وطن نیوز انٹر نیشنل

سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا

بحیرہ عرب کی طرف سے آنے والی ہوا مسحور کررہی تھی۔اردگرد پھیلتا ہوا اندھیرا دیکھ کے خیال آیا کہ گاؤں میں بجلی کی جگہ سولر کا انتظام بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ پودے‘ پھول اور درخت بھی لگ سکتے ہیں۔بچوں کے لیے کچھ جھولے اور چھوٹا سا باغ۔ یوں یہ چھوٹی سی بستی ایک خوبصورت بستی کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ شاید ایک لمحے کے لیے ہم بھول گئے کہ تباہ کاری میں گھِرے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر یہ خواب دیکھنا بھی گناہ ہے۔ہم نے نیوی کے افسران کا شکریہ ادا کیا۔ وہ نہ ہوتے تو ہم اتنی دور نہ پہنچ پاتے۔ لوگوں کی اس کسمپرسی پہ ان کے دل بھی اتنے ہی افسردہ تھے۔ ہم نے ایک نگاہ مغرب کی طرف دوڑائی۔ سمندر میں ڈوبتا ہوا سورج۔ کاش اس ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح غم کا سورج بھی کبھی ڈوب جائے۔ ہاں‘ وہ جو حبیب جالب نے کہا :
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
اس سورج کے انتظار میں نجانے کتنے اور دن بیتیں گے
شاہ بندر‘ چُوڑجمالی اورسجاول سے واپس کراچی کا سفر کئی گھنٹوں پہ محیط تھا۔راستے میں نجانے کتنے قصبے اور بستیاں آئیں۔ ذہن پہ وہی تصویریں‘ وہی تباہی‘ وہی منظر چھائے ہوئے تھے۔ لوگوں کی ہمت کا عالم بھی بھولنے کے قابل نہ تھا۔ اس سیلاب سے پہلے غربت کے جس ریلے میں وہ بہہ رہے تھے وہ کوئی کم منہ زور نہ تھا۔ یہ جو ہم ہمدردی کا اظہار کرنے وہاں پہنچے‘ وہ تو بس محض ایک طرح کی سیاحت تھی۔دکھ کو دور سے دیکھ کے یا چند لمحے کسی کے پاس بیٹھ کے محرومی کے غم کب آشکار ہوتے ہیں۔ غریب کی اصل خبر تو اسی کو ہے جو اس چکی میں ہر روز پستا ہے۔ وہ جو میاں محمد بخش نے کہا ” پھَس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا‘‘ ( زندگی کسی شکنجے میں اس طرح جا پھنسی ہے جیسے بیلنے میں گنا)۔غریب کی حالت بھی تو یہی ہے۔ وہ جو فیضؔ نے کہا:
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
ایک جگہ ڈرائیور ہوٹل پہ چائے پینے کے لیے رکے اور ایک دوسرے کو دن بھر کی کارروائی سنانے لگے۔ جی کا بوجھ پھر بھی ہلکا نہ ہوا۔ میں نے فون کھولا تو بیسیوں پیغام موجود تھے۔ ڈاکٹر طیبہ ہما کا ایک پیغام پڑھا تو اس ساری بپتا کی ایک اور ہی جہت سامنے تھی۔ ڈاکٹر ہما نے جو لکھا اس کے بارے میں ہم نے سوچا تو ضرور تھا لیکن اس شدت سے نہیں۔ یہ دکھ کی ایک انوکھی لہر تھی جس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہوگا۔
ڈاکٹر ہما کا کہنا تھا: ”کیا آپ کو خبر ہے کہ ان لاکھوں سیلاب زدگان میں سات لاکھ حاملہ عورتیں بھی ہیں اور ان میں سے تقریباًستر ہزار کی زچگی بہت جلد متوقع ہے۔سیلاب‘ بے گھر‘ کھلا آسمان‘ ننگی زمین اور پھولے ہوئے پیٹ والی سات لاکھ عورتیں! نجانے یہ عورتیں کیا کھاتی ہوں گی؟ کیا پیتی ہوں گی ؟ایک ٹکڑا روٹی کا اور دو گھونٹ پانی۔ وہ بھی ہر طرح کی گندگی سے آلودہ۔پیاس کہاں دیکھتی ہے کہ پانی گندا ہے یا صاف؟ ممکن ہے روٹی کا ٹکڑا بھی میسر نہ ہو‘ معدہ دہائی دیتا ہو‘ آنتیں بل کھاتی ہوں اور دور دور تک کچھ نظر نہ آتا ہو۔لیکن پیٹ میں جو معصوم وجود بیٹھا ہے‘ اسے کیا خبر کہ باہر سب کچھ بہہ چکا اور ماں اونچے ٹیلے پہ بے یارومددگار بیٹھی ہے۔ وہ تو کہتا ہو گا کہ ماں بھوکا ہوں میں‘ ماں کچھ دو مجھے کھانے کیلئے۔ قحط زدہ ماں ادھر ادھر دیکھتی ہے‘ کچھ نظر نہیں آتا‘ آہ بھرکر پیٹ تھپتھپاتے ہوئے کہتی ہے‘ میرے بچے صبر‘ کچھ دیر اور صبر۔ مدد آنے ہی والی ہے۔ مسیحا بہت دور نہیں۔افسوس کوئی مسیحا نہیں آتا۔یہ اکیسویں صدی کی کربلا ہے۔ سیلاب میں گھری اونچے ٹیلے پہ بیٹھی ایسی عورتوں کے پاس کچھ نہیں۔سات لاکھ میں سے ستر ہزار کی زچگی سر پہ کھڑی ہے۔کچھ تو ایسی بھی ہوں گی جو دردِ زہ میں مبتلا ہوں۔ کیا آپ مردوں کو علم ہے کہ انسان کو جنم دینے والا یہ درد کس قدر جاں لیوا ہوتا ہے۔ کیسے علم ہو گا۔ آپ میں سے کسی نے کسی کو جنم دیا ہو تو علم ہو نا! کیا زچہ و بچہ ٹیٹنس (Tetanus) کے ہتھے چڑھنے سے بچ جائیں گے؟
ڈاکٹر ہما کے اگلے سوال ہمیں مزید ڈرانے لگے۔ اگر زچگی کے بعد خون بند نہ ہوا توکیا ہوگا۔ اگر اس عورت کے جسم کا آدھا خون بھی بہہ گیا تو موت ہاتھ پکڑ لے گی۔ زندگی کی شمع گل ہو جائے گی۔پہلے ہی اس ناتواں جسم میں کتنا لہو ہے۔ظلم و ستم کا یہ نظام تو پہلے ہی اس کا خون چوس چکا ہے۔ ابھی تو یہ نارمل زچگی کی کہانی ہے۔ اگر بچہ ٹیڑھا ہوا تو کیسے پیدا ہو گا؟ اگر الٹا پیدا ہوا تو کیا ہوگااور پیدا ہوتے ہوئے اس کا سر پھنس گیا تو پھر کیا ہو گا؟ زچگی میں بچے دانی بھی تو پھٹ سکتی ہے۔ کسی کو پتا بھی کیسے چلے گا کہ بچے دانی تار تار ہو چکی ہے اور زچہ جاں بہ لب ہے۔ چلئے کسی نہ کسی طرح بچہ پیدا ہو گیا‘ اب کیا پئے گا یہ بچہ؟ فاقوں کی ماری ماں کی چھاتی میں دودھ کیسے اترے گا؟ کمزور جسم سے بہتا ہوا خون اور اردگرد پھیلے ہوئے جراثیم۔دوائیں کہاں سے لائیں‘یہاں تو ایک ٹکڑا روٹی کا میسر نہیں۔ ان مظلوم اور ستم رسیدہ عورتوں کو بچانے والا کوئی ہے۔ کہاں گئی سرکار۔ کہاں گئیں این جی اوز۔ کہاں گئے منبرو محراب کے داعی اور ہر طرح کا علم بگھارنے والے دانشور۔ ڈاکٹر طیبہ ہما نے یہ باتیں کہنے کے لیے نجانے کہاں سے جرأت لی۔ کوئی ہے جو اس کو بتائے کہ بے حسی کے شہر میں ایسی باتیں نہیں کہتے۔
یہ المیہ تو صرف حاملہ عورتوں کا تھا۔ چھوٹے بچے‘ ضیف مرد اور عورتیں اور پھر معذور۔ اس قیامت صغریٰ میں وہ کہاں جاتے کدھر جاتے۔ نوجوانوں نے اپنے کندھوں پر بوڑھے والدین کو بھی اٹھایا اور کچھ قیمتی مال و اسباب بھی۔ واپسی کا جو بھی سفر بچا اس میں بے بسی کے یہی منظر کانٹے کی طرح چبھتے رہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بنیادی مراکزِ صحت بھی تھے اور یونین کی سطح پر طبی مراکز بھی۔ان کی بھی تو کچھ ذمہ داری ہے۔
بہت سے اور پیغام‘ بہت سی اور تصویریں۔ یہ سب دیکھتے اور مستقبل کے بارے میں سوچتے ہم سفر طے کرتے رہے۔ رات کے پہلے پہر کراچی پہنچے اور دوسرے روز کا پروگرام طے کیا۔ اگلے روز بھی ہمیں پاکستان بحریہ کے ہمراہ سفر کرنا تھا۔بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ کوسٹل ہائی وے۔ لسبیلہ‘ اُتھل‘ سدھوری گوٹھ اور اورماڑہ۔ صبح بھی گھر سے جلد نکلنے کی ضرورت تھی کیونکہ شام تک ہمیں اورماڑہ پہنچ کر وہاں بھی بارش سے متاثر گھرانوں اور اخوت کے سٹاف سے ملنا تھا۔ بحیرہ عرب کے کنارے نیلے گہرے پانی کا ساحل اور نیلے آسمان کے نیچے اورماڑہ نامی خوبصورت قصبہ‘ پاکستان نیوی کیڈٹ کالج کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔یہاں داخل ہونے والے بچوں میں سے پچاس فیصد بلوچستان کے اور بقیہ پچاس فیصد دیگر صوبوں سے آتے ہیں۔نہ کوئی فیس نہ کوئی اخراجات۔ یہ کیڈٹ کالج بھی ایک غیر معمولی منصوبہ تھا جس کے مکمل ہونے کے بعد نہ صرف بحریہ کوبہترین افسر میسر آنے لگے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی بہترین صلاحیتوں کے مالک بچے نام پیدا کر رہے ہیں۔ نیوی کیڈٹ کالج اورماڑہ سمندر کے کنارے ایک لائٹ ہاؤس سے کم نہیں جس کی روشنی ایک نئی منزل کی راہ دکھا رہی ہے۔غربت‘ جہالت اور تعصب سے بلند پاکستان۔ مایوسی اور امید کے بیچ میں رات گزر ہی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں