وطن نیوز انٹر نیشنل

گلابی ہے اکتوبر

میری بیگم کی عمر محض بتیس سال تھی جب انہیں سینے میں گلٹی محسوس ہوئی۔ ٹیسٹ کروانے پر علم ہوا کہ گلٹی کینسر کی تھی۔ ڈاکٹرز نے رپورٹ دیکھنے کے بعد فوراً سرجری کا مشور دیا جبکہ اس دوران کئی بہی خواہوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ کسی نے کہا سرجری ہرگز نہ کرانا، کسی نے ہومیوپیتھی علاج کےلیے تو کسی نے جھاڑ پھونک اور تعویز کا مشورہ دیا۔ لیکن ہم ڈاکٹر کا مشورہ مانتے ہوئے آپریشن کی طرف گئے۔

یہ کہنا تھا کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد انور کا جن کی اہلیہ بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کے کینسر کی سروائیور ہیں۔ انور کا مزید بتانا تھا کہ ان کی بیگم کو کیموتھراپی کے اذیت ناک مرحلے سے بھی گزرنا پڑا، جس کے بعد ان کی بیگم کے سر کے تمام بال اتر گئے۔ کیمو کے بعد ریڈی ایشن کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر متعدد ٹیبلٹس دی گئیں جو پانچ سال تک کھانی تھیں۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ سب کیا جو جدید طریقہ علاج سے ممکن تھا جبکہ ان کی بیگم کا حوصلہ قابل تعریف رہا۔

اپنی بیگم کی صحت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ان کے بال بھی چند ماہ بعد آگئے جو پہلے سے زیادہ سیاہ اور چمکدار تھے اور بیگم صحتمند ہوگئی ہیں۔ اس بات کو پچیس سال ہوگئے لیکن آج بھی ذہن کے کسی گوشے میں یہی خوف رہتا ہے۔ کبھی غیر معمولی کھانسی یا بخار ہوجائے تو خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔

گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی مکرم حبیب نے اس حوالے سے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب انہیں چھاتی کی بائیں طرف ایک سخت گلٹی اور ساتھ ہی درد محسوس ہوا تو انہوں نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ جہاں ان کا Fine needle aspiration cytology ہوا اور اس کے بعد ڈاکٹر نے انہیں آپریشن کا مشورہ دیا۔ تاہم انہوں نے اپنی رپورٹ لاہور میں ڈاکٹر کو دکھانے کا فیصلہ کیا۔ لاہور میں چھاتی کے کینسر کی سینئر ڈاکٹر نے انہیں میموگرام اور الٹرا ساؤنڈ کا مشورہ دیا۔ ان دونوں ٹیسٹ کی رپورٹس دیکھ کر ڈاکٹر نے بتایا کہ کبھی کبھی غیر شادی شدہ لڑکیوں کی چھاتی میں بعض اوقات پانی کی تھیلیاں خودبخود بنتی ہیں اور ختم ہوجاتی ہیں۔ تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ٹیسٹ نہ کروایا جائے۔ جیسے ہی گلٹی محسوس ہو آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے۔

مکرم حبیب کا مزید کہنا ہے کہ اپنی بیٹیوں، بہنوں کو ضرور اس سے آگاہ کریں کہ کس طرح اپنا خیال رکھنا ہے، ورنہ ایک دن کی تاخیر بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں اس تصور کو ختم کرنے کی شدید ضرورت ہے کہ کنواری لڑکی کو لیڈی ڈاکٹر سے چیک کروایا تو لوگ کیا کہیں گے۔

چھاتی کا کینسر یا بریسٹ کینسر چھاتی میں گلٹی آجانے کو کہتے ہیں۔ تاہم ضرروی نہیں کہ بریسٹ کینسر چھاتی میں گلٹی ہو تو ہی ہوگا، اس کی اور بھی بہت سی علامات ہیں۔ جیسا کہ چھاتی کے تمام یا کچھ حصے میں سوجن آجائے، نپل سے خونی اخراج، چھاتی پر جلد کا چھلکا، چھاتی کی شکل یا سائز میں اچانک غیر واضح تبدیلی، سینے پر جلد کی ظاہری شکل میں تبدیلی یا پھر بازو کے نیچے کوئی گانٹھ یا سوجن وغیرہ۔ تاہم عام فہم میں چھاتی کے اندر ایسی گلٹی جو کہ کینسر جیسی ہو اور وہ بڑھتی جائے اور وہ دوسری جگہ پر پھیل جائے اس کو چھاتی کا یا بریسٹ کینسر کہتے ہیں۔

اگر کوئی خاتون گلٹی محسوس کرے تو اسکریننگ کےلیے ٹیسٹ کیا جاتا ہے جو میمو گرام کہلاتا ہے۔ میمو گرام چالیس سال کی عمر سے زائد کےلیے ہوتا ہے، تاہم اگر مریض کی عمر بیس تیس سال یا چالیس سے کم ہے تو پھر بعض اوقات پہلے الٹرا ساؤنڈ کیا جاتا ہے۔ چھاتی کے الٹرا ساؤنڈ اور میموگرام اسپیشل ٹیسٹ ہیں۔ میموگرام کے بعد اگر گلٹی کی نوعیت ایسی لگے کہ یہ خطرناک ہوسکتی ہے تو پھر سوئی سے اس گلٹی کو چیک کیا جاتا ہے، جس کو بائیوپسی کہتے ہیں۔ یہ بائیوپسی کی خاص قسم ہوتی ہے جو گلٹی کےلیے کی جاتی ہے۔

معاشرے میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ خاتون کو اگر کوئی گلٹی محسوس ہورہی ہے تو وہ شرم یا جھجھک میں نہ رہیں بلکہ گھر والوں کو فوری طور پر بتائیں اور ڈاکٹر سے جتنا جلدی ہوسکے رجوع کریں۔ جبکہ خاتون کے گھر والوں خصوصی طور پر مردوں کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس کا علاج گھر پر ممکن نہیں۔ اس کےلیے ڈاکٹر کو دکھانا ازحد ضروری ہے۔ بیس سال کی عمر کے بعد سے بریسٹ سیلف ایگزامینشن تو ہر مہینے ہی کرنا ہے جبکہ کم از کم چھ مہینے یا سال میں ایک بار کلینکل ایگزامینشن بھی کروانا ہے اور چالیس سال کی عمر کے بعد میموگرام لازمی کروائیں۔

بدقسمتی سے ایسا کوئی مکمل اور باضابطہ ڈیٹا موجود نہیں جس کے ذریعے بتایا جاسکے کہ پاکستان میں کتنی فیصد خواتین کو چھاتی کا کینسر لاحق ہوتا ہے۔ صرف کراچی کے جناح میڈیکل انسی ٹیوٹ میں ہی چار سرجیکل وارڈز کام کررہے ہیں جہاں 2021 سے 2022 ستمبر تک 202 خواتین کو آپریٹ کیا جاچکا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھی جانی ضروری ہے کہ بریسٹ کینسر صرف خواتین میں ہی نہیں ہوتا بلکہ مردوں میں بھی ہوتا ہے، تاہم مردوں میں چھاتی کے کینسر کے کیسز ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ علاوہ ازیں چھاتی کے کینسر کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اگر ایک چھاتی میں ہوا تھا تو دوسری چھاتی میں نہیں ہوگا۔ یہ کینسر دوبارہ بھی نمودار ہوسکتا ہے۔ اسی لیے مریض کو بار بار بلا کر چیک اپ کیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کینسر کا لفظ ہی ایسا ہے جو کسی بھی انسان کو بہت زیادہ صدمے اور خوف کی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جبکہ چھاتی کے کینسر کا سن کر ہی خواتین شرم اور جھجھک میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور بنا کسی کو بتائے تکلیف برداشت کرنا شروع کردیتی ہیں جو کسی طور بھی درست نہیں ہے۔

مریض کو اگر کیموتھراپی کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کو یہ اعتماد دینا ضروری ہے کہ یہ علاج کا ایک مرحلہ ہے، جس میں اگر بال جھڑ بھی جائیں اور الٹیاں یا اس طرح کی تکلیف ہو تو وہ عارضی ہوتی ہیں۔ مکمل علاج کے بعد بال بھی دوبارہ آجاتے ہیں اور دوسری تکالیف بھی وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتی ہیں۔

19 اکتوبر کو بریسٹ کینسر کے عالمی دن کی حیثیت حاصل ہے تاکہ اس حوالے سے عوام کو آگاہی دی جاسکے۔ خیال رکھیے اپنا اور اپنے پیاروں کا۔ یہی زندگی ہے۔ زندگی سے پیار کیجیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں