وطن نیوز انٹر نیشنل

جاوید منزل؛ جہاں علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری 13 سال گزارے

علامہ محمد اقبال نے اپنی زندگی کے آخری 13 سال خاندان اقبال منزل گڑھی شاہو میں گزارے، علامہ اقبال کی اس رہائش گاہ کو قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے جبکہ 1984 میں یہاں میوزیم قائم کیا گیا تھا۔

لاہورریلوے اسٹیشن کے قریب علامہ اقبال روڈ پر جاوید منزل واقع ہے، شاعر مشرق نے اپنی زندگی کے آخری 13 سال یہاں گزارے، جاوید منزل کے سینے میں حیات اقبال کے حوالے سے کئی راز پوشیدہ ہیں، اس گھر کی ایک ایک اینٹ اس شاعر بے مثال کی عظمت کی گواہ ہے، یہاں انھوں نے پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کی ۔ قائد اعظم اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی 1936 میں علامہ صاحب سے ملنے کے لیے یہاں تشریف لائے تھے۔

کوویڈ 19 کی وجہ سے یہ میوزیم سیاحوں کے لئے بند ہے تاہم مقامی شہریوں کا کہنا ہے آج ہمیں علامہ اقبال کے افکارپرعمل پیراہونے کی ضرورت ہے جس خودی کا اقبال نے درس دیاتھا اس پرعمل کرتے ہوئے مسلمان دنیاکی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔

ایک شہری امجدجاوید نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میوزیم میں جیسے ہی داخل ہوتے ہیں توحضرت علامہ اقبال کے استعمال کی تمام چیزیں اسی حالت میں پڑی نظرآتی ہیں جیسے وہ چھوڑکرگئے تھے، بس وہ خود نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں آج بھی اس جاویدمنزل کی درودیوارسے وابستہ ہیں۔

سیکرٹری آرکیالوجی احسان بھٹہ نے بتایا کہ جاوید منزل کو 26 ستمبر 1984 کو علامہ اقبال میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا،جس طرح سیالکوٹ میں علامہ اقبال کی رہائش گاہ والی عمارت اور بادشاہی مسجد کے قریب ان کا مزار قومی ورثے میں شامل ہیں اسی طرح علامہ اقبال میوزیم کو بھی قومی ورثے کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میوزیم میں علامہ محمداقبال کے ذاتی استعمال میں رہنے والاسامان ،کپڑے، خطوط، جائے نماز،ان کے والدین اوربیگمات کی تصویریں اورتعلیمی اسناد،خطوط سمیت کئی نوادرات محفوظ ہیں۔یہاں آڈیٹوریم قائم کیاگیا ہے جہاں مختلف تہواروں پرسیمیناراورتقریبات ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہے اسے ہم نے آنیوالی نسلوں کے لئے محفوظ کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ان قومی ہیروز بارے جان سکیں جن کی جدوجہد اورکوششوں سے آج ہم ایک آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں۔ علامہ اقبال وہ ہستی ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان ہند کو جگایا اور ایک الگ وطن کا خواب دیکھا جسے بانی پاکستانی قائداعظم نے شرمندہ تعبیر کیا۔

علامہ محمداقبال کی وفات جس کمرے میں ہوئی وہاں لگے گھڑیال کی سوئیاں آج بھی صبح کے چار بج کر 3 منٹ پر رکی ہوئی ہے جبکہ یہاں موجود کلینڈر پر آخری تاریخ 21 اپریل 1938 کی ہے جسے اگلے دن تبدیل ہی نہیں کیا جاسکا تھا، یہاں وہ بستر بھی محفوظ ہے جس پر شاعرمشرق نے آخری سانسیں لیں اور پھر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں