وطن نیوز انٹر نیشنل

کراچی کی بہتری کے منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے اقدامات کا آغاز

کراچی میں گزشتہ مون سون کے دوران ہونے والی ریکارڈ بارشوں کے بعد وزیراعظم عمران خان نے شہر قائد کے لیے جس کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان کیا تھا ،اب اس پر سنجیدگی سے عملدرآمد کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

وفاقی اور سندھ حکومت کے ساتھ وفاق میں پی ٹی آئی کی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کے حوالے سے ایک پیج پر آگئے ہیں اور اب امید کی جا رہی ہے کہ ان منصوبوں پر تیزی کے ساتھ کام کیا جائے گا۔

منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے قائم کی گئی عملدرآمد کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ،وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر اور وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق کا مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ مل بیٹھ کر شہر کو دنیا کے خوبصورت اور رہائش پزیر شہروں میں سے ایک بنانے کیلئے منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ ہم سب کی کوشش ہے کہ ان منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر اور بروقت مکمل کیا جا سکے ۔ وفاقی وزیراسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم نے کراچی کی ترقی کے لیے سیاسی اختلاف پس پشت ڈال دیا ہے۔وفاقی وزیر امین الحق بھی پرعزم نظرآئے اور ان کا کہنا تھا کہ اب 11سو ارب کے منصوبوں پر کام ہوتا ہوا نظرآرہا ہے۔شہری حلقوں کی جانب سے وفاقی اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے سنجیدگی کو انتہائی ستائش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

ان حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی شہر کی ترقی سے ملک کی ترقی وابستہ ہے۔ماضی میں کراچی کے لیے مختلف حکومتوں کی جانب سے مختلف اعلانات تو کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔اس مرتبہ حالات مختلف نظرآرہے ہیں۔وزیراعظم کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی میں حکومت کے ساتھ سکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ منصوبوں کی تکمیل میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔

اس ضمن میں نالوں سے تجاوزات ہٹانے کے لیے جو حکمت عملی تیار کی گئی ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔شہر میں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ تجاوازت کے خلاف ایک بڑا آپریشن جاری ہے لیکن اس کے خلاف کوئی مزاحمت سامنے نہیں آرہی ہے کیونکہ حکومت نے این ای ڈی یونیورسٹی کے ذریعہ کراچی کے تین بڑے نالوں کا مطالعاتی سروے کروایا ہے اور کوشش کی ہے کہ کم سے کم مکانات اس آپریشن کی زد میں آئیں۔حکومت کے اس منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے اب لوگ ازخود بھی تجاوزات کا خاتمہ کر رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم نالوں سے سے صرف ضروری تجاوزات ہٹائیںگے اور کوشش کریںگے کہ لوگوں کے مکانات کم سے کم متاثر ہوں۔حکومتی اقدامات سے کراچی کے شہری پہلی مرتبہ پرامید نظرآرہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو شہر قائد کی قسمت بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

ملک میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین کے حصول کے حوالے سے معاملات اختلافات کا شکار نظرآرہے ہیں۔ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹرعذرا پیچوہو نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبہ سندھ کو کورونا ویکسین حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی بہت گنجان آباد علاقہ ہے اور ملک میں وائرس کا پھیلاؤ بھی سب سے زیادہ ہے لہذا ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ویکسینیشن مہم شروع کریں ۔

صوبائی وزیر صحت تعلمی ادارے کھولے جانے کی پالیسی سے بھی متفق نظر نہیں آتی ہیں ۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جب تک وائرس سے متاثر ہونے کی شرح 3 فیصد سے کم نہیں ہو جاتی تعلیمی ادارے نہیں کھولنے چاہئیں خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں تعلیمی اداروں کی بندش ضروری ہے۔ادھر وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کورونا ویکسین کی درآمد پر کوئی اجارہ داری نہیں رکھے گی اور صوبے اور نجی شعبہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان(ڈریپ) کی منظوری سے ویکسین درآمد کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے شہریوں کے لیے ویکسی نیشن مہم شروع بھی کردی ہے لیکن پاکستان اب تک اس کے حصول میں ناکام ہے۔

جب کورونا وائرس کے حوالے سے وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں مشاورت سے تمام فیصلے کر رہی ہیں تو ویکسین کے حصول کے حوالے سے بھی ایک متفقہ پالیسی بنانا ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کو سندھ کی وزیر صحت کے مطالبہ پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اور اگر میں اس کوئی قانونی قباحت نہیں ہے تو صوبوں کو از خود ویکسین کے حصول کی اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ تمام حکومتوں کی مطمع نظر عوام کی جانوں کا تحفظ ہے۔امید ہے کہ اس حوالے سے جلد ایک متفقہ فیصلہ سامنے آجائے گا۔

سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس کے حوالے سے سندھ حکومت نے اپنی حکمت عملی وضع کرلی ہے۔ ترجمان حکومت سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صوبائی حکومت عدالت عظمیٰ میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس پر سندھ حکومت کا جواب آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا۔ سندھ حکومت جواب میں موقف اپنائے گی کہ اوپن بیلٹ آئین کے منافی اور اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے کیونکہ آئین سینیٹ الیکشن سے متعلق واضح ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار میں تبدیلی کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس پر حتمی فیصلہ تو سپریم کورٹ ہی کرے گی تاہم سیاسی طور پر تحریک انصاف کا یہ فیصلہ اپنے ارکان پر عدم اعتماد کا مظہر نظر آرہا ہے۔اس معاملے پر سپریم کورٹ جانے کی بجائے بہتر تھا کہ تمام پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت کی جاتی اور اگر اتفاق رائے ہو جاتا تو سینیٹ الیکشن کے طریقہ کار کے حوالے سے پارلیمنٹ کے ذریعہ تبدیلی بھی کی جاسکتی تھی۔یہ افسوسناک امر ہے کہ جن ایشوز پر سیاسی جماعتوں کو خود فیصلہ کرنا چاہیے وہ یہ معاملات بھی عدالتوں میں لے جاتی ہیں۔

پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے مزدور سٹی پراجیکٹ کا افتتاح کردیا گیا ہے جبکہ بے نظیر مزدور کارڈز کا بھی اجراکردیا گیا ہے۔مزور سٹی پراجیکٹ کے تحت مزدوروں کو 1024فلیٹس مفت فراہم کیے جارہے ہیں۔بے نظیر مزدور کارڈ کے تحت 6لاکھ سے زائد محنت کشوں کو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور ان کو تعلیم ،صحت اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ سکھر میں مزدور سٹی پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر تے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کے 10 ہزار مزدروں سمیت پی آئی اے سمیت دیگر اداروں کے مزدوروں کو نکالا جا رہا ہے لیکن پیپلز پارٹی حکومتی اقدام کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہے۔

ہم مزدور بہن بھائیوں کے لیے پارلیمنٹ، عدالت اور کسی بھی فورم پر بات کرنے کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے ابھی سے آئندہ انتخابات کی تیاری شروع کردی ہے۔ پیپلز پارٹی ملک بھر میں قائم اس تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے کہ سندھ میں بیڈ گورننس ہے۔کراچی کے ترقیاتی منصوبوں اور اس کے بعد مزدروں کو رہائش فراہم کرنے جیسے اقدامات سے بلاول بھٹو زردار ی اور ان کی سندھ حکومت کا عوام میں اچھا تاثر جائے اور اس کے فوائد انہیں آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں حاصل ہوں گے۔

ادھر پاکستان اسٹیل مل سے ملازمین کی برطرفی پر بھی پیپلزپارٹی متحرک ہے اور سندھ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کافیصلہ کیا گیا ہے کہ اس قومی ادارے کو بچانے کے لیے تمام آپشنز استعمال کیے جائیں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان اور پی ٹی آئی کے مابین اگلی مردم شماری قبل ازوقت منعقد کرانے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے جبکہ مردم شماری کے معاملے پر پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی بھی سڑکوں پر آگئی ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادرآباد میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مردم شماری پر تحفظات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی گئی۔

اس حوالے سے سید امین الحق کی سربراہی میں کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ،جس کی سفارشات پر نئی مردم شماری کرائی جائے گی۔ عمرکوٹ میں سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 52 پر ضمنی الیکشن میں پیپلزپارٹی کے امیرعلی شاہ نے کامیابی حاصل کرلی۔گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کی طرف سے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور پیپلزپارٹی کے امیدوار امیر علی شاہ امیدوار تھے ۔ ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی کامیابی سے واضح ہوتا ہے کہ اندرون سندھ میں آج بھی پی پی عوام میں مقبول ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں