وطن نیوز انٹر نیشنل

ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کی وساطت سے فری لانس جرنلسٹ لوئیس جینسن Louise Jensenاور چیئرمین ٹومی ہائگ مارک (Tommy Haggmark (voice chairman کا ڈنمارک میں پاکستان کے نئے سفیرعزت مآ ب احمد فاروق سے انٹرویو

حال ہی میں ڈنمارک میں پاکستان کے نئے سفیر عزت مآب احمد فاروق کی حکومت پاکستان کی طرف سے تعیناتی کے بعد‘ ڈنمارک میں ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کے چیف آرگنائزر طارق سندھو نے سفیر محترم کے اعزاز میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا۔ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کے آرگنائزر مسٹر طارق سندھو اور Mr Thomas Lehmannڈائریکٹر منسٹری آف فارن آفیئرز ڈنمارک نے سفیر پاکستان عزت مآب احمد فاروق کو اجلاس میں خوش آمدید کہا۔ جناب سفیر احمد فاروق نے بزنس کونسل کے ممبران اور ڈینش چیمبر آف کامرس کے نمائندے Mr Jesper Juul Jensen سے ملاقات کی۔اس میٹنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا جرنلسٹ فری لانس Louise Jensen اور چیئرمین ٹومی ہائگ مارک (Tommy Haggmark (voice chairman نے سفیر پاکستان کا انٹرویو کیا‘جو کہ سوال و جواب کی شکل میں وطن نیوز انٹرنیشنل کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا ریا ہے۔
Q۔۔پاکستان میں 1917ء کے اعدادو شمار کے حوالے سے اور آج جبکہ Covid.19کی وبا ء جو دنیا کے وسیع و عریض علاقوں تک پھیل چکی ہے‘اگر اس کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بھی بیکاری بہت حد تک پھیل چکی ہے تو کیا پاکستان میں ڈنمارک اور دیگر سکنڈے نیویا ممالک کی طرف سرمایہ کاری کے امکانات بڑھ نہیں گئے ہیں؟
A۔۔۔سفیر پاکستان نے کہا کہ یہ ایک اچھا سوال ہے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ Covid.19دنیا کے ہر ملک میں اثر انداز ہوا ہے‘ لہٰذا پاکستان میں ہم نے اس وباء کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ہماری GDPاور بزنس کو کافی دھچکا لگا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی بیکاری میں

کافی اضافہ ہوا ہے۔اس لئے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ہماری بہت سی ایسی کمپنیاں ہیں جن میں بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے یعنی ریٹیل سیکٹر اور دستکاری کے شعبے ہمارے ہاں ایکسپورٹ میں ترقی کرنے والے زون ہیں۔ایسے کاروبار میں بیرونی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ پاکستان ان دنوں بہت سے تعمیراتی منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔اور چین اور پاکستان اکنامک کوریڈور جیسے بڑے منصوبے بھی زیر تعمیر ہیں۔اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں برآمدات کیلئے بہت سے زون موجود ہیں۔ایک بڑا ٹریڈ کا شعبہ ہے‘جہاں پر برآمدات میں کافی ترقی ہوئی ہے۔اور اس کی طرف گزشتہ پانچ سال سے رجحان کچھ زیادہ ہی بڑا ہے۔اس کے علاوہ صنعتکاری اور مینو فیکچرنگ میں باہمی تعاون کو بڑھانے سے کافی فائدہ ہوا ہے۔جیسا کہ مثال کے طور پر ڈنمارک کی مشہور کمپنی SELECTپاکستان میں تیار کردہ کھیلوں (سپورٹس)کا سامان تیار کراتی ہے۔اسی طرح پاکستانی کمپنی R&Dکی طرف سے بھی بہت سی اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں مزید بہت سے مواقع موجود ہیں جہاں پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔
Q۔۔آپ نے بطور ڈائریکٹر Antiterrorismجو تجربہ حاصل کیا ہے‘اسے آپ کیسے استعمال میں لائے؟
A۔۔یہ ایک کام کرنے کا خصوصی شعبہ تھا ضہاں میں نے ایک عرصہ تک کام کیا ہے۔میں اس پر بھی غور کیا تھا کہ ایک عشرہ پہلے پاکستان کے حالات کیسے تھے؟ جب پاکستان میں دہشتگردی عروج پر تھی اور ہماری سیکورٹی کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے۔لیکن کچھ عرصہ بعد اور حکومت پاکستان کی بہتر سوج بوجھ اور سیکورٹی فورسز (افواج پاکستان) کی لا تعداد قربانیوں کے بعد ہم اس ملک دشمن سرگرمیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔اور اب پاکستان میں دہشتگردی کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ہے۔اس لئے اب ہر ملک کو پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے اور بطور سیاح سفر کرنے میں کوئی قباعت نہیں ہے۔اب پاکستان مختلف قسم کے ٹورزم کی پیش کش کر رہا ہے‘مثلاً کلچرل ٹورزم‘ ایڈونچر ٹورزم اور مذہبی ٹورزم وغیرہ۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو سیاحوں کو پاکستان کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب و تمدن کے بارے معلومات فراہم کرتا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کو دیکھنے کیلئے ہمارے ہاں ہر قسم کی خوبصورتی اور دلکش نظارے موجود ہیں۔پاکستان میں دنیا بھر سے لاتعداد ٹورسٹس کو خوش آمدید کہنے کیلئے ہمارے ہاں وسائل اور انفراسٹرکچر موجود ہے۔یہاں پر خوبصورت قطعہ زمین اور اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے اور مہم جوئی کیلئے سہلولتیں موجود ہیں۔میں ڈنمارک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے یہاں پر اپنے ڈینش دوستوں سے درخواست کرونگا کہ پاکستان میں قدرتی نظاروں کا مشاہدہ کرنے کیلئے ایک بار ضرور تشریف لائیں۔میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کاروبار اور سیاحت کے حوالے سے ایک بہترین ملک ہے۔

Q۔۔ڈینش پاکستانی بزنس کونسل کا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی ایشاء میں پاکستان میں زیادہ لبرل انویسٹمنٹ پالیسیاں موجود ہیں؟
A۔۔جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ پاکستان ایک لبرل کاروباری ریاست ہے اور جو بھی بزنس پرسن (سرمایہ دار) پاکستان میں سرمایہ کاری کا خیال رکھتا ہے‘اسے اپنا منافع ملک سے واپس لے جانے کی اجازت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ جب چاہے اپنا سرمایہ حاصل کر سکتا ہے۔اور جو کوئی یہاں پر بزنس کرے گا اسے ڈیوٹی پر خصوصی رعایت ہو گی۔اور یہاں ایکسپورٹ کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ آفس سے رابطہ کریں تو فوراً اجازت نامہ اور دیگر سہولتیں حاصل ہو جائیں گی۔اس لئے ڈینش بزنس کیلئے یہ ایک اچھا وقت ہے کہ پاکستان کے ساتھ کاروباری مراسم قائم کئے جائیں۔
Q۔۔انویسٹمنٹ بورڈ کے ساتھ کام کرنے والے کونسلر کو چائیے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کے ساتھ ٹریڈ کی سہولتوں کے بارے بتائے‘کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کو پاکستان میں گائیڈ کرے۔ان کاروباری اور انٹرنیشنل تجربہ بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے پاکستانی مارکیٹ میں اہمیت کا حامل ہے۔کیا آپ کے ذہن میں کسی آنریری کونسلر کا انتخاب کرنے کا کوئی آئیڈیا موجود ہے؟
A۔۔میرا خیال ہے کہ جب میں اپنے فرائض سنبھالوں گا تو اس مسئلہ پر سوچا جا سکتا ہے لیکن اس وقت تک ہمارے پاس کوئی بھی آنریری کونسلر موجود نہیں ہے۔میں کسی ایسے شخص کا انتخاب کرنا ہو گا جس میں اس کام کو بجا لانے کی قابلیت بھی موجود ہو۔میں اس بات پر ضرور غور کروں گا اور پھر اپنی تجاویز اس آسامی کیلئے اپنی حکومت کو ارسال کرونگا۔کہ کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو بطور آنریری کونسلر خدمات انجام دے سکے۔کونسلر کی تعیناتی میرے لئے فائدہ مند ہو گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ ایک چھوٹی سی ایمبیسی ہے لیکن ہم کسی ایسے شخص کی تلاش کریں گے جس کا تعلق ڈنمارک میں بزنس کمیونٹی کے ساتھ ہو اور وہ بطور کونسلر کام سر انجام دے سکتا ہو۔اور وہ ہمارے لئے ایک اثاثہ بنے۔
ڈنمارک میں میرے فرائض سنبھالنے کے بعد میری پہلی ترجیح یہ ہے کہ ایکسپورٹ کو ترقی دی جائے۔آج میں نے ڈینش چیمبر ز آف کامرس سے ملاقات کی ہے۔یہ ایک ظاہر بات ہے کہ تجارت اور ٹریڈ کسی ملک کیلئے بریڈ اور مکھن کا درجہ رکھتی ہے۔لیکن اس کے علاوہ سیاحت بھی پیسہ کمانے کیلئے ایک اہم ذریعہ ہے‘اس لئے ہم ڈنمارک میں ٹور اپریٹرز کے ساتھ رابطہ کرنے کی بھی کوشش میں مصروف ہیں اور جن کی ایک لسٹ ہمیں ڈینش وزارت خارجہ سے موصول ہو چکی ہے۔ہم نے ایک,واٹس اپ گروپ‘ بھی تسکیل دیا ہے جو پاکستان میں ٹورزم کو پروموٹ کریگا۔اس فیلڈ پر ہم پہلے سے ہی کام شروع کر چکے ہوئے ہیں‘ہماری اکانومی بھی بہتر ہو رہی ہے اور ہم پر عائد شدہ پابندیاں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ہم عنقریب ایک سیمنار کا بندوبست کر رہے ہیں‘جس میں ہم تمام ٹور اپریٹرز کو مدعو کریں گے جن سے پاکستان کیلئے ٹورزم میں مدد حاصل کی جائے گی۔یہ کام پہلے سے ہی شروع ہو چکا ہے لیکن ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر پھیلی ہوئی,,کرونا“ کی وباء کی وجہ سے 2020ء میں اس پر مکمل توجہ نہیں دی جا سکی۔یہ بھی کہتا چلوں کہ پاکستان میں مختلف علاقوں میں موسمی درجہ حرارت مختلف ہوتا ہے اس لئے پاکستان کیلئے سال میں تمام موسموں میں سفر کیا جا سکتا ہے۔میرے سابقہ تجربہ اور پروفیشن کی وجہ سے میں یہ پیعام دینے کیلئے خود کو اہل سمجھتا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں