وطن نیوز انٹر نیشنل

جرمنی میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں اضافہ

جرمنی میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں اضافہ
جرمن وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں دس فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جبری جسم فروشی نابالغوں اور بالغوں دونوں کےحوالے سے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
جرائم کی تحقیقات کے وفاقی جرمن ادارے (بی کے اے) کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2021ء میں ملک بھر میں پولیس اور کسٹم حکام نے انسانی اسمگلنگ کے تقریباﹰ 510 واقعات پر کارروائی کی۔ یہ اعدادوشمار گزشتہ برس انسانی اسمگلنگ کے واقعات کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہیں۔
جرمنی: افغان باشندوں کی درختوں کے تنوں سے بھرے ٹرک میں اسمگلنگ
بی کے اے نے کہا کہ اسمگلنگ کے دوران بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اور بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ کم از کم 237 بچے متاثر ہوئے جو 2020 ءکے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ ہیں۔ اس نوعیت کے جرائم کی اقسام میں جنسی استحصال کے دوران بچوں کی تصاویر لینے کے علاوہ جبری جسم فروشی بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں متاثرہ بچوں کی اوسط عمر 15 سال اور مجرموں کی اوسط عمر 37 سال تھی۔
بی کے اے کے مطابق جنسی استحصال سے متاثرہ بچوں کی اوسط عمر 15 سال اور مجرموں کی اوسط عمر 37 سال تھی…
جبری جسم فروشی ایک بڑا مسئلہ..
اس وفاقی جرمن ادارے نے خبردار کیا کہ جبری جسم فروشی نابالغوں اور بالغوں دونوں کے حوالے سے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں مجرموں کی طرف سے استعمال ہونے والے سب سے عام طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی عمر رسیدہ شخص کسی نوجوان لڑکی کو بہلاتا پھسلاتا ہے اور یہ لڑکی اس عمل کو ایک رومانوی تعلق سمجھتی ہے اور پھر بعد میں یہ شخص اس لڑکی کے ساتھ جذباتی بدسلوکی کر کہ اس سے جسم فروشی کرواتا ہے اور پھر اس کا مالی استحصال کرتا ہے۔
جنسی خدمات خریدنے پر پابندی مؤثر؟ سیکس ورکرز کا جواب: ’نہی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری جسم فروشی کے حوالے سے 417 متاثرین میں سے 93 فیصد خواتین تھیں۔ زیادہ تر متاثرین اور مجرم جرمن تھے، لیکن ان میں بلغاریہ، رومانیہ اور چین جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن بھی شامل تھے۔ اس جرم کا ہر تیسرا شکار 21 سال سے کم عمر تھا..
جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ استحصال کا شکار ہونے والے افراد مجرموں کے ڈر سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ساتھ تعاون سے گھبراتے ہیںتصویر: Martin Schutt/dpa/picture alliance
پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ پولیس کے مطابق چھاپہ مارنے کے بعد بھی متاثرہ افراد مختلف وجوہات کی بناء پر پولیس افسران کو یہ بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اسمگل کیا گیا تھا۔ اکثر متاثرین کو انتقامی کارروائی یا اپنے خلاف مجرمانہ الزامات کے تحت قانونی چارہ جوئی کا خوف بھی ہوتا ہے۔
رپورٹ میں جرمنی میں مزدوروں کے استحصال کے بارے میں بھی تفصیلات دی گئی ہے۔ جدید غلامی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ بزرگوں یا دائمی طور پر بیمار افراد کے لیے گھر میں دیکھ بحال کرنے والے ملازمین کا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی کام، بار اور ریستوراں کے علاوہ گھر اور دفاتر میں صفائی کا کام کرنے والوں کو بھی اسمگلنگ کرنے کے واقعات سامنے آئے۔
ش ر⁄ ع ا ( ڈی پی اے، ای پی ڈی)
جرمن وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں دس فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جبری جسم فروشی نابالغوں اور بالغوں دونوں کےحوالے سے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
جرائم کی تحقیقات کے وفاقی جرمن ادارے (بی کے اے) کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2021ء میں ملک بھر میں پولیس اور کسٹم حکام نے انسانی اسمگلنگ کے تقریباﹰ 510 واقعات پر کارروائی کی۔ یہ اعدادوشمار گزشتہ برس انسانی اسمگلنگ کے واقعات کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہیں..
جرمنی: افغان باشندوں کی درختوں کے تنوں سے بھرے ٹرک میں اسمگلنگ
بی کے اے نے کہا کہ اسمگلنگ کے دوران بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں اور بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ کم از کم 237 بچے متاثر ہوئے جو 2020 ءکے مقابلے میں 23 فیصد زیادہ ہیں۔ اس نوعیت کے جرائم کی اقسام میں جنسی استحصال کے دوران بچوں کی تصاویر لینے کے علاوہ جبری جسم فروشی بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں متاثرہ بچوں کی اوسط عمر 15 سال اور مجرموں کی اوسط عمر 37 سال تھی۔
بی کے اے کے مطابق جنسی استحصال سے متاثرہ بچوں کی اوسط عمر 15 سال اور مجرموں کی اوسط عمر 37 سال تھی..
جبری جسم فروشی ایک بڑا مسئلہ..
اس وفاقی جرمن ادارے نے خبردار کیا کہ جبری جسم فروشی نابالغوں اور بالغوں دونوں کے حوالے سے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں مجرموں کی طرف سے استعمال ہونے والے سب سے عام طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی عمر رسیدہ شخص کسی نوجوان لڑکی کو بہلاتا پھسلاتا ہے اور یہ لڑکی اس عمل کو ایک رومانوی تعلق سمجھتی ہے اور پھر بعد میں یہ شخص اس لڑکی کے ساتھ جذباتی بدسلوکی کر کہ اس سے جسم فروشی کرواتا ہے اور پھر اس کا مالی استحصال کرتا ہے۔
جنسی خدمات خریدنے پر پابندی مؤثر؟ سیکس ورکرز کا جواب: ’نہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری جسم فروشی کے حوالے سے 417 متاثرین میں سے 93 فیصد خواتین تھیں۔ زیادہ تر متاثرین اور مجرم جرمن تھے، لیکن ان میں بلغاریہ، رومانیہ اور چین جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن بھی شامل تھے۔ اس جرم کا ہر تیسرا شکار 21 سال سے کم عمر تھا۔
جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ استحصال کا شکار ہونے والے افراد مجرموں کے ڈر سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ساتھ تعاون سے گھبراتے ہیں..
پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ متاثرین کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ پولیس کے مطابق چھاپہ مارنے کے بعد بھی متاثرہ افراد مختلف وجوہات کی بناء پر پولیس افسران کو یہ بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اسمگل کیا گیا تھا۔ اکثر متاثرین کو انتقامی کارروائی یا اپنے خلاف مجرمانہ الزامات کے تحت قانونی چارہ جوئی کا خوف بھی ہوتا ہے۔
رپورٹ میں جرمنی میں مزدوروں کے استحصال کے بارے میں بھی تفصیلات دی گئی ہے۔ جدید غلامی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ بزرگوں یا دائمی طور پر بیمار افراد کے لیے گھر میں دیکھ بحال کرنے والے ملازمین کا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی کام، بار اور ریستوراں کے علاوہ گھر اور دفاتر میں صفائی کا کام کرنے والوں کو بھی اسمگلنگ کرنے کے واقعات سامنے آئے۔
ش ر⁄ ع ا ( ڈی پی اے، ای پی ڈی)

اپنا تبصرہ بھیجیں