وطن نیوز انٹر نیشنل

کلائمیٹ چینج: ملکی سلامتی کا نیا چیلنج

گزشتہ دس برس سے اَن گنت واقعات سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کلائمیٹ چینج کے شکار ممالک میں اولین خطوں میں شامل ہوچکا ہے۔ اس تناظر میں جرمن واچ نامی تنظیم نے ملکِ عزیز کو دس ایسےممالک میں شامل کیا ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں اور اب ہم پاکستان میں اس کا عملی مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔

مثلاً گزشتہ موسمِ سرما میں لاہور میں معمول سے زائد بارشیں ہوئیں، جس نے اچانک فضا میں نمی کو بڑھا دیا۔ پھر مارچ کے وسط میں موسم گرما شروع ہوگیا اور یوں نہ صرف لاہور بلکہ ملک بھر میں گزشتہ چھ دہائیوں کا گرم ترین ماہِ اپریل نوٹ کیا گیا۔ مئی 2022 میں گلیشیئر کھسکنے سے گلگت بلتستان میں شاہراہِ قراقرم پر حسن آباد پل تباہ ہوگیا۔ اس سے میری توجہ آب وہوا میں تبدیلی کی جانب گئی جو نہ صرف معمول کے موسم کو شدید بنارہی ہے بلکہ اس میں ڈرامائی تبیلیوں کی وجہ بھی بن رہی ہے۔

پھر یوں ہوا کہ نہ صرف مون سون کا دور وقت سے پہلے شروع ہوا بلکہ ارضیاتی تحقیق سے وابستہ یورپی ادارے کوپرنیکس کے سیلابوں پر نظر رکھنے والے ادارے نے کہا کہ اس بار پاکستانی خطے کا مون سون دس گنا تک شدید تھا۔ جون کے اختتام سے لے کر ستمبر کے پہلے ہفتے کے دوران شدید بارشیں ہوئیں جن سے بلوچستان کے خشک علاقے جل تھل ہوگئے اور سندھ کے میدان پانی سے بھرگئے۔ اب تک اس میں ہزاروں پاکستانی اپنی جان ہار چکے ہیں اور مالی نقصان کا اندازہ کم و بیش دس ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ ان واقعات نے مجھے جھنجھوڑا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کو پاکستان کی سلامتی اور سیکیورٹی کا اندرونی اور بیرونی طور پر سب سے بڑا چیلنج قرار دوں۔
1994 میں اقوامِ متحدہ نے ’قومی سلامتی‘ کی نئی تشریح کرتے ہوئے اس میں انسانی سیکیورٹی اور تحفظ کو بھی شامل کیا ہے۔ پاکستان نے ’’قومی سلامتی پالسی 2022 تا 2024‘‘ کے نام سے ایک پہلی واضح ترین قومی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس میں انسانی تحفظ یعنی ہیومن سیکیورٹی پر علیحدہ سے ایک باب پیش کیا گیا ہے جس میں لفظ ’’کلائمیٹ‘‘ 12 اور ’’کلائمیٹ چینج‘‘ 8 مرتبہ تحریر کیا گیا ہے۔ اسی طرح لفظ ’’پانی‘‘ 19 مرتبہ اور ’’واٹرسیکیورٹی‘‘ دومرتبہ آیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز پاکستانی میں ہیومن سیکیورٹی سے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں۔

اگرچہ آب و ہوا میں تبدیلی کا لفظ عام افراد کےلیے نیا ضرور ہوسکتا ہے تاہم ہمارے پالیسی سازوں، غیرسرکاری تنظیموں اور دیگر، جو ایک عرصے سے موسمیاتی اثرات سے واقف ہیں اور اس پر اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں، لیکن عوام اور پالیسی سازوں کےلیے جو الفاظ نئے نہیں وہ ’’سیلاب‘‘ (فلڈ) ’’سیلاب کا انتظام‘‘ (فلڈ مینجمنٹ) ہیں۔

اگرچہ اوپر بیان کردہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی دستاویز میں صرف دو مرتبہ ’’قدرتی آفات‘‘ کا ذکر ہوا ہے لیکن ایک مرتبہ بھی سیلاب کے لفظ کو شامل نہیں کیا گیا۔ اب پاکستان کو ایک اور ہولناک اور جان لیوا سیلاب کا سامنا ہے جو ایک قدرتی آفت تو ہے ہی لیکن اس کا گہرائی میں جائزہ لیں تو پاکستان کے وسیع علاقے زیرِآب آنے کی وجوہ میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ اور گلیشیئرز کا پھٹنا ہے جسے ہم ’’گلیشیئل لیکن آؤٹ برسٹ فلڈ‘‘ کہتے ہیں۔ تکنیکی طور پر ہم اسے ماحولیاتی تنزلی کا نام دیتے ہیں۔

سابق وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے بلین ٹری سونامی کا منصوبہ بنایا تھا جسے عالمی سطح پر پذیرائی بھی ملی۔ 2019 میں اقوامِ متحدہ کی 74 ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں تارکینِ وطن کا جملہ استعمال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کلائمیٹ چینج کے تناظر میں عالمی کاوشوں پر بار بار زور دیا کیونکہ یہ چیلنج انفرادی طور پر حل نہیں کیے جاسکتے۔ اپنے دورِ اقتدار میں عمران خان نے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 کا اعلان کیا اور کئی اہم اقدامات شروع کیے لیکن اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد وزارتِ ماحولیات وفاق سے صوبوں تک منتقل ہونے سے بھی کلائمیٹ چینج پالیسی کے اطلاق میں رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔ نہ صرف ہمیں نیشنل ایکشن پلان میں رکاوٹوں کا سامنا ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کے تحت پائیدار ترقی کے اہداف یا سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گول کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم کلائمیٹ چینج کی موجودہ وفاقی وزیر شیری رحمان نے کلائمیٹ چینج کے چیلنج پر آواز بلند کی ہے اورجامع ’’ماحولیاتی سیکیورٹی‘‘ کو اولین قومی ترجیح قرار دیتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشترکہ عمل پر زور دیا ہے۔

اگر ہم 2010 کے سیلاب سے سبق سیکھ جاتے تو اس سال کے سیلاب سے جانی و مالی نقصان کو کم کیا جاسکتا تھا۔ تمام اسٹیک ہولڈر آنے والے دنوں میں کلائمیٹ چینج کے چیلنج سے آگاہ رہیں اور مناسب منصوبہ بندی کریں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماحولیاتی سیکیورٹی سے ہی فوڈ سیکیورٹی، ہیلتھ سیکیورٹی، آبی تحفظ اور معاشی و معاشرتی تحفظ بھی جڑا ہے۔

سیلاب کی تباہ کاریاں

این ڈی ایم اے کی تازہ رپورٹ کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں سے کل 1121 افراد اموات ہوچکی ہیں، 39100 مکانات مکمل تباہ ہوئے جبکہ 743248 گھر جزوی برباد ہوئے۔ 775345 مویشی سیلاب بہالے گیا۔ 192 پل اور کل 3748 کلومیٹر طویل سڑکیں اور ریل کی پٹریاں تباہ ہوچکی ہیں۔

2010 کا سیلاب پاکستانی تاریخ کا دوسرا بدترین سیلاب تھا جس میں 1985 افراد لقمہ اجل بنے اور 160000 مربع کلومیٹر پر پھیلے 17533 دیہات زیرِآب آگئے تھے۔ اس سیلاب میں دو کروڑ دس لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔

اگرچہ سیلاب زدہ علاقوں کی ویڈیوز اور تصاویر ہولناک ضرور ہیں لیکن اس کے بعد کے انسانی بحران سے نمٹنے کےلیے اقدمات کرنا ہوں گے کیونکہ یہ ہیومن سیکیورٹی کو متاثر کرچکے ہیں اور سماجی ومعاشی مسائل پیدا کرچکے ہیں۔

اس کا حل آخر کیا؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟

اس کا جواب اثبات میں ہے۔ سب سے پہلے تمام قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں کو کلائمیٹ چینج کو قومی سلامتی کےلیے ایک خطرہ قرار دینا ضروری ہے۔ دوسرا اہم قدم آبی ذخائر اور پانی کی فراہمی کی مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پورے ملک سے آبی گزرگاہوں اور رکاوٹوں کو دورکرنا ہوگا اور ماحول دوست تعمیرات کرنا ہوں گی۔ حالیہ سیلاب کے تناظرمیں نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہوگا اور مستقبل کے اثرات کا جائزہ لینا ہوگا۔

چوتھا امریہ ہے کہ ایس ڈی جی اور بالخصوص ایس ڈی جی جی 13 اور 15 کےلیے ایک جامع قومی حکمتِ عملی درکار ہے تاکہ کارپوریٹ سیکٹر کی مدد سے مستقبل کی قدرتی آفات سے نمٹا جاسکے۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ غیرروایتی طرز پر بڑے پیمانے پر عوام کو موسمیاتی تغیرات اور ان کے اثرات سے آگاہ کیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہیومن سیکیورٹی کو عموماً اور کلائمیٹ چینج کو خصوصاً بہت ہی کم سمجھا گیا ہے اور یہ رحجان ان افراد میں بھی ہے جو پالیسی سازی سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سول سوسائٹی اور عوام بھی اس سے نابلد ہیں اور اداروں کی باہمی کشمکش یا سیاسی رحجانات بھی اس میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں ماحولیاتی پروگرام سے وابستہ مالیاتی امور کے سربراہ ایرک اشر کہتے ہیں ’’کلائمیٹ چینج کے تناظر میں دو بڑی خلیجیں ہیں جنہیں پاٹنا ضروری ہیں، اول عزم اور دوم سرمایہ کاری۔‘‘ یہ بیان ٹھیک ہماری کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

حالیہ سیلاب اور اس کی تباہ کاریاں ایک موقع ہیں کہ ہم اس معاملے کی حساسیت اور اہمیت سے آگاہ ہوں۔ پاکستان کلائمیٹ چینج سے متاثرہ دس بڑی اقوام میں شامل ہے لیکن اس سے ہماری لاعلمی ایک کڑوا سچ بھی ہے۔ قدرتی آفات ہمیں بتاتی ہیں کہ حکومتی رٹ دہشتگرد اور بیرونی دشمن عناصر ہی چیلنج نہیں کرتے بلکہ وہ مافیا اور بااثر افراد بھی اس رٹ کے دشمن ہیں جو تعمیرات میں بلڈنگ کوڈ کا خیال نہیں رکھتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں