وطن نیوز انٹر نیشنل

یروشلم میں بابا فرید گنج شکرؒ کی سرائے ، خاور نیازی

تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ تاریخ میں متعددشہر ایسے بھی ہیں جن کی کوئی نہ کوئی وجہ شہرت ہوتی ہے۔ لیکن دنیا کے نقشے کا ایک قدیم ترین شہر دنیا کاواحد شہر ہے جسے یہودی، مسیحی اور مسلمان بیک وقت تینوں مقدس مانتے ہیں۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی کی تیاری کی تھی ۔مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہیں مصلوب کیا گیا تھا اور یہیں ان کا مقدس کلیسا واقع ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے معراج پر جانے سے پہلے اسی شہر میں واقع مسجد اقصی میں تمام بنیوں کی امامت فرمائی تھی۔

بر ِصغیر کی یہ عظیم روحانی شخصیت مفتی یروشلم کی اپیل پر اسلامی تعلیمات کے پرچار کیلئے یہاں تشریف فرما ہوئی
یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار سال تک اس شہر پر قبضے کے لئے برسر پیکار رہے۔ اس شہر کو برصغیر کے باسیوں کے لئے یوں بھی انفرادیت حاصل ہے کہ اس شہر میں برصغیر کے ایک صوفی بزرگ بابا فریدگنج شکرؒکی ایک سرائے بھی ہے۔جی ہاں! یہ ذکر دنیا کے قدیم ترین شہر یروشلم کا ہو رہا ہے۔ اور بہت کم لوگ اس شہر بارے یہ جانتے ہونگے کہ اس شہر کے ایک علاقے کا تعلق برصغیر سے ہے۔
بابا فرید گنج شکرؒ یروشلم کیوں آئے؟یہ 2اکتوبر 1187 کا دن تھا جب دنیا کے سب سے متنازع سمجھے جانے والے شہر یروشلم میں لگ بھگ نو دہائی کے وقفے کے بعد مسیحی حکمرانی کا اختتام اور سلطان صلاح الدین کی قیادت میں ایک بار پھر مسلم حکمرانی کا دور شروع ہوا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ سب کچھ کسی جنگ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ایک محاصرے کے بعد شہر کے مسیحی منتظمین اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان ایک معاہدے کے تحت یروشلم کا کنٹرول مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔صلاح الدین ایوبی کی چونکہ دیرینہ خواہش تھی کہ وہ صدیوں سے قابض اس مقدس شہر کو اسلامی تشخص کا نمونہ بنائیں جس کے لئے یروشلم کے مفتی نے سلطان صلاح الدین کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے پوری دنیا کے صوفیوں ، درویشوں اور مشائخ کو دعوت عام دی کہ وہ یروشلم میں آ کر اسلامی تعلیمات کا پرچار کریں۔چنانچہ یہ سلسلہ جنگ ِعظیم اول تک جاری رہا۔ مفتی یروشلم کی اپیل پر یہاں آنے والے صوفیوں میں پنجاب سے بابا فرید گنج بخشؒ بھی تھے۔اگرچہ تاریخ کی کتابیں بابا فریدؒ کے یروشلم میں قیام کے صحیح عرصہ بارے خاموش ہیں تاہم اس بات کے شواہدموجود ہیں کہ ان کا یہاں قیام طویل عرصہ پر محیط تھا۔

ان کا قیام جس عمارت میں تھا بنیادی طور پر وہ ایک سرائے تھی جہاں عام طور پر حج کے دنوں میں مسافر قیام کرتے تھے۔اس سرائے کے نیچے تہ خانے میں ایک چھوٹا سا کمرہ بابا فریدؒ کی عبادت کے لئے مختص تھا۔ جبکہ اس عمارت کے صدر دروازے سے اندر آتے ہی ایک چھوٹا سا کمرہ بابا فریدؒ کی رہائش گاہ پر مشتمل تھا جبکہ باقی ساری عمارت مسافر خانہ کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ تاریخ کی کتابوں میں اس بات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ بابا فرید ؒکی ہندوستان واپسی کے بعد بھی کئی صدیوں تک ہندوستان سے حج کے لئے جانے والے افراد آتے جاتے بابا فریدؒ سرائے میں قیام کرتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب عربوں کی مالی حالت انتہائی مخدوش ہوا کرتی تھی جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوستانی نوابوں اور سلطانوں کی دولت کے چرچے چارسو ہوا کرتے تھے۔اس دوران مسجد اقصی اور دیگر اسلامی عمارتوں کی حالت خستہ ہو چکی تھی ۔چنانچہ مفتی یروشلم نے 1923میں کچھ افراد کو انڈیا کے مسلمانوں کے پاس رقم لینے کے لئے بھیجا۔وفد نے مفتی یروشلم کا ہند کے مسلمانوں کو یہ پیغام بھی پہنچایا کہ بابا فرید ؒکی سرائے کی دیکھ بھال کے لئے ہندوستان ہی سے کسی کو بھیجا جائے چنانچہ 1924میں ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر سہارنپور کے نذیر حسین انصاری نامی ایک نوجوان نے سرائے بابا فرید کا انتظام و انصرام اپنے ذمہ لے کر یروشلم کو ہی اپنا مسکن بنا ڈالا۔کچھ عرصہ بعدنذیر حسین انصاری نے ایک فلسطینی لڑکی سے شادی کر لی اور یوں مرتے دم تک یروشلم کے ہو کر رہ گئے۔نذیر حسین انصاری 1951تک بذات خود اس سرائے کا انتظام اور دیکھ بھال کرتے رہے ۔ 1951 میں نذیر انصاری کے انتقال کے بعد اس سرائے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے بیٹے اور ان کی دو پوتیوں کے ذمہ ہے جہاں یہ اپنے خاوندوں اور بچوں سمیت رہائش پذیر ہے۔

یہ سرائے اب بظاہر دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ ایک حصہ نذیر حسین انصاری خاندان کے زیر استعمال جبکہ اس کے پہلو میں ایک بہت بڑے گیٹ کے ساتھ اس سرائے کا اصل حصہ ہے۔اس گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا احاطہ ہے جس کے دائیں جانب ایک مسجد ہے جبکہ اس کے بائیں طرف ایک بڑا سا کمرہ ہے جو یادگار تصاویر اور اشیاء سے سجایا گیا ہے۔ اس کمرے سے متصل بابا فرید گنج بخشؒ کا کمرہ اور اس سے نیچے تہ خانے میں اس سے بھی کچھ چھوٹا ایک کمرہ بابا فرید کی عبادت کے لئے مختص تھا جہاں بابا فرید اکثر چلا بھی کاٹتے تھے۔اب اس کمرے میں بابا فرید گنج شکرؒ کے ایک مداح کا تیار کردہ ان کا ایک پورٹریٹ بھی سیاحوں کی دلچسپی کے لئے رکھا گیا ہے۔ اس سرائے کی تعمیر کو آٹھ سو سال سے زائد کاعرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران یروشلم متعدد بار میدان جنگ بنا رہا لیکن اللہ کے اس برگزیدہ بزرگ کی یادگار سرائے کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں