وطن نیوز انٹر نیشنل

کلائمیٹ چینج کوڈریڈ بنتا جا رہا ہے؟ خاور نیازی

گزشتہ کچھ عرصہ سے عالمی طور پر موسمیاتی تبدیلی نے جس طرح انسانی رہن سہن اور معمولات زندگی کو متاثر کرنا شروع کیا ہے اس نے دنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماحولیات کے ماہرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چنانچہ اس موضوع پر دنیا بھر کی نامور جامعات اور تحقیقاتی اداروں نے اپنی سوچ کا محور عالمی طور پر ” کلائمیٹ چینج ‘‘ پر ہی مرکوز کر رکھا ہے۔ جس کیلئے اب دنیا بھر کے ماہرین کے سامنے یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ پاکستان کا موجودہ تباہ کن سیلاب ہو یا اس سال یورپ کا موسم گرما ہو، جس کی گرم لہریں یورپ کو خشک سالی سے دوچار کر گئیں۔ آخر ان گرم لہروں کا موسمیاتی تبدیلی میں کس قدر عمل دخل ہے؟
رائل نیدر لینڈز میٹرولوجیکل انسٹیٹیوٹ جو ماحولیات اور موسمیات بارے تحقیقاتی کاموں میں اپناایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس شعبے کے ایک ماہر سائنسدان سوکڑے فلپ جو ایک عرصہ سے آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلیوں پر تحقیقاتی کام کر رہے ہیں نے حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں پر تحقیق کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔
فلپ کہتے ہیں ” انتہائی نوعیت کا موسم ہمیشہ سے کرہ ارض پر موجود چلا آ رہا ہے اور عین ممکن ہے آئندہ بھی موجود رہے گا لیکن موسمیاتی تبدیلی ، شدید یا انتہائی موسمی حالات و واقعات کے امکانات پر اثر انداز ہو سکتی ہے‘‘۔
فلپ جنہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات جاننے کا بیڑا اٹھایا ہے آجکل ” ورلڈ ویدر اٹریبیوشن اینیشی ایٹیو ‘‘ ( WWA) جو کہ ایک معروف بین الاقوامی تنظیم ہے کے ساتھ مل کر عالمی موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات بارے تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کو اور ان کی ٹیم کو سونپا گیا موضوع ”عالمی موسمیاتی واقعات کے موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ حقیقی تعلق ‘‘ ہے، جس پر یہ ٹیم گہرائی میں ان عوامل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرے گی جو موسمی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔یہ ٹیم اس نقطہ پر پر امید ہے کہ یہ موسمی تبدیلیوں کی حقیقی وجوہات جاننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔جس کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ مستقبل میں حفاظتی اقدامات اٹھا کر آنے والے خطرات سے بہتر انداز میں نمٹا جاسکے گا۔
بڑھتا درجہ حرارت تباہی کا سبب ؟
عالمی طور پر اب ماہرین اس نقطے پر اپنی تحقیق کی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ کیا واقعی بڑھتا درجہ حرارت ہی بے وقت بارشوں اور سیلابوں کا سبب ہے؟ اس بارے بعض ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ موسم کی تبدیلی کی کبھی بھی کوئی ایک یا خاص وجہ نہیں ہوتی بلکہ قدرتی عوامل اور انسانوں کے پیدا کردہ مسائل ہی اس کا سبب ہوتے ہیں۔جن میں کھیتوں اور زرعی رقبے کو ختم کر کے رہائشی کالونیاں قائم کرنا ،بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کا بطور ایندھن استعمال بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ نے اپنی زیر نگرانی ” ماحولیاتی تبدیلیوں‘‘ سے متعلق ایک سروے رپورٹ میں عالمی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے ان خدشات کااظہار کیا تھا کہ ” زمین کا ماحول اتنا گرم ہو رہا ہے کہ اگلے دس سالوں میں عالمی درجہء حرارت موجودہ سطح سے کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ نے اس صورت حال کو ”انسانیت کیلئے خطرے کا انتہائی نشان یعنی ”کوڈ ریڈ ‘‘ (code Red)قرار دیا ہے۔ جہاں تک ”کلائمیٹ چینج ‘‘ یا ماحولیاتی تبدیلی کا تعلق ہے، یہ ایک انسانی عنصر تو ہو سکتا ہے لیکن یہ کبھی موسم کی تباہی یا موسم کی تبدیلی کا واحد محرک نہیں ہو سکتا۔
لندن کے امپیریل کالج کی ایک ٹیم جو موسمی تبدیلیوں بارے جرمن ماہرین موسمیات کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ اس ٹیم کے سربراہ فریڈیرکے اوٹو کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کا انحصار موسمی رجحانات پر ہوتا ہے۔اس لئے ہر واقعے میں یہ مختلف شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے۔ آگے چل کر اوٹو کہتے ہیں کہ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کیلئے موسمیاتی تبدیلی بڑا کردار ادا کرتی ہے لیکن عام طورپر دیگر موسمیاتی خرابیاں جیسے کہ شدید بارشیں ، سیلاب یا خشک سالی کی صورت میں ان کا دخل معمولی ہوتا ہے۔
جہاں تک ماحولیاتی تبدیلی کا تعلق ہے امریکہ کے ایک خود مختار بین الحکومتی ادارے ” آئی پی سی سی ‘‘ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی واضح اور بڑی وجہ انسانوں کی پیدا کردہ وہ سرگرمیاں ہیں جو کرہ ارض کو گرم سے گرم کرنے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ ان حالات میں اوٹو کی تیار کردہ رپورٹ کے ان مندرجات کو بھی مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اوٹو کی ٹیم کی تحقیقات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان اور انڈیا میں اس سال گرمی کے باعث معمول سے ہٹ کر 30گنا زیادہ ہلاکتیں نوٹ کی گئی ہیں۔ اوٹو کہتے ہیں ”گرمی کی شدت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی واقعی ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے ‘‘۔
خاور نیازی

اپنا تبصرہ بھیجیں