وطن نیوز انٹر نیشنل

قائدِ ملت،شہید لیاقت علی خان

29نومبر 1948ء کو ایک تقریب کے دوران انہوں نے کہا ’’ہمیں ایسی مملکت کی بنیاد رکھنی چاہئے جس میں اللہ کا قانون نافذ ہو، جہاں جمہوریت کے اصول پھلیں پھولیں،جہاں مساوات اور معاشرتی انصاف کا بول بالا ہو‘‘۔

اُن کا قتل آ ج بھی ایک معمہ ہے71 ویں برسی پہ جذبات و احساسات سے آ راستہ تحریر
آج 16 اکتوبر ہے۔ قوم اس دن کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ 71 برس قبل آج ہی کے دن پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔آج اس واقعے کو سات دہائیوں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے مگر اب تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی تاریخ کا دھارا بدلنے والا یہ واقعہ کس طرح پیش آیا، اس کے محرکات کیا تھے اورقاتل کے پیچھے کون سی طاقتیں پوشیدہ تھیں ۔؟
قیام پاکستان میں جن عظیم ہستیوں نے کلیدی کردار ادا کیا، ان میں حضرت قائداعظم ؒ کے بعد کئی نام لیے جا سکتے ہیںلیکن صحیح معنوں میں حضرت قائد اعظم ؒ کے بعد جس عدیم النظیر ہستی کا نام لیا جائے تو وہ نوابزادہ لیاقت علی خان کا ہے۔ ویسے تو سردار عبدالرب نشتر،راجہ صاحب محمود آباد، نواب سلیم اللہ خان، مولوی اے کے فضل الحق اور کئی دوسرے لوگوں کے نام بھی ہمارے سامنے ہیں لیکن لیاقت علی خان کا مقام سب سے الگ اور جدا ہے۔
یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال (بھارت) میں پیدا ہونے والے لیاقت علی خان کا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے تھا۔ اُنہوں نے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے وہ مدبر بھی تھے، وکیل بھی اور سیاستدان بھی، وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔1947ء سے 1951ء تک کابینہ میں شامل رہے اور انہوں نے خارجہ، دفاع اور سرحدی علاقوں کی وزارتیں سنبھالیں۔ اس سے پہلے وہ گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کی عبوری حکومت میں پہلے وزیر خزانہ کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ ایک جمہوریت پسند اور نظریاتی سیاست کے علمبردار تھے۔ انہوں نے بھارت میں پارلیمانی روایات کو بڑھایا۔
آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل لیاقت علی خان کو کانگرس میں شمولیت کی دعوت مل چکی تھی۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کو ترجیح دی جو اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نا انصافیوں پر احتجاج کر رہی تھی اور ان کے حقوق کی موثر طریقے سے وکالت کر رہی تھی۔ تقسیم ہند سے پہلے انہوں نے برطانوی حکومت کے تحت بننے والی عبوری حکومت میں وزیر خزانہ کے فرائض سرانجام دیئے۔ انہوں نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت کے قیام کیلئے قائداعظم محمد علی جناحؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے۔ اگرچہ ان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ غیر جانبدار تحریک تھا مگر وہ امریکہ اورمغرب کے زیادہ قریب ر ہے۔ انہیں سیاسی خلفشار کا سامنا تھا۔ بائیںبازو سے تعلق رکھنے والوں نے بغاوت بھی کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ ان سازشوں کے باوجود حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت کے بعد ان کا اثر و رسوخ بڑھ گیا۔
لیاقت علی خان ایک نہایت متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا خاندان 300گائوں کا مالک تھا۔ ان میں کرنال کے 60گائوں بھی شامل تھے۔ ان کے والدین نواب رستم علی خان اور والدہ محمودہ بیگم اپنے خاندانی احاطے میں آسودہ خاک ہیں جو کرنال کے باہر واقع ہے۔ یہ ریاست ہریانہ میں ہے۔ لیاقت علی خان کی سابقہ ذاتی رہائش گاہ تحصیل مظفر نگر (اترپردیش) میں واقع تھی۔ ان کی والدہ محمودہ بیگم نے سکول جانے سے پہلے ہی اپنے بیٹے کیلئے گھر میں قرآن و سنت کی تعلیم کا بندوبست کیا تھا۔ ان کا خاندان سر سید احمد خان کا بہت احترام کرتا تھا۔ لیاقت علی خان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھیجنے کی یہی وجہ تھی۔ انہوں نے قانون اور سیاسیات میں ڈگریاں حاصل کیں۔1918ء میں ان کی شادی اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے ہو گئی۔1932ء میں لیاقت علی خان نے ممتاز ماہر معاشیات اور مدرس رعنا سے دوسری شادی کر لی۔

تحریک پاکستان میں بیگم رعنا لیاقت علی خان نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔1919ء میں والد کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان اعلیٰ تعلیم کیلئے آکسفورڈ یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں انہوں نے قانون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کے دوران وہ طلباء یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ انہیں مجلس سوسائٹی کا اعزازی خزانچی منتخب کیا گیا۔ اس طلبہ یونین کی بنیاد ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کیلئے رکھی گئی تھی۔1922ء میں انگریزی قانون کے ایک پروفیسر کیساتھ وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کر دی۔
لیاقت علی خان نے 1923ء میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خاتمہ کے عزم کے ساتھ ہندوستان واپس آکر قومی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ شروع میں وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے اور ہندوستانی قوم پرستی ان کے فلسفے میں شامل تھی۔ کانگرس نے بھی ان سے رابطہ کیا لیکن جواہر لال نہرو سے ایک ملاقات کے بعد سیاسی خیالات یکسر تبدیل ہو گئے۔ انہوں نے کانگرس میں شامل نہ ہونے اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت قائداعظم ؒ ان کی طرح وکیل تھے۔ مئی 1924ء میں حضرت قائداعظم ؒ نے لاہور میں سالانہ اجلاس طلب کیا جہاں مسلم لیگ کے مقاصد، پروگرامز اور پارٹی کے استحکام پر بات چیت کی گئی۔ لیاقت علی خان کانفرنس میں ہونے والے زعما میں شامل تھے۔ انہوں نے پارٹی کیلئے نئے مقاصد کی سفارش کی۔ جلد ہی اُن کا شمار مسلم لیگ کے ممتاز رہنمائوں میں ہونے لگا۔ وہ مسلم لیگ کے کلکتہ میں منعقد ہونے والے قومی کنونشن میں شرکت کرنے والے وفد میں بھی شامل تھے۔
حضرت قائداعظمؒ نے 1943ء میں کراچی ریلوے سٹیشن پر لیاقت علی خان کو اپنا دایاں بازو قرار دیا اور فرمایا ’’خان لیاقت علی خانؒ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات
ا یک کر دیے، وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن وہ عام افراد کی طرح کام کرتے ہیں۔ میں دوسرے نوابوں کو بھی مشورہ دوں گا کہ ان سے سبق حاصل کریں۔‘‘
1945-46ء کے انتخابات میں لیاقت علی خان نے میرٹھ کے حلقے سے انتخاب لڑا اور کامیابی ان کا مقدر بنی۔ انہیں مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا چیئرمین بھی منتخب کر لیا گیا۔ مسلم لیگ نے مسلمانوں کیلئے مختص کی گئی نشستوں پر 87 فیصد کامیابی حاصل کرلی۔ لیاقت علی خان نے کابینہ مشن کے ارکان کے ساتھ مذاکرات میں حضرت قائداعظم ؒ کی معاونت کی۔
لیاقت علی خانؒ نے 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔جب انہیں وزیراعظم بنایا گیا تو بہت سے چیلنجز کا سامنا تھاتاہم انہوں نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے اس مملکت خداداد کو ترقی کی شاہراہ پہ گامزن کیا۔پھر وہ منحوس گھڑی آ ئی جب دشمن نے انہیں ہم سے چھین لیا۔
16اکتوبر 1951ء کو کمیٹی باغ راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران انہیں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ پولیس نے فوری طور پر قاتل کو بھی گولی مار دی جس کا نام سید اکبر ببرک تھا اور اس کا تعلق افغانستان کے زوران قبیلے سے تھا۔ لیاقت علی خان کا قتل آج بھی ایک معمہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے قتل میں امریکہ اور اس وقت کے افغانستان کے حاکم ظاہر شاہ کا ہاتھ تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ لیاقت علی خاں کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ گہری سازش تھی ۔مبینہ طور پر اس میں اُس وقت وزارتوں کے خواہش مند چند افراد بھی شامل تھے۔ کئی سابق پولیس افسران نے سازش کا سراغ لگانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں لیکن حکومت نے کوئی توجہ نہ دی۔ ایک ایماندار پولیس آفیسر اعتزاز الدین آئی جی سپیشل پولیس سرکاری طور پر تحقیقات کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام کیا ۔ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ موت کے سائے ان کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ایک دفعہ اخباری نمائندے کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سازشی کا سراغ مل گیا ہے، اسے بہت جلد بے نقاب کر دیا جائے گا۔ لیکن ان کی بدقسمتی کہ جس ہوائی جہاز میں مقدمے کی فائلوں سمیت سفر کر رہے تھے وہ جہلم کے قریب جل کر راکھ ہو گیا۔ وہ لاہور سے فائلیں لے کر راولپنڈی جا رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آ گیا۔ خیال رہے کہ جہاز میں ٹائم بم رکھ دیا گیا تھا۔
شہید ملت لیاقت علی خان کی زندگی سبق آموز ہے۔ دولت کی انہیں کوئی تمنا نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شہادت کے وقت ان کا بینک بیلنس صرف 32روپے تھا۔ وہ عمر بھر صلے کی تمنا کئے بغیر قوم و ملک کی خدمت سرانجام دیتے رہے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے تاکہ ہم حقیقت سے دور نہ بھٹک پائیں۔ سخت اور کڑے وقت میں بھی ثابت قدم رہتے۔انہوں نے اصولوں پر کبھی مفاہمت نہ کی۔ اخلاص، دیانت اور ایثار کو اپنا شعار بنایا۔
خان لیاقت علی خان آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کا ایثار، ان کے افکار اور ہمت و شجاعت اب بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے ایک مرتبہ طلبہ سے خطاب کے دوران فرمایا:
’’پاکستان کو باعث فخر ملک بنانا چاہئے جو پریشان دنیا کو خوش افز امید کا پیغام دے سکے۔ طلبہ غیر متعلقہ باتوں میں نہ الجھیں کیونکہ قوم و ملک کا بہتر مستقبل انہی سے وابستہ ہے۔ مشرقی پاکستان کے لئے لازم ہے کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ دفاع میں شامل ہو۔آبادی کی بنا پر مرکزی ملازمتوں میں نمائندگی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے اور اسی طرح زبان کے مسئلے کو غیر ضروری اہمیت نہ دیں‘‘۔
29نومبر 1948ء کو انہوں نے کہا ’’ہمیں ایسی مملکت کی بنیاد رکھنی چاہئے جس میں اللہ کا قانون نافذ ہو، جہاں جمہوریت کے اصول پھلیں پھولیں، مساوات، معاشرتی انصاف جس کا اسلام میں ذکر ہے کا بول بالا ہو۔ ایسی مملکت جس جگہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے اپنی زندگی قرآن مجید میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ جہاں اقلیتوں کے لئے مذہبی آزادی موجود ہو، اپنے کلچر کو آسانی سے فروغ دے سکیں۔ اسلام پرائیویٹ اعتقادات یا طرز عمل نہیں بلکہ یہ مسلمانوں سے بہترین مقاصد پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کی توقع رکھتا ہے۔‘‘
موجودہ صورتحال میں قائد ملت کی شخصیت سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ان کے سیاسی تدبرکو ہر لمحہ مد نظر رکھنا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں