ” مرگِ ناگہاں‘‘ اور ”حیاتِ جاوداں‘‘ جیسا فرق ہے۔ بھیک مانگ کر انسان پستیوں میں گر جاتا ہے اور دوست بن کر بلند و بالا ہو جاتا ہے۔ جو انسان اور جوقوم پستی اور بلندی کے اس فرق کو جانتی ہیں‘ وہی زندہ انسان‘ وہی زندہ قوم ہے۔
ہم کوٹ چھٹہ سے نکلے۔ آج رات ہی واپس ڈی جی خان‘ ملتان اور لاہور پہنچنا تھا۔ اس بعد سفر کا اگلا مرحلہ‘ جہاں سندھ اور بلوچستان منزل تھی۔ ملتان سے لاہور موٹروے پہ سفر۔ رات‘ خاموشی اور اندھیرے میں لپٹے ہوئے کھیت۔ چاند تو نہیں تھا‘ کچھ ستارے البتہ ٹمٹماتے ہوئے نظر آئے۔ مایوسی اور ناامیدی میں تو ایک ستارہ بھی بہت ہے۔ اپنے حصے کی ایک شمع‘ اپنے حصے کا ایک دِیا۔ اسی کشمکش میں ہم رات کے آخری پہر لاہور پہنچے۔ ایک دن کے وقفے کے بعد کراچی جانے کی تیاری ہو چکی تھی۔
کراچی‘ روشنیوں کا شہر‘ جہاں اہلِ خیر کی کوئی کمی نہیں۔ جو بھی اس شہر میں خواب لے کے پہنچا‘ ضرور کامیاب ہوا۔ محنت البتہ شرط ہے۔کراچی کو مرکز بنا کر ہمیں سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں جانا تھا۔ اس سفر میں اخوت کے ساتھ پاکستان نیوی کی بھرپور معاونت شامل تھی جس کے لیے ریئر ایڈمرل جاوید اقبال کی جتنی تعریف ہو کم ہے۔ ہم کئی لوگ کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ ان میں اظہر حمید کا نام سرِفہرست ہے جو اخوت امریکہ کے رضا کار صدر ہیں۔ چند دنوں کے لیے پاکستان آئے لیکن سیلاب کی صورت حال دیکھ کر اپنا قیام طویل کردیا۔ جگہ جگہ گھومے‘ کسی کو گلے لگایا۔کسی کے آنسو پونچھے‘کسی کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔محو ِ حیرت‘ محوِ غم اور پھر ہمارے ساتھ کامران بھی تھا جس سے اچھا تصویر ساز (Video Grapher) شاید ہی کوئی ہو۔ کیمرے کی آنکھ سے وہ ایسے منظر دیکھتا ہے جو ہمارے سامنے ہونے کے باوجود ہمیں نظر نہیں آتے۔ اس فن میں یکتا ہونے کے لیے اس نے نجانے کیا کیا پاپڑبیلے اور پھر یہ سب کچھ تو خدا کی دین ہے۔ اخلاص ہو تو بہت کچھ مل جاتا ہے۔ آنے والے دنوں کے منصوبے بناتے ہم جہاز پہ سوار ہوئے اور کچھ ہی دیر میں کراچی جاپہنچے۔ کراچی ایئر پورٹ پر نذیر تونیومنتظر تھے۔رات نذیر تونیو کے گھر گزری۔ وہ اخوت کے بورڈ ممبر ہیں اور سندھ اخوت کے سربراہ۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ نارائن جگن ناتھ ویدیا (این جے وی) سکول کی تعمیرِ نو ہے جس کی کہانی پھر کبھی سنائی جائے گی۔ایسی کہانیاں بھی آپ کو سننے میں کم ملی ہوں گی۔
نذیر تونیو کا‘الحمد للہ‘ گھر بھی بڑا ہے اور دل بھی۔ اگلے دن کی تیاری مکمل کرکے سونے کی کوشش کی لیکن نذیر نے سندھ کی صورت حال کا جو نقشہ کھینچا وہ کہاں سونے دے رہا تھا۔ علی الصباح ناشتہ ہوا اور ہمارا قافلہ سجاول کی طرف چل پڑا‘ لیکن سجاول جانے سے پہلے‘چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل امجد نیازی کے ساتھ ملاقات بھی تھی۔ نیوی کے بارے میں ہم بہت کچھ نہیں جانتے لیکن کمال کے لوگ ہیں یہ۔ ان کی جاں فشانی اور وقار کا ایک اور ہی عالم ہے۔ ایڈمرل نیازی کے ساتھ ریلیف اور ریلیف میں مصروفِ عمل اداروں کی کارکردگی پر بات ہوئی۔ بحریہ کی کاوشوں کا علم ہوا۔ اخوت کی کہانی سے وہ پہلے سے آگاہ تھے۔ ان کی درد مندی اور انکسار نے تو گویا دل ہی جیت لیا۔ انہوں نے بحالی کے عمل میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور صوبائی اور وفاقی حکومت سے گفتگو کا عندیہ بھی دیا۔ مشکل کی اس گھڑی میں کون ہے جو اپنے بھائیوں کے لیے پریشان نہیں۔ ایڈمرل نیازی نے کوسٹل ریجن کے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے‘ ریئر ایڈمرل جاوید اقبال‘ جن کے پاس اس پورے علاقے کی کمان ہے‘ کو ہدایات بھی دیں۔ ملاقات ختم ہوئی۔ریئر ایڈمرل جاوید اقبال نے ہمار ا ہاتھ تھاما اور ہم پھر سے گاڑی میں سوار ہوئے۔نرم دمِ گفتگو‘ گرم دمِ جستجو۔ جاوید اقبال بھی عجب دردمند دل کے حامل ہیں۔ اگلے دو دن ہم جہاں بھی گئے وہ ہمارے ساتھ رہے۔ یادگار لمحے تھے وہ بھی۔
چیف آف نیول سٹاف سے ملنے کے بعد ہمارا پہلا پڑاؤ تین گھنٹے کی مسافت پر چُوڑ جمالی تھا۔ وہاں پر نیوی کے جوانوں نے کئی سو متاثرہ خاندانوں کے ایک ایک فرد کو دعوت دے رکھی تھی۔ ان تمام افراد کے چہروں پر وہی کہانی نقش تھی جو اس سے پہلے ہم جنوبی پنجاب میں دیکھ چکے تھے، لیکن ہمیں لگا یہ بے بسی کچھ زیادہ ہے۔ نوے فیصد سے زائد لوگ اور بچے ننگے پاؤں نظر آئے۔ عورتوں کے چہرے دکھ اور درد کی جھریوں سے بھرے پڑے تھے۔ کیا ہماری دکانوں‘ ہمارے بازاروں میں اتنے جوتے بھی نہیں جو سندھ کے ان غریب علاقوں میں پہنچ سکیں اور یہ معصوم پاؤں کانٹوں‘ نوکیلے کنکروں اور گرد و غبار سے محفوظ ہو سکیں؟چیتھڑے پہنے ہوئے لوگ۔ ساحر لدھیانوی کا شعر آج بھی سچا ہے:
کیا ملیں اس لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
بات دولت یا معیشت کی نہیں‘ سپلائی یا ڈیمانڈ کی بھی نہیں۔ بات ایثار کی ہے۔ معاشیات کا علم ابھی بہت ادھورا ہے۔اس علم میں ایثار شامل نہ ہو تو سرمایہ دارانہ نظام کی بدترین شکل سامنے آتی ہے جس دنیا میں ایک شخص کے پاس سو بلین ڈالر ہو اور دو ارب لوگ صرف ایک ڈالر روزانہ میں زندگی گزاریں‘ وہ بھی کیا دنیا ہے۔
پھٹی ہوئی بوسیدہ چادروں میں لپٹی ہوئی خواتین کی انگلیاں اور ہاتھ بتا رہے تھے کہ یہ محض ہڈیوں کا پنجر ہیں۔ ایک عورت نے این جے وی سکول کی ایک بچی کی طرف سے چھوٹا سا تحفہ پا کر اسے گلے لگایا اور دعاؤں کی برکھا برسنے لگی۔ چُوڑ جمالی میں رہنے والی یہ عورت نجانے اس تحفے کی کب سے منتظر تھی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں