وطن نیوز انٹر نیشنل

توہن مذہب کے واقعات اور ہمارا رد عمل

دنیا میں جب بھی کوئی بد بخت اسلام کے خلاف بے بنیاد پروپاگنڈا کرتا ہے یا ختم المرسلین ﷺ ، صحابہ اکرامؓ، اہل بیت اطہارؓ اور اسلام کی دیگر عظیم شخصیات کے بارے میں گستاخانہ باتیں کی جاتی ہیں اور قرآن حکیم کی توہین کی جاتی ہے تو ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی دل آزادی اور تکلیف دہ امر اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ اسلام دشمن عناصر یہ سب جان بوجھ کر کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد اہل اسلام کے جذبات سے کھیلنا اور انہیں زچ کرتے ہوئے تعصب اور مذہبی منافرت کا نشانہ بنانا ہوتا ہے۔ وہ آزادی رائے کی آڑ میں ایسی مذموم حرکتیں کرکے شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ سویڈن میں بھی اسلام دشمن مٹھی بھرعناصر اس حوالے سے متحرک تھے۔ دنیا میں ہمیشہ شر پسند عناصر دوسروں کے مذہبی شعار اور عقیدت کو نشانہ بنا کر معاشرہ میں بے چینی اور بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ عناصر ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں اور ہر دور میں ان کا وجود رہا ہے۔ ایسے لوگ کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے لیکن یہ شیطان کے آلہ کار بن کر سر گرم رہتے ہیں۔ خدا کے ایسے دشمن اپنی زیر آلود زبانیں اور ابلیسی ہتھکنڈے خدا، اس کے رسولوں اور انسانیت کی ہدایت کے لئے آنے والی وحی کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں ہمیشہ رسوائی ملتی ہے۔ خدا اور رسولﷺ کے ان دشمن باز نہیں آتے۔ کبھی وہ توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں تو کبھی اہل بیت اور صحابہ کرام کے بارے میں زہر آلود زبان بولتے ہیں۔ یہ اسلام پر رکیک حملے کرتے ہیں اور یہاں تک کہ قرآن سوزی سے بھی باز نہیں آتے۔ شیطان کے یہ پیروکار اپنا کام کرتے رہتے ہیں. ایسے شر پسند عناصر اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے لیکن سوال یہ ہے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ خدا کے ان دشمنوں کی حرکتوں پر ہمارا رد عمل کیا ہونا چاہیے خصوصاََ جو مسلمان غیر مسلم ممالک میں مقیم ہیں، انہیں وہاں کیا کرنا چاہیے؟ خود قرآن حکیم ہمیں اس حوالے سے کیا تعلیم دیتا ہے۔ یہ وہ سوال ہیں جو ہر ایک ذہن میں آتا ہے۔ہمیں اپنے ایمان اور جذبات کا اظہار کیسے کرناچاہیے اور قرآن حکیم کی اس بارے میں کیا تعلیمات ہیں؟
جن ممالک میں مسلمان اکثریت سے رہ ہیں اور انہیں ریاست و حکومت میں غلبہ حاصل ہے ، وہاں ایسے معاملات کا فیصلہ وہاں کے عدالتی نظام اور حکومت کو کرنا چاہیے ۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے اور نہ ہی از خود وکیل، قاضی اور پولیس کا کام سنبھالنا چاہیے۔ وہاں کے عدالتی نظام اور ریاست کے قوانین کے اندر رہتے ہوئے اپنی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور انارکی جیسی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جن ممالک میں مسلمان اکثریت میں وہاں توہن مذہب کے واقعات بہت کم ہوتے اور اصل مسئلہ ان ممالک کا جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں خصوصا یورپی ممالک جہاں آزادی رائے کی آڑ میں اسلام دشمن ایسی کاروائیاں کرتے ہیں۔ یورپی ممالک میں چونکہ مذہب کو زندگی کے معاملات سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور اسے ایک ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، اس لئے مذہب پر تنقید کو یورپی معاشرہ آزادی رائے کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی مخالفت نہیں کرتا ۔ ان ممالک میں مذہب پر تنقید خلاف قانون نہیں بلکہ یہ قابل قبول ہے۔ یورپی ممالک کی مذہب سے بیزاری کی ایک وجہ طویل عرصہ تک کلیسا کی جانب سے بادشاہت کی پشت پناہی ہے جس نے یورپی اقوام کو جمہوریت اور حقوق انسانی سے محروم کئے رکھا۔ اسلام دشمن عناصر یورپی لوگوں کی اس نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے زہریلے نشر اسلام پر چلاتے ہیں ۔پاکستان میں بہت سے لوگوں کیا خیال ہے کہ توہن اسلام کے واقعات کے پیچھے عیسائی اور یہودی مذہبی لابی ہوتی ہے لیکن شائد ایسا نہیں ہے۔ خود حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں ایسی نازیبا اور گستاخانہ مواد منظر عام پر آتا ہے جو قابل بیان ہوتا ہے۔ آزادی رائے اور تحریر و تقریر پر پابندی نہ ہونا اور دوسرے مذاہب کی توہین دو مختلف باتیں ہیں۔ اسی حقیقت کو یورپی حقوق انسانی کی عدالت نے 2018 میں تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا آزادی رائے نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی اداروں میںبہت اچھے اور موثر انداز میں اس حوالے سے موقف کیا جو قابل ستائش ہے۔اگر تمام مسلمان ممالک اسی طرح کوشش کریں تو بہت اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ہمیں اس حوالے بہترین لائحہ عمل دیا ہے ۔ سورہ نساء کی آیت 140 میں ہے کہ ”اور بیشک اللہ نے تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرمایا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ انکار اور تمسخر کو چھوڑ کرکسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاو گے۔ بیشک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے“ ۔ ہمارا رد عمل اور جذبات کا اظہار قرآن کریم کے اسی حکم کے مطابق ہونا چاہیے اور جب کہیں اسلام یا قرآن حکیم کے بارے میں کوئی غلط گفتگو کرے یا کوئی اور طرز عمل اختیار کرے، ہمیں اپنے آپ کو اس سے الگ کر لینا ہی مہذہب احتجاج ہے۔ اسلام دشمن اپنی شیطانی حرکتیں اسی لئے کرتے ہیں تاکہ دوسروں تک ان کی بات پہنچے اس لئے ہمیں ان کا یہ ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ توہین آمیز واقعہ کی خبر، تصویر یا ویڈیو کو آگے نہیں پھیلانا چاہیے۔ ہمیں اس توہن آمیز مہم کو بالکل نظر انداز کردینا چاہیے اور یہ بہترین حکمت عملی ہے۔ ہماری اپنی زندگی میں اگر کوئی ہمارے والدین کے بارے میں نازیبا باتیں کہے تو ہم اسے مزید نشر نہیں کرتے اور نہ دوسروں کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسلام دشمن خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکتے جیسا کہ سورہ العنکبوت کی آیت 4 میں ہے کہ ”کیا جو لوگ برے کام کرتے ہیں یہ گمان کئے ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے قابو سے باہر نکل جائیں گے؟ کیا ہی برا ہے جو وہ (اپنے ذہنوں میں) فیصلہ کرتے ہیں“۔

Arif Kisana
Sweden
عارف محمود کسانہ۔ سویڈن

اپنا تبصرہ بھیجیں