وطن نیوز انٹر نیشنل

,, زکواۃ“ (وَاَتُوالزٰکوَاۃَ) ………امانت علی چوہدری ڈنمارک

,, زکواۃ“
(وَاَتُوالزٰکوَاۃَ)
امانت علی چوہدری ڈنمارک
نماز کے بعد جس اسلامی رکن کا اصل تعلق خالق و مخلوق کے باہمی سلسلہ اور رابطہ سے ہے اور جس کا ایک بڑا فائدہ نظام ِ جماعت کا قیام ہے‘ وہ اسلامی عبادت کا دوسرا رکن زکواۃ ہے جو آپس میں انسانوں کے درمیان ہمدردی اور باہم ایک دوسرے کی امداد اور معاونت کا نام ہے اور جس کا اہم فائدہ نظام جماعت کے قیام کیلئے مالی سرمایہ باہم پہنچانا ہے۔زکواۃ کا دوسرا نام,,صدقہ“ ہے‘جس کا اطلاق تعمیم کے ساتھ ہر مالی اور جسمانی امداد اور نیکی پر بھی ہوتا ہے لیکن فقہی اصطلاح میں,زکواۃ‘ صرف اس مالی امداد کو کہتے ہیں جو ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو دولت کی ایک مخصوص تعداد کا مالک ہو۔دین اسلام میں زکواۃ بھی ان عبادات میں سے ہے جو تمام آسمانی مذاہب کے صحیفوں میں فرض بتائی گئی ہے لیکن ان سابقہ مذاہب کے ماننے والوں نے اس ضروری فرض کو بھلا دیا ہے لیکن خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت نے اس بارے میں بھی اپنا تکمیلی کارنامہ انجام دیا اور آپ ؐ نے نہایت خوبی اور وقت نظر کے ساتھ زکواۃ کا پورا نظام تیار کیا۔انسان کے مالی معاملات و کاروبار کا معیار عموماً سالانہ آمدنی سے قائم ہوتا ہے۔اس لئے اسلام نے زکواۃ کی مدت سال بھر کے بعد مقرر کی اور ہر سال اس کا ادا کرنا ضروری قرار دیااور اس کے ساتھ ہی اس نے دولت کے تین سر چشمے قرار دیئے۔1۔سونا اور چاندی وغیرہ۔2۔جانور۔3۔ پیداوار‘اور ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ شرحیں مقرر کیں‘ یعنی سونے اور چاندی میں سے چالیسواں حصہ اور پیداوار میں دسواں حصہ معین کیا۔اور جانوروں کی مختلف قسموں میں سے ان کی مختلف تعداد پر ان کی قدر و قیمت کی کمی بیشی کے لحاظ سے مختلف شرحیں قرار دیں اور پھر اس زکواۃ سے ہر قسم کے مصارف کی تعیس و تحدید کی اور اس کی تحصیل و صول اور جمع و خرچ کا کام بیت المال سے متعلق کیا۔
اسلام کی تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیفہئ وحی میں نماز کے ساتھ ساتھ جو فریضہ سب سے اہم نظر آتا ہے‘ وہ زکواۃ ہے۔گویا نماز حقوق الہیٰ میں سے ہے اور زکواۃ حقوق العباد میں سے۔ان دونوں فریضوں کا باہم لازم و ملزوم اور مربوط ہونا اس حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی یکساں لحاذ رکھا گیا ہے۔لہٰذا قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمیشہ زکواۃ کا بھی بیان کیا گیا ہے‘ گویا جب کہیں اسلام کی تبلیغ کی جاتی تھی تو نماز کے بعد زکواۃ کے حکم کا ذکر بھی کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے امیروں کے مال پر زکواۃ فرض کی ہے جو ان دولتمندوں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد جب عرب نے زکواۃ کے معاملہ میں بغاوت کی تو حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے ان کے خلاف تلوار کھینچ لی لیکن جب حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو توحید کا قائل ہو اس کا خون روا نہیں‘اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جواب دیا,, خدا کی قسم! جو نماز اور زکواۃ میں فرق کریگا‘ میں اس سے لڑوں گا۔کہ زکواۃ مال کا حق ہے۔خدا کی قسم! جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زکواۃ میں بھیڑ کا ایک بچہ بھی دیتا تھا‘وہ اس کو دینا پڑے گا۔یہ ایک ایسا لطیف نقطہ تھاجس کو شریعت کا محرم راز ہی سمجھ سکتا تھا۔اس نے سمجھا اور امت کو سمجھایا اور سب نے اس کے سامنے اطاعت کی گردن جھکا دی۔
اسلام کی تنظیمی زندگی صرف دو بنیادوں پر قائم ہے جس میں سے ایک روحانی نماز با جماعت سے جو کسی مسجد میں ادا کرنے سے قائم ہوتا ہے اور مادی نظام زکواۃ سے جو کسی بیت المال میں جمع ہو کر تقسیم ہو مرتب ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں اسلام میں ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں اور ان کی انفرادی حیثیت کے ساتھ ان کی اجتماعی حیثیت پر بھی شریعت محمدی ؐ نے خاص زور دیا ہے۔الغرض زکواۃ یا دوسرے الفاظ میں غریبوں کی چارہ گری‘ مسکینوں کی دستگیری‘ مسافروں کی امداد‘ یتیموں کی خبر گیری‘ بیواؤں کی نصرت‘ غلاموں اور قیدیوں کی اعانت‘نماز کے بعد عبادت کا دوسرا رکن ہے اور اس فریضہ کی یہ سب سے پہلی اہمیت ہے جو مذاہب کی تاریخ میں نظر آتی ہے۔
جس طرح ابتدأ میں ہی اسلام کے آغاز کے ساتھ نماز کا حکم ہو گیا تھااور پھر وہ مدینہ آ کر رفتہ رفتہ تکمیل کو پہنچی,اسی طرح زکواۃ یعنی مالی خیرات کی ترغیب بھی ابتدائے اسلام سے ہی شروع ہوئی لیکن اس کا پورا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا۔پیغمبر اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام صرف دو لفظوں سے مرکب ہے۔ایک خدا کا حق اور دوسرا بھائیوں کا حق۔گویا پہلے لفظ کا,,مظہر اعظم نماز“ اور دوسرے کا,,زکواۃ“ ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کی آیات میں نماز اور زکواۃ کا حکم ہے‘اور زکواۃ کے بارے کہا گیا ہے کہ سونا اس قدر اور جانور اس قدر‘گویا اسی پہلو کا خیال رکھنا عدل و انصاف کیلئے ضروری ہے۔بھوکا سمجھتا ہے کہ اس کے لئے روٹی نہیں ہے جبکہ خلق کو فائدہ پہنچانا ہی تو زکواۃ کا ظاہری پہلو ہے۔یاد رہے کہ زکواۃ محض مادی اشیاء کی ہی نہیں ہوتی بلکہ علم کی بھی زکواۃ ہوتی ہے اور نفس کی بھی زکواۃ ہوتی ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ ہماری اجرت اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔تبلیغ کرنا کیا علم نہیں ہے‘کسی کے معاملات کو ظاہری اور باطنی لحاظ سے سنوارنے کیلئے زکواۃ کام کرتی ہے۔یہاں تک کہ گرمی میں پیاسے کو پانی پلانا بھی زکواۃ ہی ہے۔قرآن پاک میں علم کے بارے بہت تاکید کی گئی ہے‘ لہٰذا قرآن میں زکواۃ کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے گویا کہ زکواۃ کی ادائیگی ایک ادارے کی شکل میں ڈھل جائے یہ وجہ ہے کہ اس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کرتے ہوں‘نماز پڑھتے ہوں اور زکواۃ دیتے ہوں‘گویا ہم اپنی آیات علم والوں کیلئے تفصیل سے بیان فرماتے ہیں۔(سورۃ یونس ۵)۔اور علم والوں کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ حق کیا ہے اور خلق کیا ہے؟ زکواۃ حساب و کتاب کی ایک قسم ہے جو سمجھی پر واضع ہے۔دستور یہ ہے کہ ایسے دو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔یہ بھی یاد رہے کہ عقل کی زکواۃ علم‘ زبان کی زکواۃ ذکر اور دل کی زکواۃ عشق ہے۔انسان کو نفس کی زکواۃ بھی دینی پڑتی ہے۔نفس اس میں سے بعض معلومات عقل کو دیتا ہے۔ہر ایک پیغمبر نے تبلیغ کرتے یہ ہی کہا ہے کہ ہماری اجرت تو اللہ دیتا ہے۔
حضرت ابن عربی ؒ کہتے ہیں کہ ایک علم اجرت ادا کئے جانے کے قابل بھی ہے مگر یہ اجرت تمہیں دینی فرائض سے روکنے والی اجرت نہیں ہے اور نہ ہی یہ بے مروت مالک مکان کی طرح ادائیگی کے دن تمہیں دیوار سے لگاتی ہے۔کسی کے اخلاقی معاملات کو سنوارنے کیلئے بھی زکواۃ ذریعہ بنتی ہے۔اور کسی کیلئے اس کے معاشی معاشرے کی اخلاقی حالت بہتر کرنے والی ہے۔گرمی میں کسی پیاسے حیوان کو پانی پلانا بھی صدقہ ہے یعنی کہ ہر اچھا کام اور کلام بھی صدقہ ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہمیں زکواۃ کے بارے بتایا جا رہا ہے جبکہ عوام مسلسل تنگ آکر بغاوت پر آمادہ ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر زکواۃ اور صدقہ نہ رہے تو معاشرے میں امن نہیں رہتا‘اور جب پیٹ بھروں کو بھوکوں کا حال بھول جائے تو مملکت میں نہ امن رہتا ہے اور نہ ہی اتحاد۔رزق دینے والا اللہ ہے نادان نہ بنو اور حرص و لالچ کرتے ہوئے سب کچھ اپنے لئے ہی جمع نہ کر لو اور جو چیز تمہاری نہیں ہے تو اسے جمع کرنے کا تمہیں کیا فائدہ ہو گا؟اگر آسان الفاظ میں کہیں تو تقسیم کریں گے تو آباد رہیں گے‘ تقسیم ہو جائیں گے تو برباد ہو جائیں گے اور یہی ہمارے دین کے بزرگوں کا اصل فرمان ہے‘ گویا سادہ الفاظ میں زکواۃ کا بھی یہی معاملہ ہے۔
اگر قومی معاملات وزیر اعظم کے محافظوں نے ہی نمٹانے ہوں تو پھر وزیر اعظم کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ کسی کی حق تلفی کا بدل چکاتے چکاتے اگر حیات ہی ختم ہو جائے تو پھر سونے کے انبار بھی اس کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔,, قصور نہ بھی ہو‘مر بھی رہے ہوتو دل میں بس جاؤ“ یاد رہے کہ اگر کسی کی پانی جیسی پاک اور صاف اولاد ہو تو کیا وہ اس کو میلا اور گندہ ہونے دے گا۔؟یعنی زکواۃ اور صدقہ بھی آپ کی دولت کو پاک اور صاف کرتے ہیں لیکن اگر دولت کو بے جا اور غلط ذرائع سے حاصل کرکے اس کو جمع کرکے ضرورتمندوں کی پہنچ سے دور کر دیا جائے تو ایسی دولت اولاد اور کاروبار کیلئے وبال جان بن جاتی ہے۔
اگر دولت کو درست طریقہ سے حاصل کیا جائے اور صحیح طریقہ سے خرچ کیا جائے تو یہ نیکیوں اور بھلائیوں کا بہتر سے بہتر ذریعہ ہے۔اور اگر اس کے حصول و صرف کا طریقہ صحیح نہیں ہے تو وہ بری اور شر انگیز ہے۔اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے سب سے پہلے دولت کے ناجائز طریقوں دھوکا فریب‘خیانت‘ لوٹ مار اور جُوا و سود وغیرہ کی سخت سے سخت ممانعت کی۔آپ ﷺنے سرمایہ داری کے اصول کی حمایت نہیں کی اور اس کے سب سے آسان ترین ذریعہ اور غریبوں کے لوٹنے کے سب سے عام طریقہ,,سود“ کو حرام مطلق اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کے ہم معنی فرمایا۔
آپ نے فرمایا‘ کہ رشک کرنا صرف دو آدمیوں پر جائز ہے‘ ایک تو اس پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہے اور وہ اس کے مطابق شب و روز عمل کرتا ہے اور دوسرے اس پر جس کو خدا نے دولت دی ہے اور وہ اس کو دن رات خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور جو لوگ سونے اور چاندی کو زمین میں گاڑ کر رکھتے ہیں اور کار خیر میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دی گئی ہے۔
کسی نے حضرت شبلی ؒسے امتحاناً پوچھا کہ زکواۃ کتنے پر ہوتی ہے؟ فرمایا فقہا کے مسلک پر جواب چاہتے ہو یا فقراء کے۔ کہا کہ دونوں کے‘ فرمایا فقہا کے مذہب کے مطابق ایک سال گزرنے پر دو سو درہم میں سے پانچ درہم اور فقراء کے مسلک پر فوراً پورے کے پورے دو سو ‘اور اس نذرانہ کی خوشی میں اپنی جان بھی سر پر رکھ کرپیش کرنی چائیے۔فقہیہ نے کہا کہ ہم نے یہ مذہب آئمہ دین سے حاصل کیا ہے‘ فرمایا کہ ہم نے یہ مسلک حضرت صدیق اکبر ؓ سے حاصل کیا ہے۔
صدقہ و خیرات در حقیقت وہ پانی ہے جو دینے والے کے قلوب و نفوس کے تمام میل اور گندہ پن کو چھانٹ کر ان کو پاک و صاف بنا دیتا ہے۔لیکن وہ خود جب اس میل اور گندہ پن کو لے کرباہر نکلتا ہے تو حرص و طمع کے پیاسے اس کو چُلو میں لے کر پینے لگتے ہیں۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! یہ صدقہ تو لوگوں کا میل ہے اور اگر آج ان فقیروں اور گداگروں کی صورتوں اور سیرتوں پر نظر ڈالیں جو استحقاق شرعی کے بغیر اس مال سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو نظر آئے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لوگوں کے دلوں کو میل کہہ کر کتنی بڑی حقیقت کو آشکار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں