وطن نیوز انٹر نیشنل

عمران خان نا اہل: تبصروں، بیانات اور ردعمل کا سلسلہ شروع

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو نا اہل قرار دے دیا ہے اور ان کی نشست کو خالی قرار دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ ای سی پی کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے کیونکہ وہ کرپٹ پریکٹس میں ملوث رہے ہیں۔ یہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کے پانچ میں سے چار ارکان موجود تھے۔ ای سی پی ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے رکن بابر حسن بھروانہ چھٹی پر ہیں تاہم انہوں نے اس فیصلے کی تائید کی ہے۔
فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر تبصروں کا ایک طوفان شروع ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے کچھ ٹرینڈز بھی شروع ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا شروع کردیا ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ فیصلے کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج شروع ہوگا۔
اس فیصلے کے بعد کچھ قانونی حلقوں میں یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ آیا عمران خان قانونی طور پر اپنی پارٹی کی قیادت بھی کر سکیں گے یا نہیں کیونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی نا اہلی کے بعد پارٹی قیادت نہیں سنھبال پائے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ردعمل
ن لیگ اور حکومتی جماعتیں اسے قانون اور آئین کے مطابق دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا، ”وہ پاکستان کا پہلا سرٹیفائیڈ جھوٹا اور سند یافتہ چور ہے جو چوری کے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ نا اہل ہوا۔ میاں بیوی نے مل کر قومی خزانے کو لوٹا۔ اس کو گرفتار کر کے قانون کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ جتنی بڑی چوری ہے، اس کو صرف ناہلی پر ختم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
عمران خان
عوامی نیشنل پارٹی نے اس کو مکافات عمل قرار دیا۔ جب کہ پی ٹی آئی اس پر چراغ پا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے فیصلے کو شرمناک قرار دیا ہے اور اسے ملک، آئین اور عوام کے خلاف قرار دیا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے سابق گورنر اور مسلم لیگ ن کے رہنما اقبال ظفر جھگڑا کا دعویٰ ہے کہ یہ عمران خان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ قانون اور آئین کے مطابق ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” عمران خان کے خلاف آئین کی شقوں کے تحت فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک متفقہ فیصلہ ہے اور کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ وہ کرپٹ پریکٹس میں ملوث تھے اور اس کے ثبوت ای سی پی کے پاس تھے۔ تو فیصلہ کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔‘‘
کئی مبصرین کا خدشہ ہے کہ ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں اس فیصلے کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کر سکتی ہے لیکن جھگڑا اس سے اتفاق نہیں کرتے: ”عمران خان کے خلاف ٹھوس ثبوت اور مضبوط شواہد تھے۔ ای سی پی مستقبل میں کیسے کسی کو بغیر ثبوت کے نا اہل قرار دے سکتی۔ میرا خیال نہیں کہ ایسا ہوگا یا اسٹیبلشمنٹ اس کو سیاست دانوں کے خلاف استعمال کر سکے گی۔‘‘
’عمران خان کی شہرت میں اضافہ ہوگا‘
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہاس فیصلے سے عمران خان کو فائدہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کے سابق رہنما رضا ہارون کا کہنا ہے کہ اس سے عمران خان کو فرق نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میرے خیال سے اس سے عمران خان کو مزید شہرت ملے گی اور ان کے کارکنان اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو یہ ثابت کرنے پڑے گا کہ وہ ایک امتحان سے دوچار ہوگئے ہیں اور یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اس سے کیسے نبردآزما ہوں گے۔‘‘
’نواز، امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کا فرمائشی پروگرام‘
پی ٹی آئی اس فیصلے کو مختلف شخصیات اور عناصر کی سازش قرار دے رہی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈز سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک فرمائشی پروگرام ہے، جس کا مطالبہ تین عناصر کی طرف سے کیا گیا۔ انہوں نے ڈبلیو کو بتایا، ”ہمارا خیال ہے کہ یہ امریکہ، نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا فرمائشی پروگرام ہے، جس کی وجہ سے عمران خان کو نا اہل قرار دیا گیا۔ اس سے ملک کے اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور ملک انارکی کی طرف جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اس فیصلے کو عدالت میں بھی چیلنج کرے گی اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج بھی کرے گی۔‘‘
’عمران اس کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا‘
سابق رکن قومی اسمبلی بشری گوہر کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کو اس نا اہلی پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا ہے۔ سیاست دانوں کو اس فیصلے پر خوشی منانے کی بجائے، آئین اور قانون کو اصل معنوں میں بحال کرنا چاہیے۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نا اہل قرار نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ اس کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلانا چاہیے۔ اب اس فیصلے کو عمران خان اپنے لیے استعمال کرے گا اور شہید بننے کی کوشش کرے گا۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں