وطن نیوز انٹر نیشنل

گریٹ سموگ آف لاہور

پاکستان دنیا بھر میں صرف ایک فیصدکاربن کے اخراج کا ذمہ دار ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں آنے والے اہم ممالک میں سرفہرست ہے۔یہی وجہ ہے کہ سموگ کو پاکستان کا پانچواں موسم قرار دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں لاہور شہر سب سے زیادہ سموگ کی لپیٹ میں آتا ہے۔پاکستان میں سالانہ تقریباًایک لاکھ28ہزار افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ صورتحال 1952ء کے دوران لندن میں بھی سامنے آئی لیکن انہوں نے اپنی بہتر منصوبہ بندی کی وجہ سے جلد ہی اس پر قابو پا لیا۔1952ء کی ایک صبح لندن شہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوبا ہوا تھا۔پتہ چلا کہ یہ دھند ایک عذاب ہے ۔یہ گاڑھا سیاہ دھواں چار ہزار لوگوں کی جان لے گیا۔ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے، لندن کی سماجی زندگی رک گئی۔یہ عذاب پانچ دن جاری رہا۔
نو دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضا آہستہ آہستہ دھلنا شروع ہوئی تو اہل لندن کی اس آفت سے جان چھوٹی لیکن اموات کا سلسلہ جاری رہا۔ دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے، آشوب چشم،ٹی بی اور نروس بریک ڈاؤن کا شکار تھے، ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات کا آغاز کیا تو پتہ چلا کہ 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزاروں ٹن سموک پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے۔ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ،14 ٹن فلورین کمپاؤنڈ اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی۔ یہ تمام مادے صحت کیلئے انتہائی مضر ہوتے ہیں ،ماہرین نے سوچنا شروع کیا کہ ”یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے ‘‘ ۔پتہ چلا یہ ساڑھے سات سو سال کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔یہ سلسلہ 1200ء میں شروع ہوا تھا، ساڑھے سات سو برسوں میں لندن کی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہوا۔ جنگل کٹ گئے، ندیاں اور جھیلیں ختم ہو گئیں، دیہات ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بدل گئے۔ صنعتی انقلاب آیا، شہروں میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں۔ بجلی ایجاد ہوئی، کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگ گئے،ٹرین سروس شروع ہوئی، ٹرام آئی، گاڑیاں آئیں، تعمیرات شروع ہوئیں، دوسری جنگ عظیم نے بھی دھواں اڑایا اور آخر میں لوگ بھی آلودگی پھیلانے لگے چنانچہ لندن کی فضا آلودہ ہوتی چلی گئی۔
ہوا میں آکسیجن کی کمی کا یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952ء تک پہنچ گیا۔ جیسے ہی سردی شروع ہوئی لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایاجس کی وجہ سے لاکھوں ٹن دھواںپیدا ہوا۔ یہ دھواں ساڑھے سات سو سال کی آلودگیوں میں ”مکس اپ‘‘ ہوا۔ دسمبر کی دھند میں ملا اور گہری سیاہ گیس میں تبدیل ہو گیا ۔ یہ گیس پانچ دن شہر کے اندر گھومتی پھرتی رہی۔ ماہرین نے اس دھند کو سموک اور فوگ دو لفظ ملا کر ”سموگ‘‘ کا نام دے دیا اور لندن کے اس ”سانحہ کو گریٹ سموگ آف لندن‘‘ قرار دیا گیا۔
ماحولیات کے ماہرین نے سموگ کی تشخیص کر لی تھی اور اب علاج کی باری تھی۔ علاج کی ذمہ داری کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی سر گیرالڈ ڈیوڈ نے لی۔وہ بزنس مین تھے اور1950ء میںوہ سیاست میں آ ئے۔ وہ ماہرین کے ساتھ مل کر چار سال منصوبہ بندی کرتے رہے ۔ 1956ء میںانہوں نے ”کلین ائیر ایکٹ‘‘ بنا لیا۔یہ ایکٹ ہاؤس آف کامنز میں پیش ہوا اور ایوان نے 5 جولائی 1956ء کو اس کی منظوری دے دی۔ یہ ایکٹ چھ بنیادی اصلاحات پر مشتمل تھا۔حکومت نے شہر کے اندر کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی۔ عوام کو ”فائر پلیس‘‘ کیلئے متبادل ذرائع فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا، حکومت نے ایک سال میں یہ ذرائع فراہم کر بھی دیئے۔ ماڈرن ہیٹنگ سسٹم اسی ایکٹ کی پیداوار تھا۔ سردیوں میں بجلی بھی سستی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ لوگ بجلی کے ذریعے گھر گرم کریں۔ حکومت نے شہر کے اندر فیکٹریاں بھی بند کروادیں۔ مالکان کو شہر سے دور مفت جگہ بھی فراہم کی گئی، ٹیکس میں گنجائش دی اور فیکٹریاں شفٹ کرنے کیلئے قرضے بھی دیئے گئے۔بجلی کے تمام پلانٹس دو برسوں میں لندن سے دور جنگلوں میں منتقل کر دیئے گئے۔لندن اور لندن کے اطراف میں درخت کاٹنا، زرعی زمینوں کے سٹیٹس میں تبدیلی اور گرین ایریاز کے خاتمے پر پابندی لگا دی گئی۔ ملکہ تک کو درخت کاٹنے سے قبل تحریری اجازت کا پابند بنا دیا گیا۔پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے، پرائیویٹ گاڑیوں کی حوصلہ شکنی اور پٹرول کے معیار کو بلند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہاؤس آف کامنز نے ان اصلاحات کی منظوری دی اور حکومت نے کام شروع کیا۔ ایکٹ کی منظوری کے صرف چار سال بعد 1960ء میں لندن کی فضا مکمل طور پر ”سموگ فری‘‘ ہو گئی۔ یہ ایکٹ اس قدر مکمل اور سخت تھا کہ سرگیرالڈ ڈیوڈ کو خود اس کا نقصان اٹھانا پڑا،ان کی اپنی فیکٹریاں بھی لندن سے باہر منتقل ہوئیں۔
ہم اب ”گریٹ سموگ آف لندن‘‘ سے ”گریٹ سموگ آف لاہور‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ پنجاب پچھلے تین برسوں سے شدید سموگ کا شکار چلا آ رہا ہے۔ نومبر کے مہینے میں لاہور، بہاولنگر، پاکپتن، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ زہریلی دھند میں گم ہو جاتے ہیں۔پنجاب اس بار بھی سموگ کا شکار ہو گا۔ ہماری فضا میں اگر 80 مائیکرو گرام زہریلے مادے ہوں تو ہمارے پھیپھڑے انہیں برداشت کر جاتے ہیں لیکن لاہور اور اس کے مضافات میں اس وقت آلودگی کی شرح 150مائیکرو گرام کیوبک میٹر سے بھی زیادہ ہے۔ ہم اگر فضا کا ٹیسٹ کریں تو ہمیں اس میں کاربن مانو آکسائیڈ،سلفر اور نائیٹروجن کی بھاری مقدار ملے گی۔ یہ تمام مادے زہر ہیں، لاہور کی فضا میں آکسیجن کی بھی شدید کمی ہے۔
یہ فضا کتنی مضر صحت ہے آپ اس کا اندازہ سگریٹ سے لگا لیجئے۔ ہم اگر روزانہ 50 سگریٹ پئیں تو ہمارے پھیپھڑوں کو اتنا نقصان ہو گا جتنا لاہور کی فضا میں ایک دن سانس لینے سے ہو رہا ہے۔گزشتہ سال لاہور میں چار لاکھ سے بھی زیادہ لوگ متاثر ہوئے ۔
یہ سموگ کہاں سے آ رہی ہے؟یہ سوال بہت اہم ہے،اس کے چار بڑے ذرائع ہیں، پہلا سورس بھارتی پنجاب کا شہر ہریانہ ہے۔ ہریانہ میں دس سال میں چاول کی فصل میں آٹھ گنا اضافہ ہوا۔ ہریانہ کے کسان ا کتوبر کے آخر میں چاول کے پودے کے خشک ڈنڈل اور خالی سٹے جلاتے ہیں۔ بھارتی کسانوں نے گزشتہ سال 3 کروڑ 50 لاکھ ٹن ڈنڈل جلائے۔ ڈنڈلوں کے دھوئیں نے دہلی سے لے کر لاہور تک پورے پنجاب کی مت مار دی۔ دوسرا، لاہور کی فیکٹریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تیسرا حکومت نے لاہور کے گردونواح میں درجنوںبڑے پاور پلانٹس لگائے ہوئے ہیں۔ چوتھا سورس گاڑیاں ہیں،لاہور شہر میں دس لاکھ سے زائد گاڑیاں ہیں۔ آپ لاہور کے گرد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجئے ،آپ سر پیٹ کر رہ جائیں گے۔ چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر فضائی آلودگی کی وجوہات تلاش کی جائیں، لاہور اور اس کے گردونواح میں شجرکاری کی جائے،فیکٹریاں باہر شفٹ کرائی جائیں، گاڑیوں کی تعداد کنٹرول کریں، پٹرول کا معیار بہتر بنائیں اور درخت کاٹنے کی سزا متعین کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں