وطن نیوز انٹر نیشنل

مسائل کاحل کیسے ڈھونڈیں؟ تحریر : قاسم علی شاہ

ذہن کواستعمال کرکے آپ کسی بھی الجھن کا حل نکال سکتے ہیں
لیکن ذہن بدترین حالت میں ہوتو پھر یہ کام نہیں کرسکتا

مشکلات انسان کو سنوارنے میں اہم کردار اد ا کرتی ہیں اور اُسے کندن بناتی ہیںزندگی میں جتنی بڑی مشکل آجائے کبھی حواس باختہ نہ ہوں ، فوری طورپر اپنے اعصاب کو قابومیں میں لائیں
وہ صابن بنانے والی ایک معروف کمپنی تھی جس کی پراڈکٹس کو ملک بھر میں پسند کیاجاتا تھا۔چونکہ معیار اچھا تھا اس لیے کچھ ہی عرصہ بعدکمپنی کانام ایک برینڈکے طورپرجاناجانے لگا۔ایک دفعہ کمپنی کے سیلز مین کو بازار سے یہ شکایت موصول ہوئی کہ’’ بڑے کارٹن میں صابن کے جو پیکٹ ہوتے ہیں ان میں بعض اوقات دو چارپیکٹ ایسے بھی آجاتے ہیں جن کے اندر صابن نہیں ہوتا،حالانکہ دکاندار پورے کارٹن کی قیمت ادا کرتاہے اور اس کوصابن کم تعداد میں ملتے ہیں جس سے اس کا نقصان ہوتاہے۔‘‘سیلز مین نے اپنے مینیجر تک یہ شکایت پہنچائی لیکن یہ بات اس قد ر مشہور ہوئی کہ کمپنی کی ٹاپ لیڈرشپ تک پہنچ گئی۔کمپنی کے سی ای او کے لیے یہ خبر چونکادینے والی تھی کیوں کہ کمپنی کا معیار اور نام ایسا تھا جس پر کوئی بھی یہ گمان نہیں کرسکتا تھا کہ ان کی پیکنگ میں کوئی مسئلہ ہوسکتاہے۔اس نے مینیجر کو بلایا اور اس مسئلہ کی وجہ پوچھی۔مینیجر بولا :’’سر! سارا کام آٹومیٹک طریقے سے ہوتاہے مشین سے صابن پیک ہوکر نکلتاہے اورپھر بڑ ے کارٹن میں بھرکر آگے جاتاہے۔

بعض دفعہ صابن کی پیکنگ مشین میں آجاتی ہے لیکن کسی وجہ سے وہ خالی بڑے کارٹن میں چلی جاتی ہے۔ہم نے انجینئر سے مشین کی یہ خامی ٹھیک کرنے کے لیے کہا ہے لیکن وہ ایک ہفتے بعد آئے گا۔دوسرا حل یہ ہے کہ ہم مزدور لگاکرایک ایک صابن کوچیک کرتے جائیں لیکن اس کام پر کافی وقت لگے گا اور کمپنی کی پروڈکشن کم ہوجائے گی۔‘‘ باس بولا: ’’کچھ بھی ہو مجھے آج ہی اس مسئلے کا حل چاہیے۔‘‘مینیجر بے بسی سے اپنے باس کی طرف دیکھنے لگا۔پاس ہی ایک دوسرا شخص کھڑاتھا ، وہ بولا:’’سر میرے ذہن میں ایک آئیڈیاہے۔‘‘باس اس کی طرف متوجہ ہوااور کہا بولو۔ ’’سر!صابن جب مشین سے پیک ہوکر نکلتا ہے اورٹریک پر آگے کارٹن کی طرف جاتاہے ہم وہیں پر دو پیڈسٹل فین لگادیتے ہیں جن کارُخ ٹریک کی جانب ہو ۔ان پنکھوں کی زوردار ہوا سے یہ ہوگا کہ جس پیک میں صابن نہیں ہوگا، وہ اُڑ کر نیچے جاگرے گا اور یوں کارٹن میں خالی پیک نہیں جائیں گے۔‘‘ باس کی آنکھیں چمک اٹھیں، اُس نے اِس آدمی کو شاباش دی اور مینیجر کو فوری طورپر پنکھے لگوانے کا حکم دیا۔
زندگی خوشی و غمی سے عبارت ہے۔ہر انسان کی زندگی میں جہاں خوشیاں ہوتی ہیں وہیں مسائل اور پریشانیاں بھی آتی ہیں۔پریشانیاں اور مسائل انسان کے لیے بھٹی کاکردار اد ا کرتے ہیں اور اس کو کندن بناتے ہیں لیکن عام طورپر انسان اس چیز کونہیں سمجھتا۔اس کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ آتاہے تو وہ پریشان ہوجاتاہے ۔وہ مسئلے کے بارے میں اس قدر سوچنا شروع کردیتاہے کہ سوچتے سوچتے اس کا ذہن مائوف ہوجاتاہے اور نتیجتاًاس کو کوئی بھی حل نظر نہیں آتا۔دنیا میں جس قدر بھی مشکلات ہیں ان سب کاکوئی نہ کوئی حل بھی موجود ہے۔ان مشکلات سے لڑنے کے لیے اللہ نے انسان کو ذہن کی دولت سے نوازا ہے۔یہ اس قدر شاندار نعمت ہے کہ انسان اس پر جتنا بھی شکر اداکرے کم ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ذہن سے کام لینے کے لیے اس کو کوئی نہ کوئی مقصد دینا پڑتاہے۔اس کو جب آپ کسی ہدف کے پیچھے لگاتے ہیں تو پھر یہ اپنے کرشمے دکھاتاہے اور ایسے حیران کن طریقے ڈھونڈنکالتا ہے جو انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتے۔ اگر اس کے سامنے کوئی ٹارگٹ نہ ہو تو پھر اس کی مثال مرسٹڈیز گاڑی کی طرح ہے جس کی قیمت توکروڑوں میں ہے لیکن وہ صرف گیراج میں ہی کھڑی رہے ۔اس کی دلکشی ،قیمت ، برانڈنگ اورسپیڈ کسی کام کے نہیں۔
فرض کریں کہ آپ اپنے شہر سے باہر لیکچر دینے گئے ہیں۔کھانے کھاتے ہوئے آپ کی سفید قمیص پرکیچپ گرگئی ۔غصے،پریشانی اور شرم کے مارے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا۔’’اب میں لیکچر کیسے دوں گا؟‘‘ آپ نے اپنے ذہن میں دہرانا شروع کردیا۔اب چونکہ مسئلہ آپ کے سر آپڑاہے اس لیے ذہن نے دوڑنا شروع کردیا ہے ۔وہ مختلف تجاویز آپ کے سامنے رکھتاہے۔’’میں جلدی سے اس کودھولیتاہوں‘‘ ،’’نہیں نہیں ،داغ پھر بھی نظر آئے گا‘‘،’’میں جلدی سے بازار جاکر نئی شرٹ خریدتاہوں‘‘، ’’لیکن ٹائم کم ہے میں نے لیکچر بھی دینا ہے‘‘،’’ میں یہاں کسی سے درخواست کرکے اس سے شرٹ لے لیتاہوں‘‘،’’ لیکن یہاں میرا جاننے والا کون ہے؟ ‘‘ اور آخر کار آپ کے ذہن میں آتاہے کہ بیگ میں سے کوٹ نکال کر پہن لیتاہوں ، یوں کسی کو بھی کیچپ کاداغ نظر نہیں آئے گا اوراس آسان تجویز پر آپ کی جان میں جان آجاتی ہے۔
ذہن کواستعمال کرکے آپ اپنے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ کا ذہن بدترین حالت میں ہوتو پھر یہ کام نہیں کرسکتا۔مثال سے سمجھئے!کسی جگہ صاف پانی کھڑا ہو اور آپ اس میں جھانکیں تو اپنا چہرہ آپ کو صاف نظر آئے گا۔اب آجائیے دوسری طرف۔آپ کچن میں کھڑے ہیں ۔چولہے پر پانی رکھاہواہے ،جو ابل رہاہے۔ اس میں اگر آپ چہرہ دیکھنے کی کوشش کریں گے تو نہیں دِکھے گابلکہ بھا پ کی تپش سے آپ کا چہرہ جل بھی سکتاہے۔غصے یا پریشانی سے ابلتے ہوئے ذہن کی مثال بھی یہی ہے۔ایسی صورت میں وہ ایک جگہ پر جامد ہوجاتاہے ،وہ کچھ بھی اچھا نہیں سوچ سکتااور نہ ہی مسئلے کا حل پیش کرسکتاہے۔ ’’جامد ذہن‘‘ انسان کو مایوسی میں دھکیلتاہے۔ایسے انسان کو زندگی میں موجود امکانات نظر نہیں آتے۔آ پ نے دریامیں چھلانگ لگانے والے ، خود کو پھانسی دینے والے اورٹرین کے آگے کھڑے ہوکر اپناخاتمہ کرنے والوں کے بارے میں ضرور سنا ہوگا ، دراصل ان لوگوں کا ذہن منجمد ہوچکا ہوتاہے۔یہ اس انتہا پر ہوتے ہیں جہاں انھیں کسی طرح کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی اور اس شدید مایوسی کے عالم میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
کسی بھی مسئلے اور پریشانی کی صورت میں خود کو اس دائرے سے نکالنا بہت ضروری ہوتاہے۔جب تک انسان کے ذہن پر مسئلہ سوار ہوگا وہ حل نہیں ڈھونڈ سکتا۔اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کرکٹ میچ میں ایک بلے باز پچ پر کھڑا ہے ۔اس پر سکور کرنے ، آئوٹ نہ ہونے اور میچ جیتنے کا انتہائی پریشر ہے۔اس پریشر میں رہتے ہوئے وہ بعض اوقات رسکی قدم بھی اٹھالیتا ہے،وہ بھرپور کوشش کررہا ہوتاہے لیکن ہدف تک پہنچ نہیں پاتا۔دراصل پریشر کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کو احساس نہیں ہوتاکہ وہ کہاں پر غلطی کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پارہا۔جبکہ گرائونڈ سے باہر بیٹھاشخص بلے باز کو اس کے مسئلے کا حل باسانی بتاسکتاہے ۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پریشر کے دائرے سے باہر ہے اوروہ امکانات کو دیکھ سکتاہے۔عام زندگی میں جب بھی کوئی شخص بہت زیادہ کسی مسئلے کو اپنے ذہن پر سوار کرلیتاہے تو پھر اس کو کسی کائونسلر اوررہنمائی دینے والے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کائونسلر اس مسئلے کے پریشر سے باہر رہ کر اس آدمی کوبہترین حل بتاسکتاہے اور اس کی زندگی کوپرسکون بناسکتاہے۔
کسی بھی مسئلے کی صورت میں آپ کو کیاطریقہ اپناناچاہیے ؟
اس کے لئے پانچ آسان طریقے ہیںجو یقینا آپ کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔
پرسکون ہوجائیں:
آپ کی زندگی میں جس قدر بھی بڑی مشکل اور مسئلہ آجائے ، آپ نے حواس باختہ نہیں ہونا۔آپ فوری طورپر اپنے اعصاب کو قابومیں کریں ۔اس مسئلے کو ذہن پر سوار نہ ہونے دیں اور اس کے بارے میں اتنا زیادہ نہ سوچیں کہ وہ بڑھتے بڑھتے بہت ہی بھیانک بن جائے۔اکثر لوگ مسئلے کافوری حل چاہتے ہیں لیکن یادرکھیں کہ بعض اوقات ایسا ممکن نہیں ہوتا۔آپ کو کچھ تگ و دو کرنی پڑتی ہے تب جاکر مسئلہ حل ہوتاہے۔بعض لوگ فوری طورپر دوسروں کو الزام دینا شروع کردیتے ہیں۔آپ ایسا ہرگزنہ کریں۔آپ یہ یقین رکھیں کہ اس مسئلے کاحل موجود ہے۔اگر آپ شدید اندا ز میں ردعمل دیں گے تو اپنے اندر موجود مسائل حل کرنے کی قابلیت کو کمزور کردیں گے۔اس لیے یوں کیجیے کہ کسی پرسکون جگہ بیٹھیں،ناک کے ذریعے لمبا سانس کھینچیں اور پھر اس کوخارج کریں ،دو تین بار لمبے سانس لینے سے آپ کے ذہن سے مسئلے کا بوجھ کم ہوجائے گا اور پھر اس کا حل نکالنے میں آپ کو کافی آسانی رہے گی۔
سوال پوچھیں:
جب آپ کا ذہن کچھ پرسکون ہوجائے تو پھر اپنے آپ سے سوال پوچھیں۔سوال پوچھنا مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کرتاہے۔اس کی بدولت آپ کا ذہن حل ڈھونڈنے میں لگ جاتا ہے۔وہ مختلف صورت حال اور وجوہات سامنے لاتاہے اوران کی بنیاد پر نئے آئیڈیاز سوچتاہے۔سوال پوچھنے کی بدولت آپ کو اپنے مسئلے کے حل کے لیے فیصلہ کرناآسان ہوگا۔آپ جس قدر زیادہ سوالات اپنے ذہن میں لائیں گے اتنا ہی آپ کے لیے فیصلہ کرناآسان ہوگا۔
برین سٹورمنگ(Brainstorming)
جب آ پ کسی ایسے مسئلے میں پھنس جائیں جہاں آپ کا دماغ کام کرنا چھوڑدے تو پھر اس کے لیے بہترین صورت ’’برین سٹورمنگ‘‘ ہے۔اس مرحلے میں آپ اپنے دوستوں اور کولیگز سے مدد لے سکتے ہیں۔آپ انھیں مسئلے کی صورت حال بتائیں اور پوچھیں :’’ اگر آپ کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش آیا ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ ‘‘ آپ کے دوست جب تجاویز دینے لگے تو آپ انھیں اچھے برے کے ترازو میں مت پرکھیں ، بس سنتے رہیں۔پھر ان پر تبادلہ خیال کریں کہ کون سی تجویز کس طرح مفید رہے گی ؟تبادلہ خیال کے بعد ان سب تجاویز میں آپ کوجو تین بہترین تجاویز لگیں ان کو لے لیں۔
کیوں؟
مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کے لیے آپ خود سے ’’ کیوں ‘‘والے پانچ طرح کے سوالات پوچھیں۔آپ پوچھیں کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا؟ اس پربھرپورانداز میںغور کریںاور اس کا ٹھوس جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔دوسری بار پھر اپنے آپ سے ایک اور ’’کیوں‘‘والا سوال پوچھیں ، اس کا بھی جواب ڈھونڈیں۔ تیسری ، چوتھی اور پانچویں بار بھی کیوں والے مختلف سوالات پوچھیں۔اس سرگرمی کی بدولت آپ نہ صرف مسئلے کی جڑ تک پہنچ جائیں گے بلکہ اس کے علاوہ بھی مختلف وجوہات اور کمزوریاں آپ کے سامنے آجائیں گی۔
علیحدگی اختیار کریں:
ابتدا میں یہ بات بتادی گئی تھی کہ جب انسان کسی مسئلے کے دائرے میں ہوتاہے تووہ اس کے بارے میں بہتر انداز میں سوچ نہیں سکتا۔آپ بھی جب گمبھیر مسئلے میں پھنس جائیں تو حل ڈھونڈنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ فوری طورپر اس صورت حال سے خودکو علیحدہ کریں۔آپ کچھ دیر کے لیے آرام کریں،چہل قدمی کے لیے پارک میں جائیں،لانگ ڈرائیو پر نکل جائیں یا پھر ایسی جگہ چلے جائیں جہاں آپ کسی حدتک اپنے اس مسئلے کوبھلادیں ۔بھرپور وقفے کے بعد پھر آپ اپنے مسئلے کی طرف واپس آجائیں ۔اب آپ کاذہن تازہ دم ہوگا اور بڑی آسانی کے ساتھ آپ مسئلے کو حل کرسکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں