وطن نیوز انٹر نیشنل

فن لینڈ شام میں محصور ’بچوں کے حقوق کی پامالی کا مرتکب‘

اقوام متحدہ کی کمیٹی کے مطابق فن لینڈ ذمہ داری کے باوجود مشتبہ جہادیوں کے شامی کیمپوں میں محصور بچے واپس نہیں لارہا۔ عالمی ادارے کے مطابق شام کے الہول کیمپ میں صرف اٹھارہ ماہ میں ایک سو سے زائد لوگ قتل ہوئے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق ایک نگران ادارے نے کہا ہے کہ فن لینڈ نے مشتبہ جہادیوں کے اہل خانہ کے لیے شامی کیمپوں میں برسوں تک جان لیوا حالات میں رہنے والے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی کمیٹی نےبدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فن لینڈ کی یہ ذمہ داری اوراختیار ہے کہ وہ شامی کیمپوں میں موجود اپنے شہریوں کے بچوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات سے بچا کر ان کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کرے۔
ان شامی کیمپوں میں پھنسے فرانسیسی بچوں کے بارے میںفرانس کی ذمہ داری سے متعلق ایک سابقہ فیصلےکی بازگشت سنائی دینے والے اس کمیٹی کے نتائج میں کہا گیا ہے، ”جان لیوا حالات میں متاثرہ بچوں کو طویل عرصے تک حراست میں رکھنا غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک یا سزا کے مترادف ہے۔‘‘
شام کے مختلف کیمپوں میں دہشتگرد تنظیم داعش کے مشتبہ دہشتگردوں کے ہزاروں بچے نامساعد حالات میں رہنے پر مجبور ہیں:اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کے 18 آزاد ماہرین کو بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ ان ماہرین نے شام کے شمال مشرق میں قائم الہول کیمپ میں مقیم فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے چھ بچوں کی جانب سے دائر مقدمے پر غور کے بعد یہ نتائج جاری کیے۔ ان کے رشتہ داروں نے 2019 ء میں اس معاملے کو کمیٹی کے سامنے لایا تھا۔ اس کےبعد سے تین بچے اپنی والدہ کے ساتھ کیمپ چھوڑنے میں کامیاب ہونے کے بعد آخر کار فن لینڈ واپس آ چکے ہیں ۔
اسلامک اسٹيٹ کے جرمن جہادی والدين کے بچوں کی جرمنی آمد..
کمیٹی کا کہنا تھا کہ بقیہ تین بچوں کی عمریں اس وقت پانچ سے چھ سال کے درمیان ہیں اور وہ اب بھی جنگی صورتحال والے علاقے میں قائم کیمپوں میں قید ہیں۔ ان بچوں کے رشتہ داروں کی جانب سے دائر درخواست میں فن لینڈ کے 33 دیگر بچوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جنہیں کیمپ میں قانونی امداد تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
البانیہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جو شامی کیمپوں میں محصوراپنے شہریوں کے بچوں کو وطن واپس لے گئےتصویر:
الہول میں چھپن ہزار لوگ موجود ہیں اور یہ اس خطے کے متعدد کیمپوں میں سے سب سے بڑا کیمپ ہے ۔ اس کیمپ میں خواتین اور بچوں سمیت مشتبہ جہادیوں کے رشتہ دار مقیم ہیں۔ ان پناہ گزینوں میں زیادہ تر شامی یا عراقی ہیں، لیکن ایک اندازے کے مطابق 10ہزار کا تعلق دنیا کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دولت اسلامیہ یا داعش کے جنگجوؤں کی بیویاں اور بچے ہیں۔ ان میں ے بہت سے اب بھی انتہائی بنیاد پرست سمجھے جاتے ہیں۔
ڈنمارک کے جہادیوں کے بیرون ملک پیدا ہونے والے بچے، ڈینش نہیں..
کہا گیا ہے کہ مغربی ممالک سے بارہا اپنے شہریوں کو وطن واپس لے جانے کے مطالبات کیے گئے ہیں، تاہم ان ملکوں کی جانب سے ان مطالبات پر دھیان نہیں دیا جا رہا۔ کمیٹی کی ایک رکن این اسکیلٹن نے خبردار کیا کہ کیمپوں میں بچوں کی صورت حال کو بڑے پیمانے پر غیر انسانی قرار دیا گیا ہے، پانی، خوراک اور صحت کی دیکھ بھال سمیت بنیادی ضروریات کا فقدان ہے، اور انہیں موت کے خطرے کا سامنا ہے۔
شام کے الہول کیمپ میں مشتبہ جہادیوں کے 50 ہزار سے زائد اہل خانہ مقیم ہیں..
بچوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن نے گزشتہ سال ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ الہول میں مایوس کن حالات کی وجہ سے اوسطاﹰ ہر ہفتے دو بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے صرف 18 ماہ میں کیمپ میں 100 سے زائد لوگوں کے قتل کی اطلاع دی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کی رائے اور سفارشات پر عملدرآمد لازمی نہیں ہے۔ کمیٹی کے مطابق فن لینڈ نے بچوں کی واپسی کے لیے ان کے رشتہ داروں کی درخواستوں کا جائزہ لیتے وقت بچوں کے بہترین مفادات کو مناسب توجہ نہیں دی۔ اسکیلٹن نے کہا کہ ہم فن لینڈ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان بچوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے اور انہیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرے۔


ش ر ⁄ ع ط (اے ایف پی)

اپنا تبصرہ بھیجیں