وطن نیوز انٹر نیشنل

نیا سیاسی منظر نامہ، عمران خان کے لیے اہم فیصلوں کی گھڑی؟

تجزیہ کاروں کے خیال میں لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے اعلان میں تاخیر عمران خان کو درپیش سیاسی چیلنجز کی عکاسی ہے۔ نئے سیاسی حالات میں قبل از وقت انتخابات کے امکانات بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طاقتور حلقوں نے ملکی استحکام کو یقینی بنانے اور سیاسی قوتوں کے جمہوری عمل میں منصفانہ طریقے سے حصہ لینے کے عمل کو یقینی بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس نئے سیاسی منظر نامے میں قبل از انتخابات کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بھی یقینی نہیں ہیں۔
پاکستان میں ہفتے کے روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے واضح کیا کہ کسی ملک گروہ یا فرد کو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یاد رہے پاکستان تحریک انصاف آج کل ملک میں احتجاجی لانگ مارچ کی تیاریوں کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جہاں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت قائم ہے وہاں ہفتے کے روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے۔ رانا ثنااللہ کوپی ٹی آئی کے مجوزہ لانگ مارچ کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ انسداد بدعنوانی کے صوبائی محکمے کے ترجمان کے مطابق رانا ثنا اللہ کے یہ وارنٹ گرفتاری اینٹی کرپشن کی ایک انکوائری میں حاضر نہ ہونے پر جاری ہوئے ہیں۔
پاکستان، آٹھ معاونین خصوصی کی تقرری پر تنقید کا طوفان.
عمران خان حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کے اعلان میں محتاط دکھائی دیتے ہیں..
کیا عمران خان کا لانگ مارچ نتیجہ خیز ہوگا؟
ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ ملتوی کیے جارہے ہیں۔ یاد رہے عمران خان نے 2014ء میں بھی ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دیا تھا اور اس وقت بھی وہ اس دھرنے کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب میں لانگ مارچ کی تیاریوں کا چلنیچ درپیش ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی پراسرار طور پر’علاج کی غرض‘ سے لندن میں مقیم ہیں۔
پاکستانی سیاست، مائنس ون فارمولا: منفی روایت ختم ہونا چاہیے..ایک اور سینیئر تجزیہ کار نوید چوہدری کے مطابق ماضی میں عمران خان کے لانگ مارچ کو طاقتور حلقوں کی بھرپورحمایت حاصل تھی۔ لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پاکستان تحریک انصاف اس مرتبہ کسی ایسی آشیرباد کے بغیر کیا کوئی بہت بڑالانگ مارچ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی، ”اگر یہ لانگ مارچ ہو بھی جائے تو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ ‘‘
نوید چوہدری کے بقول پنجاب کی ہوشیار بیوروکریسی بھی ان حالات میں پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہی ہے۔ ان کے بقول حال ہی میں آئی جی پولیس پنجاب نے سی سی پی او لاہور کی عمران خان سے براہ راست ملاقات کا سخت برا منایا ہے۔ ادھر صوبائی وزیر داخلہ کرنل( ر)ہاشم ڈوگر نے بھی واضح کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں کسی قسم کی سرکاری مشنیری استعمال نہیں ہو گی۔امیتاز عالم کے خیال میں عمران خان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے ان کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ امتیاز عالم کے بقول ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو نئی سیاسی حقیقتوں کا جلد ادراک ہو جائے اور انہیں خود ہی پیچھے ہٹنا پڑے۔

عمران خان اپنے حامیوں کو لانگ مارچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کرتے آ رہے ہیں..
کیا عمران خان بند گلی میں جا رہے ہیں ..
تجزیہ نگار نوید چوہدری کہتے ہیں کہ غیر ضروری جارحانہ سیاست اور اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنانے سے عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ ان کی اپنی پارٹی میں ان کی پالیسیوں کے خلاف آرا موجود ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں سمیت کئی معاملات پر انہیں یو ٹرن لینا پڑ رہے ہیں۔ نوید چوہدری کے بقول ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کے آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔امتیاز عالم کے بقول حال ہی میں سامنے آنے والی آڈیو لیکس نے عمران خانکے بیانیے کی ہوا نکال دی ہے۔ ان کی طرف سے اراکین پارلیمنٹ خریدنے کی بات اور ہر جائز ناجائز طریقے سے اقتدار میں حاصل کرنے کے عزائم نے ان کے امیج کو بہت نقصان پہنچایا ہے، ”سیلابی آفت میں ملکی مفاد کے خلاف انہوں نے پاکستان کی حکومت کو چور حکومت قرار دے کر عالمی برادری کو جو پیغام دیا اس سے ان کا اینٹی کلائمیکس شروع ہو گیا ہے۔‘‘
پنجاب حکومت پر تبدیلی کے سائے.
پنجاب کی صوبائی حکومت کو بھی سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔ نوید چوہدری کے مطابق لاہور میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے نمایاں ہورہے ہیں،”اس بات کے امکانات بڑھ رہے ہیں کہ وزیراعلی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہاجا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایک پراپرٹی ٹائیکون اور پی ٹی آئی کے منحرف رہنما عبدالعلیم خان مبینہ طور پر درجنوں پی ٹی آئی امیدواروں کی حمایت حاصل کر نے کے دعویدار ہیں۔‘‘
پی ٹی آئی زیر عتاب: پاکستان میں بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام
پنجاب میں پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں.
بعض لوگ عبدالعلیم خان، پرویز الہی اور شریف فیملی کے اہم افراد کی لندن میں بیک وقت موجودگی کو بھی معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔امیتاز عالم کہتے ہیں کہ پرویز الہی پنجاب میں آٹھ، دس مہینوں کے لیے پنجاب کی حکومت چاہتے ہیں۔ اپنی وازرت اعلٰی برقرار رکھنے کے لیے اگر وہ اپوزیشن جماعتوں سے جا ملے تو انہیں کوئی حیرت نہیں ہو گی۔
کیا پنجاب میں گورنر راج لگنے والا ہے ؟
نوید چوہدری کہتے ہیں کہ پنجاب میں غیر معمولی صورت حال میں صوبے میں گورنر راج کا نفاذ ایک آئینی آپشن ہے۔ یاد رہے رانا ثناءاللہ بھی چند روز پہلے نام لیے بغیر لانگ مارچ کی صورت میں دو آپشنز کا ذکر کر چکے ہیں۔ نوید چوہدری کے خیال میں اس بات کا امکان ہے کہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ان کے مطابق پنجاب کی بیوروکریسی کو اشارے مل چکے ہیں۔ وہ کسی پارٹی یا فرد کے لیے وفاداری نبھانے کی بجائے ان حالات میں اپنا آئینی اور قانونی کردار نبھانے تک ہی محدود رہے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کے بقول پنجاب میں لمبے عرصے تک حکومتوں میں رہنے والی مسلم لیگ ن کا اب بھی صوبائی پولیس کے محکمے پر گہرا اثرورسوخ ہے، اس لیے پی ٹی آئی کے لیے پولیس سے زبر دستی کام لینا آسان نہ ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں