وطن نیوز انٹر نیشنل

مروجہ نظام ِ انتخاب یا متناسب نظامِ نمائندگی؟ (ریاست مدینہ کی تشکیل و قیام!)

مروجہ نظام ِ انتخاب یا متناسب نظامِ نمائندگی؟
(ریاست مدینہ کی تشکیل و قیام!)
امانت علی چوہدری ڈنمارک۔
ٓ ٓآج سے 74سال قبل ریاست پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر لیڈروں کا اصل مقصد یہ تھا۔کہ برصغیرکے اس خطے میں ایک ایسی مملکت قائم کی جائے جہاں پر مسلمان اور دیگر اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے دین و مذہب پر عمل پیرا ہو سکیں‘ ایک ایسا ملک جہاں پر بسنے والے ہرشہری کو با عزت طور پر یکساں ضروریات میسر ہوں‘ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے کہ جہاں پر ہر شہری اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرے۔ایک ایسی مقدس زمین کا حصول جہاں پر بسنے والے ہر شہری کی جان و مال‘عزت و آبرو کی حفاظت ہو اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنے اپنے مسالک پر قائم رہتے ہوئے عبادات کرنے اور مذہبی تہوار منانے کی آزادی ہو گی۔یہی وجہ تھی کہ مسلمانان برصغیرنے پاکستان حاصل کرنے کیلئے لاکھوں جانوں اور عزتوں کی صرف اس لئے قربانی دی تھی کہ انہیں ہندوستان سے باہر اپنے وطن میں تمام بنیادی حقوق حاصل ہو ں گے اور وہ اپنی زندگی کے دن نہایت ہی آرام و سکون سے بسر کر سکیں گے۔اس اسلامی مملکت میں ان کی گردنوں میں نہ غلامی کا طوق ہو گا اور نہ ہی کسی قسم کی دہشتگردی کا سامنا اور اندیشہ ہو گا۔ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں مسلمانوں نے انگریز اور ہنددؤں کی غلامی سے آزادی کا ایک نعرہ بلند کیا تو ذہنوں میں ایک اضطراب پیدا ہواتو مسلمانوں کو آزادی کی جدو جہد بے چین رکھنے لگی۔مخلص‘ بے لوث اور با کردار قیادت کی راہنمائی میں متحدہ قوم کا صرف ایک ہی نعرہ تھا‘ خواب‘ عزم‘ مقصد اور حصول پاکستان۔ اور جب قوم نے اپنی منزل کا تعین کر لیاتو آزادی ان کے قدموں میں نچھاور ہو گئی۔دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی ریاست کے ظہور سے دنیا حیران رہ گئی۔بانی پاکستان محمد علی جناح ؒنے قوم کی قوت اور اپنی بے لوث قیادت سے نا ممکن کوممکن کر دکھایا لیکن پاکستانی قوم کی بد قسمتی سمجھ لیں کہ اس بڑے اور آفاقی راہنما محمد علی جناح کو اپنی امنگوں اور خواہشات کے مطابق پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے قدرت نے موقع فراہم نہ کیا اور وہ پاکستان اور قوم کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے اور پاکستانی قوم کے دلوں کی حسرت پوری نہ ہو سکی۔قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان کی رحلت سے لیکر اب تک پاکستانی قوم کسی نجات دہندہ‘بے لوث اور با کردار قیادت کی تلاش و انتظار میں ہے جو بانی پاکستان کا متبال ثابت ہو‘لیکن اس کے بعد جو بھی بر سر اقتدار آیا‘ایک دوسرے سے بڑھ کر راہزن اور لٹیرا بن کر ہی آیا۔اور قوم کی پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی حسرت دلوں میں ہی رہ گئی۔
پھر کیا تھاپاکستان کو یہاں کے نام نہاد لیڈروں اور سیاستدانوں نے بے رحمی اور بے دردی سے لوٹا اور پاکستان کیلئے قوم کی طرف سے دی گئی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔سیاسی گروہ اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا۔آخر کار 1973ء میں پاکستان کا ایک متفقہ آئین و قانون تیار ہوا لیکن اس میں بھی سیاستدانوں نے من مانی ترامیم کرکے اس کی دھجیاں بکھیر دیں اور پاکستان کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی آمروں اور ڈکٹیٹروں نے آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک‘ امریکہ اور دیگر یورپی اقوام سے قرضے لے لے کر اپنے بنک بیلنس اور جائیدادؤں میں بے پناہ اضافہ تو کیالیکن قومی فلاح اور ملکی اداروں پر کچھ بھی خرچ نہیں کیا گیااور ہر دور میں قوم پر قرضوں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھتا ہی چلا گیااور روز بروز عوامی احتجاج میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔لیکن حکمرانوں نے اپنی ڈگر کو نہیں چھوڑا۔آخر 2008 ء کے انتخابات کے بعد افواج پاکستان نے ملک کا نظام سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور خود ملکی سرحدوں کی حفاظت اور دہشتگردی کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہو گئی۔پھر کیا تھا کہ سیاستدانوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا تو انہوں نے قومی خزانے کو لوٹنے اور قرضے حاصل کرنے کی تمام حدیں ہی توڑ دیں۔منی لانڈرنگ‘ رشوت اور کرپشن کے بل بوتے پر قومی سرمایہ بے دردی کے ساتھ بیرون ممالک میں منتقل کر دیا گیا اور وہ قومی ادارے جنہیں قومی ترقی میں ممد سمجھا جاتا تھا انہیں تباہ و برباد کرکے زمین بوس کر دیا گیا۔اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں بھوک‘ افلاس‘بے روز گاری‘ بد امنی‘مہنگائی اور احتجاجوں کا دور دورہ ہے۔ہر دور میں سیاستدانوں نے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے الٹی نمک پاشی ہی کی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر افواج پاکستان ملک بھر میں دہشتگردی اور ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کیلئے قربانیاں پیش نہ کرتیں تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا۔ہم تہہ دل سے اپنی افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ملک کے ان عناصر کو کہنا چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان کے خلاف احتساب کا مطالبہ کرنے والے یہ تو بتائیں کہ خون بھی کہیں بکتا ہے کبھی؟ یہ افواج پاکستان ہی تو ہیں جنہوں نے ہزاروں جوانوں کی شہادت پیش کرکے اپنے پاک وطن میں امن و امان کی کیفیت کو یقینی بنایا ہے۔ہم پوچھتے ہیں کہ فوج سے احتساب کا مطالبہ کرنے والوں کا اپنا کردار کیا ہے؟
ہم پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ مملکت پاکستان کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا؟کیا پاکستان کا قیام اس لئے وجود میں لایا گیا تھا کہ اسے چند خاندانوں کی جاگیر بنا دیا جائے؟کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند خاندان اربوں ڈالرز کے قرضے لے کر شیر مادر کی طرح ہڑپ کر جائیں؟کیا پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ بھوک سے تنگ آ کرمائیں اپنے بچوں سمیت نہروں اور کنوؤں میں کود جائیں؟کیا اس لئے کہ پاکستانی عوام کو گلیوں‘ بازاروں‘ سڑکوں اور گھروں کی دہلیزوں پر لوٹ لیا جائے؟کیا پاکستان کے لاکھوں افراد نے اس لئے قربانیاں دی تھیں کہ کمزوروں اور غریبوں کی بہو بیٹیوں کی عزتوں کو سر عام اچھالا جائے؟ سچ پوچھیں تو آج ہر سطح کا انسان عدم تحفظ کا شکار ہے۔یعنی کہ جس قوم کا کوئی پرسان حال نہ ہوتو اس ملک میں اندرونی اور بیرونی دشمن عناصر کو مداخلت کا موقع مل جاتا ہے اور ایسی طاقتیں تخریب کاری کرکے ملک کی بنیادوں کو کھولا کر دیتی ہیں۔یہی وجہ ہے پاکستان کے نا اہل‘ لالچی‘ دولت کی ہوس اور اقتدار کی بھوک کے پرستار سیاستدان ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے۔سیاستدانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے ہی افواج پاکستان کے پچاس ہزار سے زائد جوانوں نے شہادت اور ستر ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے ہیں۔2008ء سے لیکر 2013ء تک محمد آصف زرداری یعنی پیپلز پارٹی کی صدارتی حکومت اور سندھ میں بلا شرکت غیرے حکومت رہی ہے اور انہوں نے قومی دولت لوٹنے میں ریکارڈ قائم کر دیئے تھے۔اسی عرصہ کے دوران میاں محمد نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے اور صوبہ پنجاب پر تو مسلم لیگ ’ن‘ کی تیس سال تک حکومت رہی ہے۔اور اس جماعت کی لوٹ مار سے ہر کوئی واقف ہے۔
یہ تو پاکستانی قوم کی خوش قسمتی سمجھ لیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اور کمانڈر انچیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حب الوطنی کا ایسا ثبوت پیش کیا ہے کہ ملک بھر سے دہشتگردی کی بیخ کنی کرکے قوم کے سکون اور ملکی سرحدوں کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کیا ہے۔اور اس کے ساتھ یہ اہم بات بھی ہے کہ اب کسی حد تک ملک کی عدلیہ اور احتساب بیورونے بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ مبذول کی ہوئی ہے۔
اس دفعہ پاکستان میں مئی 2018ء میں ہونے والے قومی انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ملک میں احتساب‘ خود انحصاری اور عدل و انصاف کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی ہے اور اس کے چیئرمین عمران خان ملک میں تبدیلی کا نعرہ لے کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوئے ہیں۔انتخابات سے قبل عمران خان کا ہر ایک اسٹیج پر یہی اعلان ہوتا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کرملک بھر میں بلا امتیازکرپشن‘ رشوت اور منی لانڈرنگ کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف‘خود انحصاری اور احتساب کا سلسلہ ترجیح بنیادوں پر شروع کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ و ہ تمام سابقہ حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور موجودہ حکومت میں تمام عہدے داروں کا بلا امتیاز احتساب ہو گا۔ اور کرپشن‘ رشوت‘ منی لانڈرنگ اور ذخیرہ اندوزی سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی قومی خزانے میں واپس لائی جائیگی۔ اب پی ٹی آئی حکومت کو اڑھائی سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک کرپٹ سیاستدانوں پر مقدموں کی بوچھاڑ کے علاوہ اور کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہو سکی۔مقدمات اور ضمانتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن نتیجہ صفر ہے۔ایک آنکھ مچولی ہے جو حکومت‘ احتساب بیورو‘عدلیہ اور قومی مجرموں کے درمیان جاری ہے‘ اربوں کی منی لانڈرنگ‘کرپشن کے اعلانات کے باوجود قومی خزانے میں ایک پائی بھی واپس نہیں لائی جا سکی۔ اور ملک میں مہنگائی کا عفریت کھڑا کرکے ذخیرہ اندوز مافیا نے قوم کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات پر قابو پانے کیلئے حکومت کیلئے خود احتسابی کے عمل کو بروئے کار لانے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔جبکہ پی ڈی ایم کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ملک دشمنی کی انتہا کر رکھی ہے اور حکومت کو عدالتی کاروائیوں میں الجھا رکھا ہے۔اور وزیر اعظم عمران خان کو ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دیا جا رہا ہے۔اب تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں ہوم ورک کرنے سے پہلے حکومت نہیں لینی چائیے تھی‘ہم جو باہر سے دیکھ رہے تھے‘حکومت میں آ کر بالکل مختلف نکلا ہے۔اور تمام حالات کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے میں دو سال کا عرصہ لگ چکا ہے۔وزیر اعظم آئے دن کسی نہ کسی وزیر کا منصب تبدیل کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا وزیروں کے شب و روز منصب تبدیل کرنے سے قومی اداروں کی تکمیل اور ترقی ممکن ہو سکتی ہے؟ہم سمجھتے ہیں کی جب تک ہر متعلقہ شعبہ میں اس کیمطابق تعلیم و تجربہ کے لوگوں کی تعیناتی نہیں کی جائیگی ان اداروں کی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔‘ اب تو ہر طرف سے یہی اطلاع آتی ہے کہ ہمیں فلاں فلاں لابی کام نہیں کرنے دے رہی ہے۔گویا حکومت کے عہدے داران حکومتی رٹ قائم کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ملک بھر میں عوام نے حکومت کی منفی کارکردگی کے بارے شور اور پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے۔اور حکومت کے خلاف عوام کے خیالات تبدیل ہونا شروع ہو چکے ہیں۔اب حکومت کے پاس صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں‘اگر اب بھی حالات پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کیلئے مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔کیونکہ ملک بھر میں تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ملک بھر میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور تنخواہیں یا آمدنی بہت کم ہے۔حکومت کیلئے عوام کو مطمئن کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔انتخابات سے قبل عمران خان نے قوم اور خاص کر اورسیز پاکستانیوں کے سامنے جو تبدیلی کا وژن پیش کیا تھا‘ اب تک اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ گو ا س کی اصل وجہ دنیا بھر اور پاکستان میں ’کرونا‘ وائرس کی مہلک بیماری نے ہر قسم کے کاروبار پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔وزیر اعظم کو تارکین وطن کی طرف سے کثیر زر مبادلہ کی توقع تھی لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروبار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔حکومت نے اورسیز پاکستانیوں کیلئے کچھ اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک باتوں کے سوا اور کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی سوچ اور اس کی حب الوطنی پر انگشت نہیں اٹھائی جا سکتی لیکن ان کے بعض اپنے ساتھی ہم نوا اور اتحادی سیاسی جماعتیں ملکی مفاد میں اصلاحات کرنے میں اس کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں اور اس کے علاوہ سابقہ حکومتوں کے کرپٹ عہدے دار اورسیاستدان جو نیب کے زیر عتاب ہیں‘ وہ تو اس کی راہ میں روڑے اٹکانے میں پہلے ہی سے پیش پیش ہیں۔عمرانپنے سابقہ طویل دھرنے میں حکومت کا بگاڑ بخوبی نظر آ رہا تھا‘ جس پر انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میں اقتدار میں آ کر تمام معاملات صرف 90دنوں میں درست کر دوں گا۔لیکن اب تو ان کو اقتدار میں آئے تین سال ہونے کو ہیں تو عوام اب سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ انتخابات سے قبل جیسے ہمیشہ پاکستانی سیاستدان قوم کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور جب اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو قوم کو کالا باغ کے بھنورمیں دھکیل کر چلے جاتے ہیں۔اور پھر قوم اس کے بعد کسی اور نجات دہندہ کی راہ دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔قوم سوچنے پر مجبور ہو رہی ہے کہ کیا عمران خان کا نئے پاکستان اور تبدیلی کا نعرہ محض دوسرے سیاستدانوں کی طرح کا سیاسی نعرہ تو نہیں تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن سے پہلے ریاست مدینہ کی طرز حکومت کا نعرہ لگایا تھا‘جسے بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔لیکن اب امریکی نظام حکومت کی باتیں کرنا کیا یہ اللہ و رسول ﷺ اور قوم سے دھوکہ‘آئین سے روگردانی اور حلف شکنی کے مترادف نہیں ہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں امریکی صدارتی نظام ہو یا برطانوی پارلیمانی نظام یہ دونوں ہی انسانیت کا استحصال ہیں۔یہ نظام حقیقی فلاح سے خالی‘مفاد پرستی‘ سرمایہ کی پرستش اور دنیا و آخرت کی بربادی کے حامل ہیں۔
عمران خان نے جس ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا اور جس آئین کا حلف اٹھایا تھا تو اس کی پاسداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ آئین کی طلب کے مطابق ملک میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان کرتے بلکہ اس سے پہلے آئین میں جو غیر اسلامی شقیں گھسائی جا چکی ہیں ان سے حکومتی نظام کو پاک کرتے۔ہمارے خیال میں قوم کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چائیے‘یہاں پر تو مرگ ِ امید کے آثار نظر آتے ہیں۔عالمی طاغوتی نظاموں سے سلطنت میں نہ تو کوئی بہتری آ سکتی ہے اور نہ ہی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ ملک پر پینشنسٹ بوجھ ہیں‘افسوس کی بات ہے کہ جن لوگوں نے تمام عمر ملک و قوم کی حفاظت کی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو وطن عزیز کی ترقی و استحکام کیلئے وقف کر دیا تھا تو آخری عمر میں انہیں یہ صلہ ملا کہ تم لوگ ملک پر بوجھ ہو‘ دنیا میں احسان فراموشی کی اس سے بد تر اور کوئی مثال نہیں ہے اگر ملک بھر میں نام نہاد حکمرانوں اور سیاستدانوں نے قومی اداروں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہوا ہے۔مہنگائی روز افزوں ترقی پر ہے‘تنخواہیں کم ہیں تو اس کے ذمہ دار عوام نہیں ہیں‘ تو اس میں چھوٹے طبقہ کے ملازمین اور محنت کشوں کا کیا قصور ہے؟ بلکہ حکومتی کارندے اور انتظامیہ نا اہل ہے۔ان حالات میں عوام کہاں تک صبر کا دامن تھامے رکھیں گے؟صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔عوام کے چولہے ٹھنڈے کرکے معاشی طور پر انہیں نچوڑ دیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے بقول اورسیز پاکستانیوں کا حکومت پر سے اعتماد کا اٹھ جانا‘ ان کا یہ اعتراف خود ان کی دیانتدارانہ کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔اس وقت ملکی و قومی تباہ کاری‘ کاروبار کا ستیاناس اور تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے۔خارجہ امور‘ داخلہ اور خزانہ سمیت اہم اداروں کی زمام کار عالمی استعمار کے وفاداروں اور سکہ بند گماشتوں کے ہاتھوں میں تھما کر بربادی‘ تباہی اور خسارے کے سوا اور کیا حاصل ہو سکتا تھا؟نااہل وزراء اور مشیروں کی فوج کو اکٹھا کرنے کے بعد‘ان سے بہتر کارکردگی کا مطالبہ کرنا بذات خود جہالت اور نالائقی ہی تو ہے۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ ہیجڑوں سے مردانگی کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کیا جائے۔ایسے بے حس و حرکت اور نیم مردہ وزیروں اور مشیروں کو کوئی لابی کیوں تنگ کرے گی؟ کیا وہ خود وزیر اعظم کو بتائیں گے کہ ہمیں تنگ کیا جا رہا ہے لیکن یہاں پر تو خود ان سے دریافت کیا جا رہا ہے کہ کوئی تنگ تو نہیں کر رہا ہے؟تو ان حالات میں اگر عوام کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں تو اس ملک کے حکمران کی نیند کا اچاٹ ہو جانا کوئی اچنبھہ کی بات نہیں ہے۔اگر کسی قوم کا سکھ و چین چھن چکا ہو تو اس کا خادم کیسے سکون کی نیند سو سکتا ہے؟یہ تو مکافات عمل ہے جو ہر حال میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہاں پر اپنے خدشات کا اظہار ضروری سمجھتے ہوئے یہ بتانا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل جب آپ کی سیاسی پارٹی کو عوام میں مقبولیت حاصل ہو چکی تھی اور پارٹی میں ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے تحریک انصاف کیلئے جانی و مالی قربانیاں دینے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی‘ تو پھر اپنے ورکروں‘ کارکنوں اور ووٹروں کو الیکشن میں ٹکٹ دینے کی بجائے‘ ملک کی دوسری اقتدار پرست جماعتوں کو ٹکٹ دے کر کامیاب کرانا کہاں کی عقلمندی تھی؟جبکہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی وجہ سے جماعت کے اپنے نمائندے بڑی آسانی سے کامیاب ہو سکتے تھے۔لیکن اپنے مخلص کارکنوں اور ورکروں کو نظر انداز کرکے دیگر گھسے پِٹے طوطا چشم کرپٹ سیاستدانوں کو کامیاب کرا کر خود پر مسلط کرنا یہ کہاں کی عقلمندی اور سیاست ہے؟وزیر اعظم صاحب کیا آپ کے مخالفین کی پہلے کوئی کمی تھی کہ آپ نے مزید لوگوں کو اپنے ساتھ حکومت میں شامل کرکے اپنے کندھوں پر سوار کر لیا ہے۔جبکہ وہی لوگ حکومت سے مراعات پر مراعات حاصل کرنے کے بعد ہر آئے دنوں حکومت کو بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں۔اور جب آہندہ انتخابات کا وقت آئے گا تو یہی نام نہاد سیاسی پرندے اڑ کر کسی اور قصر کی منڈھیر پر جا بیٹھیں گے۔اس لئے کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اپنے مخلص اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور کامیابی کے بعد سکون و آرام سے اپنے ایجنڈے کے مطابق ملک میں ضروری اصلاحات بروئے کار لاتے۔لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
اب ہم پاکستان میں مروجہ نظام انتخاب کی طرف آتے ہیں‘جسے پاکستان کے سیاستدان جمہوری نظام کہتے نہیں تھکتے ہیں۔اسے جمہوری نظام کہنا نہ صرف جمہوریت کی تذلیل ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانیوں اور دین اسلام کی بھی تذلیل ہے۔پاکستان میں مروجہ نظام انتخاب ایک سرمایہ دارانہ نظام ہے۔اس نظام کے تحت الیکشن میں حصہ لینے والے سیاستدان انتخابات پر لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کرکے حکومتی ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔ہم دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا پاکستان کے سیاستدان اتنی بڑیسرمایہ کاری صرف عوام کی خدمت کے جذبہ کے تحت کرتے ہیں؟ جو کہ ایک ناممکن بات ہے‘ جبکہ ان کے مد نظر اقتدار میں آ کر قومی خزانے کو لُوٹنا اور حکمرانی کے مزے لینا ہوتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک یہ طبقہ اقتدار میں آتا رہے گا تو اس سے کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔کیونکہ اس مروجہ نظام کے تحت صرف فیوڈل‘ جاگیر دار‘ کرپٹ سرمایہ دار سیاسی طبقہ ہی بر سر اقتدار آتا رہے گا اور اس طبقہ کی ملک و قوم کے ساتھ ہمدردی کی مثالیں پوری قوم گزشتہ74سالوں سے دیکھتی چلی آ رہی ہے۔اس لئے ہمارے خیال میں جب تک ملک میں اس مروجہ نظام انتخاب کو خیر باد کہہ کر یہاں پر متناسب نمائندگی کا نظام انتخاب متعارف نہیں کرایا جاتا تو ملک میں اصل جمہوریت کی طرف پیش قدمی ممکن نہیں ہو سکتی۔متناسب نمائندگی کا نظام انتخاب ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت عوام کسی شخصیت کے بجائے اپنی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ گویا اس نظام کے تحت کسی قسم کا شو بزنس نہیں ہوتا اور اصل بات یہ ہے کہ متناسب نمائندگی کے تحت ہر سطح کا محب وطن‘ تعلیم یافتہ‘ با کردار اور بے لوث امیدوار جو اپنے دل و دماغ میں قومی‘عوامی اور اسلامی جذبہ خدمت کی تڑپ رکھتا ہو حصہ لے سکتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں دولت کی نمائش اور بے جا اشتہار بازی نہیں ہوتی کیونکہ الیکشن کمشن نے ہر قسم کی فضول خرچی پر پابندی لگا رکھی ہوتی ہے۔اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں میں تعلیم یافتہ‘ بے لوث و محب وطن اور قومی جذبہ رکھنے والے لوگ شامل ہو کرملک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہی ایک واحد راستہ اور طریقہ ہے جس سے ملک بھر سے خون کے دھبوں کے انمٹ نشان دھوئے جا سکتے ہیں۔متناسب نمائندگی ایک ایسا صاف و شفاف نظام انتخاب ہے جس کے ذریعے ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کی نمائندگی اسمبلیوں میں ہو سکتی ہے۔ملک کی پارلیمنٹ کے نمائندے باہمی مشاورت سے ایک ایسا طریقہ وضع کر دیتے ہیں کہ جو سیاسی پارٹی مثال کے طور پر پانچ یا سات فیصد سے کم ووٹ حاصل کرے گی تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی کیونکہ وہ جماعت قومی نمائندگی کا ٹارگٹ پورا نہیں کر سکی اور جب تک وہ جماعت اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کرے گی تو اسے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔اس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں رکنیت کیلئے سیاسی پارٹیوں کیلئے ووٹ کا ایک تناسب قائم کیا جائے گا‘یعنی مثال کے طور پر یہ طے ہوتا ہے کہ 50ہزار ووٹوں سے ایک ممبر اسمبلی متخب ہو گا تو اس تناسب سے اگر کسی جماعت نے پانچ لاکھ ووٹ حاصل کئے ہیں تو اس جماعت کی انتخابی لسٹ کے مطابق اس کی انتظامیہ اپنے پہلے دس ممبران کو اسمبلی کیلئے منتخب کر لے گی‘ اور اگر پارٹی کی انتخابی لسٹ میں سے کسی امیدوار کو ذاتی ”پرسنل“ زیادہ ووٹ حاصل ہوتے ہیں تو وہ امیدوار منتخب ہو جائے گا خواہ اس کا نام ووٹر لسٹ میں سب سے آخر یا درمیان میں ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ایسے امیدوار کو خصوصی آنرز دی جاتی ہے کیونکہ اس کے چاہنے والے ووٹروں کی تعداد زیادہ ہے گویا ہر دل عزیز امیدوار کو فوقیت دی جاتی ہے۔اس طرح سے آنے والی اسمبلی میں کم و بیش تمام پارٹیوں کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔یعنی سیاسی پارٹی کی ووٹر لسٹ میں سے تمام الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے ووٹوں کو جمع کر لیا جاتا ہے اور پھر مقرر کردہ تناسب کے حساب سے پارٹی کے اہل نمائندوں کو اسمبلی کیلئے منتخب کر لیا جاتا ہے۔اس طرح ہر ایک سیاسی پارٹی کی کم و بیش نمائندگی ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں رائج مروجہ نظام انتخاب میں سب سے بڑی قباعت یہ بھی ہے کہ اگر کسی حلقہ انتخاب میں ووٹرز کی تعداد دو لاکھ ہے اور اس حلقہ میں تین امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو ان میں سے اگر ایک امیدوار 50ہزار ووٹ حاصل کرتا ہے‘ دوسرا 70ہزار اور تیسرا 80ہزار ووٹ حاصل کر لیتا ہے تو ملک میں مروجہ نظام کی رو سے 80ہزار ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دے کر اسمبلی میں بھیج دیا جائے گا لیکن باقی دو امیدوار جنہوں نے پچاس ہزار اور ستر ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں‘ وہ اتنا سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود گھر بیٹھ جائیں گے اور ان دونوں کے ناموں کے ساتھ سابقہ امیدوار اسمبلی کا ٹائٹل لگا دیا جاتا ہے۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں امیدواروں کو جن افراد نے پچاس اور ستر ہزار ووٹ دیئے ہیں تو ان ایک لاکھ بیس ہزار ووٹروں کی نمائندگی اسمبلی میں کون کرے گا؟ہم پاکستان کے بڑے بڑے دانشوروں‘ جگادری سیاستدانوں اور اینکر پرسنوں سے دریافت کرنے کی جسارت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا ملک میں اس مروجہ نظام انتخاب کو آج کے نام نہاد سیاستدانوں کے بقول جمہوری نظام کہا جائے گا؟ کیا یہ عوام کے اتنے بڑے طبقے سے نا انصافی نہیں ہے؟در اصل یہی تو غلط نظام ہے جس سے ملک میں نا انصافی اور آمریت کو فروغ اور تقویت ملتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک سماجی طاقتوں کے گماشتوں نے اصل جمہوریت کو ملک میں پنپنے ہی نہیں دیا اور وہ اسی غیر جمہوری استحصالی نظام کو جمہوری نظام کی رَٹ لگا ئے ہوئے ہیں۔کیونکہ اگر ملک میں صحیح معنوں میں متناسب نمائندگی کا نظام انتخاب رائج کر لیا گیا تو پھر ان نام نہاد سیاستدانوں کو جو آمریت اور ڈکٹیٹرشپ کے پروردہ ہیں انہیں کون گھاس ڈالے گا؟
دراصل افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ملک میں جب کبھی انتخابات ہوتے ہیں تو ملک کی درجنوں چھوٹی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیڈروں اور نمائندوں نے ملک میں مروجہ نظام کے خلاف کبھی آواز تک نہیں اٹھائی‘جبکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام میں کامیابی ممکن نہیں ہے۔ناکامی کے بعد منہ بسارے گھروں میں بیٹھ کر چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں یا پھر دھاندلی اور فراڈ الیکشن کاواویلا کرکے دلوں کو تسلی دے لیتے ہیں۔اصل میں یہی تو لوگ ہیں جو کرپشن اور رشوت سے کمائی ہوئی دولت کو الیکشن میں استعمال کرکے ایک قسم کا جوا کھیلتے ہیں‘یعنی اگر کامیاب ہو گئے تو وارے نیارے ورنہ خرچ ہونے والی دولت کونسی ان کے خون پسینے کی کمائی تھی؟در اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پاس قومی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کا کوئی معقول ایجنڈہ ہی نہیں ہے۔ان کی یہ روٹین بن چکی ہے کہ چلو حرام کی کمائی ہے‘ جوا کھیلتے ہیں اگر کامیاب ہو گئے تو وارے نیارے انتخابات میں لگائی ہوئی دولت سود کے ساتھ وصول کر لی جائیگی۔دراصل پاکستان کی سیاست میں کلچر ہی ایسا بن چکا ہے کہ اپنا الو سیدھا کرو‘عوام جائیں کرکے پوری قوم کو اپنی قابلیت اور انرجی آزمانے کا موقع فراہم کریں گے۔
ملک بھر کے 22 کروڑ عوام کو اپنے حقوق کی بحالی اور حصول کیلئے اٹھنا ہو گا اور انہیں اپنی آواز کو بلند کرنا ہو گا۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ خود کشیوں کے ذریعے حرام موت مرنے سے جہنم کا ایندھن بننے کی بجائے ان لٹیرے حکمرانوں سے اپنے جائز حقوق چھیننے کی جدو جہد کریں۔ملک پر اس قبضہ گروپ کی چکنی چپڑی باتوں اور بلند باغ نعروں اور وعدوں سے خیر کی توقع عبث ہے‘ نظام کی تبدیلی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں‘ اپنے وطن کی بہتری اور ترقی کیلئے اپنی جدو جہد کو تب تک جاری رکھیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں کہ جب تک تمہیں اپنی جائز منزل اور بنیادی حقوق حاصل نہیں ہو جاتے۔ہم ایک بار پھر پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے درخواست کرتے ہیں کہ جرائتمندانہ طریقہ اپنائیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ اہل صحافت کے کندھوں پر آج بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔میڈیا کے نمائندے پورے ملک میں شہر شہر‘ قریہ قریہ‘ اور گاؤں گاؤں پھیل جائیں اور قوم کو ان جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ سرمایہ داروں اور کرپٹ مافیا اور بیوروکریسی کے آہنی ہتھکنڈوں سے نجات دلانے کیلئے اپنا فرض نبھانے کی کوشش کریں۔
پاکستان کے نام نہاد سیاستدانوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا کر اسے گروہوں‘ ٹکڑیوں اور مسلکی بنیادوں میں تقسیم کرکے اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کر رکھا ہے۔اور قوم کو شعور و آگہی سے ہمکنار کرنا میڈیا کا اولین قومی فرض بنتا ہے۔ہمیں پاکستان کی ترقی کیلئے رکاوٹ بننے والے عناصر کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہونا ہو گا۔پاکستان ہماری آن ہے‘ پاکستان ہماری پہچان ہے اور اس کی حفاظت ہمارا ایمان ہے۔اگر جئیں گے اور مریں گے تو صرف پاکستان کی حفاظت اور شان کیلئے۔
اب ہم موجودہ حکومت کے سربراہ اور تحریک انصاف کے چیئرمین وزیر اعظم عمران خان کے ویژن اور ان کی طرف سے مملکت خدا داد پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے نفاذ اور پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز حکومت میں ڈھالنے کے انقلابی اعلان کی طرف آتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ہر خطاب میں سکنڈے نیویا کے ممالک یعنی ڈنمارک‘ناروے اور سویڈن کے طرز حکومت کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا ہر شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا محض زبانی جمع و خرچ سے ملکوں کے نظام تبدیل کئے جا سکتے ہیں یا اس کیلئے کسی مثبت تبدیلی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔؟ایک عرصے سے قوم کے سامنے نام تو ریاست مدینہ اور ڈنمارک کی فلاحی ریاست کا لیا جا رہا ہے۔لیکن وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو تقریباً تین سال کا عرصہ بیتنے کو ہے لیکن ابھی تک ان کے کسی دعویٰ کی جانب پیش قدمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں تک ریاست مدینہ کا تعلق ہے تو وہ ریاست اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ پیغمبر حضرت محمد ﷺ اور آپ ؐ کی تیار کردہ صحابہ کرام ؓکی جماعت کی بے لوث جدو جہد اور کردار کی وجہ سے قائم ہوئی تھی جو موجودہ دور میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان یا دنیا کی کسی بھی اسلامی مملکت کی طرز سیاست ریاست مدینہ جیسی نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان میں اسلامی اور قرآنی نظام کی جانب کوئی پیش قدمی کی جا رہی ہے۔جس ملک میں نظام حکومت غیر جمہوری استحصالی اور غیر اسلامی ہو وہاں پر ریاست مدینہ کے ساتھ تشبیع دینا گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے۔اس لئے ہم پاکستان کے سیاستدانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام تو پہلے ہی سے سیاستدانوں کے جھوٹے اور بے معنی نعروں اور وعدؤں سے تنگ آ چکے ہیں۔کیا اب تحریک انصاف کی حکومت کا ریاست مدینہ کا نعرہ بھی سابقہ سیاسی پارٹیوں کی طرح روٹی کپڑا اور مکان کی طرح کا تو نہیں ہے؟کیا اب ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر پاکستان کے معصوم مسلمانوں کے جذبات کو ممیز کئے جانے کا ایک نیا منصوبہ تو نہیں؟اگر موجودہ حکومت کا یہ نعرہ پاکستان کا مقصد کیا ”لا الیہ الاللہ“کے مطابق اسلامی قانون کے سانچے میں نہیں ڈھالا جاتا تو ریاست مدینہ کا یہ نعرہ بھی پیپلز پارٹی کی طرح محض ایک سیاسی نعرہ ہو گا جو وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود دم توڑ جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان یورپ اور خصوصاً ڈنمارک کے طرز حکومت کا ذکر کرتے رہتے ہیں‘ہمارے خیال میں اگر وزیر اعظم پاکستان میں سکنڈے نیویا جیسا ویلفیئر حکومتی نظام رائج کر دیں تو یہ بھی کسی حد تک ریاست مدینہ کے طرز حکومت کی جانب ایک معقول قدم ہو گا۔راقم الحروف گذشتہ پانچ عشروں سے ڈنمارک میں مقیم ہونے کی وجہ سے قدرے تفصیل کے ساتھ وہاں پر رائج نظام حکومت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ڈنمارک میں پارلیمانی جمہوری نظام حکومت رائج ہے۔اور وہاں پر تقریباً درجن بھر سیاسی پارٹیاں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور ڈنمارک میں متناسب نمائندگی کا نظام انتخاب بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ملک میں متناسب نمائندگی کے ضلعی نظام کے بارے ہم اوپر مختصر طور پر تحریر کر چکے ہیں۔یہاں پر ملک کی تمام ضلعی حکومتیں عوام سے باقاعدہ ٹیکس وصول کرکے وہ رقم قوم کے ویلفیئر ریاستی نظام پر صرف کرتی ہیں۔یعنی ڈنمارک (سکنڈے نیویا) کی ریاست بچے کی پیدائش سے لیکر اس کی آخری عمر تک مکمل تعلیم‘ صحت و علاج اور ہر طرح کی دیکھ بھال کی مکمل ذمہ دار ہوتی ہے۔گویا ڈنمارک کی ریاست اپنے باشندوں کو ماں کی طرح پالتی ہے۔بچے کی پیدائش پر ریاست ماں و باپ کو 52ہفتے کی چھٹیاں بمعہ تنخواہ دیتی ہے جو میاں بیوی اپنی اپنی سہولت کے مطابق چھٹیاں استعمال کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ اگر ماں باپ نے کام پر جانا ہو تو بچے کو ”ڈے کیئر سسٹم“ میں ہر طرح کی نگہداشت‘ خوراک وغیرہ کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ڈنمارک (سکنڈے نیویا ممالک) میں ہر کسی کو ابتداء سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک بالکل مفت تعلیمی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ہر قسم کی بیماری کے علاج معالجہ کی مکمل اور مفت سہولتیں موجود ہیں۔تعلیم اور صحت کے معاملہ میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاتی‘ یعنی ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرح ہر گز نہیں۔ ڈنمارک میں یکساں تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر ہیں۔کسی طور بھی مزدور اور حکمران کےدرمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔یعنی ڈنمارک میں ہر کسی کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل ہیں۔اور یہاں پر کرپشن اور رشوت‘ اقربا پروری اور سفارش وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے ڈنمارک دنیا بھر میں ایک خوشحال افراد کی ریاست ہے۔ڈنمارک کا ویلفیئر نظام جامع وسیع و کشادہ ہے‘ یہاں پر بے کاری‘ بیماری و معذوری‘بڑھاپا اور زندگی گزارنے کے تمام ذرائع بغیر کسی خرچ اور سفارش کے ملک کے تمام باشندوں کو حاصل ہیں۔گویا سوسائٹی معاشرہ کی بہتر نشوو نما کیلئے عوام کو مفت سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ریاست کے ہر شہری کو اس کے تعلیمی معیار کے مطابق کام مہیا کیا جاتا ہے۔گویا ڈنمارک کے تعلیمی ادارے اپنے طالب علموں کو علم و حکمت کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں۔
ڈنمارک کی اکانومی اس حد تک مضبوط ہے کہ وہ ایڈوانس انڈسٹریل سیکٹر اور ایگریکلچرل (زرعی)سیکٹر میں بخوبی حصہ لے رہی ہے۔گویا ڈنمارک کی اکانومی گورنمنٹ کے فلاحی منصوبوں میں برابری کی سطح پر اور عوام کے رہائشی اسٹینڈرڈ پر پورا اترتی ہے۔جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ڈنمارک میں متناسب نمائندگی کا نظام انتخاب رائج ہے‘اس نظام کے تحت ملک بھر میں ہر چار سال کے بعد وفاقی اسمبلی اور بلدیاتی (ضلعی) حکومتوں کے انتخابات الگ الگ کرائے جاتے ہیں۔وفاقی پارلیمنٹ میں ملک کیلئے داخلہ‘ خارجہ‘ دفاع‘وزارت ٹیکس‘ وزارت انصاف‘ وزارت مالیات‘ کلچرل منسٹری او ر دیگروزارتیں مخصوص کی جاتی ہیں۔ یہ تمام وزارتیں صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہیں جنہوں نے اس شعبہ میں باقاعدہ تعلیم اور مہارت حاصل کی ہوتی ہے ایسے نہیں جیسے پاکستان میں جسے چاہا کان سے پکڑ کر سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے اور کام نہ کر سکنے کی وجہ سے راتوں رات تبدیل کرکے کہیں اور ایڈجسٹ کر دیا جاتا ہے اور اس طرح ملک قومی سرمایہ تو خرچ ہوتا ہے لیکن ترقی بالکل نہیں ہوتی۔ جبکہ ڈنمارک کے منتخب افراد اسمبلی میں باقاعدہ قانون سازی کر نے کے بعد مکمل اختیارات ضلعی حکومتوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ہر ایک ضلع میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ممبران باہمی مشاورت سے اپنا ایک چیئرمین (میئر) منتخب کرتی ہیں گویا ضلعی چیئرمین اکثریتی پارٹی سے ہی چنا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دیگر عہدے داروں کا چناؤ بھی میرٹ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔وفاقی اسمبلی کے ایماء پر ہر ضلعی حکومت اپنے ضلعی عوام پر ہر کسی کی آمدنی کے مطابق ٹیکس عائد کرتی ہے۔اور حاصل کردہ ٹیکس میں سے کچھ حصہ وفاقی حکومت کو بھی دیا جاتا ہے۔اور باقی ٹیکس ضلعی و بلدیاتی حکومت ضلع بھر میں تعلیمی شعبوں‘ صحت‘ہسپتالوں‘ سڑکوں‘پلوں ‘پولیس اور دیگر ضروری امور پر صرف کرتی ہے۔وفاقی حکومت ایک کمیٹی تشکیل دیتی ہے جو ضلعی حکومتوں کو کنٹرول کرتی ہے اور اگر کبھی ضلعی حکومت کو کسی اہم منصوبے کیلئے مزید سرمایہ کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وفاق ضلعی حکومت کی مدد بھی کرتاہے۔گویا ضلعی حکومتیں پورے ملکی نظام کو احسن طریقے سے سنبھالتی ہیں۔
ڈنمارک میں کسی فیکٹری مالک‘ کاروباری ادارے اور ہر شعبہ میں کام کرنے والے آفیسرز‘ مزدور وں‘ تمام سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین‘حکومتی عہدے داروں ‘ایم این اے اور حتیٰ کہ ملک کے وزیر اعظم‘وزراء اور بادشاہ تک کو ٹیکس میں کسی قسم کا استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ہر کس و ناکس کو اپنی اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس کی شرح ادا کرنے کی پابندی ہے۔ٹیکس منسٹری اور حکومت سب کچھ معاف تو کر سکتی ہے لیکن ٹیکس نہ دینے والوں کو قبر تک چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ڈینش ٹیکس ایجنسی کو عموماً تمام ٹیکس دہندہ کی آمدن اور ادا کردہ ٹیکس کی مکمل معلومات حاصل ہوتی ہیں یعنی ٹیکس اتھارٹی کو ٹیکس ادا کرنے والوں کی مکمل اطلاع بمعہ ڈاکومنٹ معلوم ہوتی ہے۔اس کے علاوہ تمام بنک اپنے اپنے کنزیومرزکے منافع اور اخراجات اور آمدن کی اطلاع بھی مہیا کرتے ہیں۔یہاں تک کہ بیماری الاؤنس اور بے کاری اولاؤنس حاصل کرنے والے افراد کی آمدنی بھی ٹیکس کو معلوم ہوتی ہے۔گویا ٹیکس دہندہ کو خود بہت کم اطلاع دینی پڑتی ہے۔سال کے آخر میں پورے ملک میں آمدن اور ٹیکس کے گوشوارے پورے حساب کے بعد عوام کے ایڈریس پر بذریعہ ڈاک یا بذریعہ ای میل ارسال کر دیئے جاتے ہیں‘جن میں ہر کسی کو ٹیکس کی کمی بیشی کا مکمل اندراج ہوتا ہے۔اگر کسی نے ٹیکس زیادہ ادا کیا ہو تو اس کے اکاؤنٹ میں رقم ارسال کر دی جاتی ہے اور کم ٹیکس دینے والوں سے باقی رقم وصول کر لی جاتی ہے۔
ڈنمارک میں ٹیکس ریفارمز کے ذریعے موجودہ ٹیکس کا نظام 1903ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔کسی ویلفیئر ریاست کا مقصد ایک ایسی ریاست کی تشکیل دینا ہوتی ہے جو اپنے شہریوں کی ہر قسم کی دیکھ بھال اور ان کی مالی و سماجی سپورٹ برابری کی سطح پر کر رہی ہو اور شہریوں کی ہر طرح کی ذمہ داری پوری ہو رہی ہو۔یہاں پر نیشنل انکم ٹیکس کے تحت ملازمین یا خود ساختہ کاروبار کے حامل افراد کی طرف سے گورنمنٹ کو ایک مخصوص فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔کام کرنے والوں کی آمدنی کی کمی یا زیادتی کے حساب سے ٹیکس میں ردو بدل کیا جاتا ہے۔ڈنمارک کی فلاحی اور سوشل ویلفیئر ریاست میں دیگر امور کے علاوہ یہاں پر بسنے والے باشندوں کو مختلف ضروری سہولتوں کیلئے ان کی طرف سے ادا شدہ ٹیکس کا عمل دخل ہے اور یہاں پر ہر شہری کو بیکاری اور بیماری کی صورت میں برابر مدد فراہم کی جاتی ہے۔ہر بچے کیلئے سکول جانا لازمی ہے اور سب کو اپنی تعلیم مکمل کرنا ہوتی ہے۔یہاں پر ہر شہری کو میڈیا انفارمیشن اور لائبریری تک رسائی میسر ہوتی ہے۔یعنی کہ ہر طبقہ کے شہریوں کو ضرورت کی ہر سروس مہیا کی جاتی ہے۔
ڈنمارک میں پروگریسو (ترقی پسند ٹیکس)سسٹم پایا جاتا ہے یعنی بتدریج بڑھنے والا اور ترقی کرنے والا سسٹم ہے۔ تمام ڈینش شہری عوامی حلقوں میں ٹیکس کی ادائیگی کی وجہ سے اصولی طور پر مدد حاصل کرتے ہیں۔ٹیکس کی مد میں وصول کردہ فنڈز کو ڈینش سوسائٹی میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر ویلفیئر اسٹیٹ پینشن‘ بچوں کی مدد اور پبلک کے شعبہ میں ہر شہری ادارے سکولز‘ ہسپتال‘ لائبریری اور پولیس وغیرہ۔ڈینش ٹیکس نظام پروگریسو ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی زیادہ آپ کی آمدنی ہو‘اسی حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔گویا دیگر بہت سے ممالک میں ڈنمارک کی نسبت کم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ڈنمارک جہاں پر ضلعی و قومی حکومتوں نے دنیا کا بہترین نظام رائج کیا ہوہے۔یہاں پر وافر قدرتی ذرائع و وسائل نہ ہونے کے باوجود انہوں نے ملک بھر میں ایک اعلیٰ نظام ِ حکومت قائم کر رکھاہے۔اور ملک بھر میں اپنا ٹیکس نظام اس خوبصورتی کے ساتھ لاگو کر رکھا ہے کہ ہر ٹیکس دہندہ کو گھر بیٹھے اس کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔اور عوام کثیر ٹیکس ادا کرنے کے باوجود مطمئن اور خوش ہیں کیونکہ انہیں ہر قسم کی بنیادی ضروری سہولتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ادھر پاکستان کی ریاست جسے اسلام کے نام یعنی کلمہ توحید ”لا الہ الا اللہ“کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن یہاں پر ملک کا نام تو اسلامی ہے لیکن نظام حکومت غیر اسلامی ہے‘ جبکہ ڈنمارک (سکنڈے نیویا) ریاست غیر مسلم ہے لیکن وہاں پر رائج نظام کو وہ لوگ ”عمر ؓ“‘لاء کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔حکومت پاکستان کو چائیے کہ وہ باقاعدہ ڈنمارک کے نظام حکومت کا مطالعہ کرے تو اسے وہاں کی ترقی کا راز معلوم ہو جائے گا۔
ادھر پاکستانی قوم ہے جسے قدرت نے اہک نہایت ہی خوبصورت و حسین ترین قدرتی نعمتوں سے مالا مال خطہ ء زمین عطا فرمایا ہوا ہے۔ہمارے ہاں سمندر‘دریا‘پہاڑ ‘ ریگستان‘ جنگل اور زرخیز زمین اور قدرتی وسائل موجود ہیں۔یہاں پر انسانی ضرورت کی ہر چیز یعنی تیل‘گیس‘کوئلہ‘ لوہا‘ نمک‘ سونا‘تانبہ اور ہر طرح کے اناج و پھل وافر مقدار میں موجود ہیں۔چار موسموں پر مشتمل ریاست پاکستان مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا ایک حسین اور بے بہا تحفہ ہے۔سر زمین پاکستان پر بسنے والے غیور‘ بہادر ‘ ذہین‘ جفاکش باشندے جو ہزاروں برسوں سے ارتقاء پذیر تہذیب و تمدن‘ دانش و فراست کے حامل بزرگ اور مشکلات کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرنے والے عوام موجود ہیں‘ لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ اس حسین و جمیل خطہ زمین کو ایک جمہوری اسلامی اور فلاحی ریاست میں تبدیل نہیں ہونے دیا گیا۔جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے ہمیں بہترین راہنما اصول دیئے‘ ایسے راہنما اصول و ضوابط جو اسلام کی اصل بنیاد ہیں۔لیکن ہمارے ہاں ایک مہذب ریاست کی طرح کا کوئی قانون و آئین نہ بن سکا۔ایک ایسا آئین جو کسی فرد واحد کا بنایا ہوا نہ ہوبلکہ ایک ایسا آئین و قانون جو صحیح معنوں جمہوری اور اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ جمہوری آئین وہ ہوتا ہے کہ جہاں پر ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ و نسل ‘ مسالک و مذہب‘ قومیت اور علاقائی و لسانی لحاظ سے مکمل طور پر اور مساوی بنیادی اور جمہوری حقوق کی ضمانت موجود ہو۔جبکہ ایک فلاحی اور مہذب ریاست تو وہی ہوتی ہے جہاں حکومت بلا امتیاز آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض انجام دے اور ہر ایک شہری کو بغیر کسی تاخیر کے عدل و انصاف تک رسائی حاصل ہو۔
پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کے نعرے بلند کرنے والی ہر حکومت نے عوام کے جذبات کی عکاسی کرنے کی بجائے الٹی ان کی دل آزاری ہی کی ہے۔اور عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی تجوریوں کو ہی بھرا ہے۔یہ سلسلہ گذشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور انتخابات سے قبل سیاستدانوں کے خوش کن نعروں اور وعدوؤں کی کبھی بھی تکمیل نہیں ہو ئی اور عوام ہر دفعہ سہانے سپنے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے ہی گراس روٹ جمہوریت کی ابتداء کی جا سکتی ہے۔در اصل یہی وہ نظام ہے جو اصل جمہوریت کی طرف ایک موئثر سیڑھی کا درجہ رکھتا ہے۔اگرفیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں جاری بلدیاتی نظام کو اب تک ضروری ترامیم کے ساتھ جاری رکھا جاتا تو آج پاکستان میں ایک مثالی جمہوری نظام کی داغ بیل پڑ گئی ہوتی۔اور قوم گذشتہ پچاس سالہ اس جمہوری ریہرسل کی وجہ سے آج بہت سے محب وطن سیاستدانوں اور نمائندوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل بنا چکی ہوتی۔لیکن قوم کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ پاکستان سیاسی طالع آزماؤں‘جاگیر دار‘ وڈیروں‘ سرمایہ دا ر‘ وں ذخیرہ اندوز اور کرپٹ مافیا اس جمہوری نظام کی راہ میں رکاوٹ بنتے چلے آ رہے ہیں۔پاکستانی قوم کے مقدر پر مسلط یہ سیاسی شعبدہ باز نام نہاد لیڈراپنے اقتدار کے چھن جانے کے خوف سے ضلعی و بلدیاتی متناسب نمائندگی کے نظام کی حوصلہ شکنی کرتے چلے آ رہے ہیں۔اور اس نظام کے بارے میں مختلف توجیح پیش کی جاتی ہیں۔جبکہ پاکستان کے سیاستدان جس نظام کو جاری رکھے ہوئے ہیں‘ یہ سراسر غیر جمہوری اور غیر عادلانہ ہے۔اور ایسے نظام کی رو سے قائم ہونے والی حکومتوں کو جمہوری کہنا در اصل جمہوریت کی توہین ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ بلدیاتی نظام انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی ضلعی حکومتوں کو 2018ء کے قومی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت نے بلدیاتی حکومتوں کے نمائندوں کوغیر موئثر قرار دے کر گھر بھیج دیا تھا۔جبکہ دیہی یونین کونسلوں کے نمائندوں اور ضلعی چیئرمینوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں عوامی منصوبوں اور دیہی پراجیکٹوں پر کام کا آغاز کرکے عوام کی ضرورتوں کی تکمیل کے کام کا بہتر طور پر آغاز کر دیا تھا۔جس سے علاقے کے لوگ کسی حد تک مطمئن نظر آتے تھے۔اس غیر جمہوری رویے کے خلاف بلدیاتی نمائندوں نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کر رکھی تھی کہ ہمارے سابقہ معیار کو بحال کیا جائے۔اب عدالت نے دوبارہ سابقہ ضلعی نظام کو بحال کر دیا ہے اور ضلعی چیئرمینوں اور نمائندوں نے دوبارہ اپنے فرائض سنبھال لئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ چونکہ یہ بلدیاتی نمائندے سابقہ حکومتوں (مسلم لیگ ’ن‘) وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں‘اس لئے موجودہ تحریک انصاف کی حکومت ان ضلعی نمائندوں کو فنڈز مہیا کرنے میں پس و پیش میں مصروف ہے تو پھر یہ نمائندے عوامی توقعات پر کیسے اتر سکتے ہیں؟
اسی وجہ سے ہم نے اوپر ڈنمارک (سکنڈے نیویا)کی طرز حکومت کا ضلعی نظام متعارف کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ ہر ضلع کی بلدیاتی حکومت بجائے اس کے کہ وہ کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کے سامنے فنڈز کیلئے ہاتھ پھیلائے‘بلکہ اسے یہ خود اختیارات حاصل ہوں کہ وہ اپنے اپنے ضلع میں خود کار ٹیکس کا نظام رائج کرکے حاصل ہونے والا سرمایہ اسی علاقہ کی فلاح بہبود اور ضروریات پر صرف کیا جائے کیونکہ علاقے کے مسائل دیہی نمائندوں سے بہتر اور کون جان سکتا ہے؟ ملک میں منتخب ہونے والے قومی اور صوبائیسمبلیوں کے ایم این اے اور ایم پی اے اتنے بڑے بڑے انتخابی حلقوں میں نہ تو جاتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس غریبوں اور ضرورتمندوں کی اشک شوئی کیلئے کوئی وقت ہی ہوتا ہے۔لہٰذا ایسے نظام کے ہوتے ہوئے ووٹ دہندوؤں کے مسائل اور ضرورتیں کیسے پوری ہو سکیں گی؟ضلعی اور قومی انتخابات کے موقع پر ہر دفعہ مردم شماری مکمل نہ ہونے اور حلقہ بندیوں کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔
قارئین کرام:ہم ہمیشہ پاکستان میں بلدیاتی (ضلعی) متناسب نمائندگی کے نظام پر اس لئے زور دیتے ہیں کیونکہ ہر ضلع کی حکومت اپنی اپنی صوابدید اور ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام پر ٹیکس عائد کریگی‘یہ اس لئے کہ ہر ضلع میں کام اور بزنس کرنے والے دکاندار اور مزدور کو علاقے نمائندے بخوبی جانتے اور پہچانتے ہیں اور انہیں ہر کسی کی آمدنی کا اندازہ ہوتا ہے اور اس حساب سے اس نے کتنا ٹیکس ادا کرنا ہوتاہے؟اگر ان لوگوں سے وصول کردہ ٹیکس ان کے علاقہ میں ان کی نظروں کے سامنے استعمال ہو گا اور ان کو معلوم ہو گا کہ ہمارا ادا کردہ ٹیکس کوکوئی خورد برد نہیں کر رہا تو وہ اپنی آمدنی میں سے کچھ رقم ادا کرنے میں پس و پیش کیوں کریں گے؟دوسری بات جو بلدیاتی و ضلعی نظام میں سب سے اہم ہے وہ یہ کہ ہر ایک ووٹر اپنے انتخابی حلقہ کے نمائندے کے حال احوال‘ رہن سہن‘ تعلیم و کردار کے بارے جان و پہچان اور آگہی رکھتا ہے۔پھر بھی اگر آپ پہلے کی طرح برادری ازم‘ دھونس و دھاندلی اور بدمعاشی کے بل بوتے پر اپنا ووٹ ضائع کیا تو پھر بعد میں پچھتانے کا کیا فائدہ؟اس لئے ہماری درخواست ہے کہ برائے مہربانی اپنے مستقبل کی خاطر برادری ازم اور قومیت کی وبا سے باہر آ جائیں اور اپنے پیارے پاکستان کی بہتری‘ترقی اور خوشحالی کے بارے سوچیں۔آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے اور آپ کے ووٹ کا صحیح استعمال آپ کی قسمت بھی بدل سکتا ہے۔ورنہ آئندہ پانچ سال تک آپ کو پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے۔پھر بعد میں۔۔۔اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
خان صاحب: آپ نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے۔پاکستان کا آئین و قانون بنیادی طور پر بالکل اسلامی اور عوامی ہے‘اگر اس پر عمل نہیں کیا گیا تو یہ قصور پاکستان کے آئین اور قوم کا نہیں ہے۔چائیے تو یہ تھا کہ اقتدار کے پہلے دن سے ہی اسلامی و قومی اصلاحات کا نفاذ کر دیا جاتالیکن افسوس تو یہ ہے کہ نام تو لیا جاتا ہے اسلام کا اور تمام کام اس کے برعکس کئے جارہے ہیں۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں اگر آپ واقعی اسلامی ریاست مدینہ کی طرز حکومت کے خواہاں ہیں تو سب سے پہلے ملک میں متناسب نمائندگی کے شفاف اور جمہوری نظام انتخاب کا نفاذ کرنا ہو گا۔اور اس کے تحت منتخب ہونے والی ضلعی و بلدیاتی حکومتوں کو انتظامی امور اور ٹیکس وصولی کے اختیارات تفویض کرنا ہوں گے اور ہر ایک ضلع سے وصول ہونے والے ٹیکس کو اس کے عوام کے مفاد میں استعمال میں لایا جانا ہو گا۔ اور ملک میں مروجہ طریقہ کو ختم کیا جائے جس میں ضلع کے نمائندوں ناظم‘ یا چیئرمینوں اور میئرز کو فنڈز کے حصول کیلئے صوبائی اور قومی وزراء کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں کہ انہیں کہیں سے کچھ رقم (فنڈز) حاصل ہوں تو ہم اپنے اپنے ضلع میں یا اپنے انتخابی حلقوں میں کوئی تعمیری کام کر سکیں۔
اگر ملک میں ضلعی نظام کامیاب طریقے سے کام کرنے لگے گا تو پھر صوبائی حکومتوں اور ان کے تحت کڑورؤں ملازمتوں اور وزراء کی تنخوہوں اور انکی شان و شوکت پر خرچ ہونے والے اربوں روپوں کا سرمایہ بچ سکے گا۔ملک میں ترقی ہو گی تو ملازمتوں میں اضافہ ہو گا۔وزراء‘ وزیر اعلیٰ‘ گورنر‘ایم این اے اور ایم پی اے کے پروٹوکول اور ان کی رہائش گاہوں اور سرکاری گاڑیوں کے پٹرول وغیرہ پر خرچ ہونے والے کھربوں روپوں کی بچت ہو گی۔اور تمام تر ضلعی نظام کا انتظام وفاق کی طرف سے مقرر کردہ مخلص اور بے لوث نمائندوں کی زیر نگرانی عمل میں لایا جائے گا۔اس طرح سے کروڑوں‘ اربوں اور کھربوں روپوں کی بچت کرکے ملک کی ترقی اور قوم کی قسمت بدلنے اور حکومت کیلئے ملک کو ریاست مدینہ کی شکل میں ڈھالنے میں پیش قدمی کا موقع ملے گا۔صوبوں کی بجائے اگر چند اضلاح کو ملا کر ایک ایک ڈویثزن بنا کر بھی نگرانی کا عمل کیا جا سکتا ہے۔جب قومی سرمایہ ملک کی ترقی و تعمیر پر خرچ ہو گا تو ہمیں کسی بیرونی طاقت سے قرض لینے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔ پاکستان میں آج تک خود احتسابی کے عمل پر کام نہیں ہو سکا۔جب تک ملک میں فضول قسم کی تعیناتیوں مشیروں اور وزیروں کی بے معنی پوسٹوں پر پابندی نہیں ہو گی‘مثبت پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔جب دل چاہتا ہے کسی کو مشیر اور وزیر لگا دیا جاتا ہے‘خواہ اس کی تعلیم اس شعبہ کے مطابق ہو یا نہ ہو۔اور جب وہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکتا تو اسے تبدیل کرکے کسی دوسرے سفارشی کو لگا دیا جاتا ہے۔گویا سیاسی رشوت کے طور پر لوگوں کو خوش کیا جاتا ہے۔کیا اس طرح کی طرز حکومت سے ریاست مدینہ کی جانب پیش رفت کی جا سکتی ہے؟
پاکستان سے باہر یورپ بھر میں کسی سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے مفت میں رہائشگاہیں الاٹ نہیں کی جاتیں‘ہر کسی کو کرائے کے مکان یا اپنی ذاتی رہائش پر رہنا ہوتا ہے۔اور نہ ہی کسی کو ہاؤس الاؤنس اور سرکاری گاڑیاں دی جاتی ہیں۔ہر ملازم کو اپنی اپنی تنخواہ میں سے تمام اخراجات پورے کرنا ہوتے ہیں۔لیکن پاکستان میں سرکاری آفیسرز کو لاکھوں روپے تنخواہوں کے باوجود ان کو سرکاری رہائش گاہیں‘گاڑیاں‘ پٹرول اور بہت سی دیگر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔کیا یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟جب کہ کسی یورپی ملک یعنی سکنڈے نیویا میں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔اس لئے حکومت اگر ریاست مدینہ کے طرز حکومت کی خواہاں ہے تو یہ فضول خرچی فوراً بند ہونی چائیے۔اس طرح سے قومی خزانہ میں کھربوں روپے جمع ہونے سے ہمیں کسی آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے۔
پاکستان میں اگر ایک کلرک اور بنک ملازم یا کوئی مزدور اپنی تنخواہ میں گزارا کر سکتا ہے اور اپنی معمولی آمدنی سے وہ مکان کا کرایا اور بچوں کے اخراجات برداشت کر سکتاہے۔تو پھر ایک وزیر‘ وزیر اعلیٰ‘ گورنر‘ ایم این اے‘ ایم پی اے‘ ڈی سی‘ آئی جی‘ ایس پی اور دیگر افسران اپنی تنخواہوں میں گزارا کیوں نہیں کر سکے؟اگر
پاکستان میں یہی سلسلہ جاری رہا تو یاد رکھیں نہ تو ملک ترقی کر سکے گا اور نہ ہی غیر ملکی طاقتوں کے قرضوں کا طوق اور بوجھ قوم کی گردنوں سے اترے گا۔اس طرح سے قرضوں میں مزید اضافہ تو ہو سکتا ہے لیکن کمی نہیں۔کیا عوام کی سانسوں میں سانس ملانے والے قومی رہنما‘ سیاستدان اور درد دل رکھنے والے سرکاری بیوروکریٹس ملک و قوم کیلئے قربانی دینے کیلئے تیار ہیں؟خان صاحب‘ آپ جس سکنڈے نیویا کا آئے دن اپنی تقریروں میں وِردکرتے رہتے ہیں‘ وہاں پر تو کسی سرکاری ملازم کے پاس اتنی بڑی بڑی رہائش گاہیں نہیں ہیں۔جبکہ ڈنمارک (سکنڈے نیویا) حکومتی عہدے دار‘ وزراء اپنے پرائیویٹ گھروں سے سائیکلوں پر ریلوے اسٹیشن تک اور وہاں سے ٹرین میں بیٹھ کر اپنے اپنے دفاتر میں ڈیوٹی پر پہنچتے ہیں اور جن کے گاڑی کی سہولت ہو وہ خود ڈرائیو کرکے کام پر آتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ کیلئے یہ دلچسپی کا باعث ہو گا کہ ڈنمارک کے ایک وزیر اعظم (Anker Jorgensen) ایک مزدور لیڈر تھے جو ایک تین کمرے کے فلیٹ میں اپنی بیوی کے ساتھ کرائے پر رہتے تھے۔ وہ سیاسی پارٹی سوشل ڈیموکریٹ میں شامل ہو نے کے بعد پارٹی کا سربراہ بن گے اور پھر قومی انتخابات کے نتیجے میں وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہونے کے ناطے وہ ڈنمارک کے وزیر اعظم بن گے۔تو ان کو کہا گیا کہ آپ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں تو اس تین کمروں کی کرائے کی رہائش کو چھوڑ کر سرکاری رہائشگاہ میں تشریف لے آئیں تو ان کا جواب یہ تھا کہ نہیں میں اپنی زندگی یہیں گزارنا چاہتا ہوں۔ اور وہ 45 سال تک کوپن ہیگن میں مزدوروں کے علاقے میں رہائش پذیر رہے۔پھر وزیر اعظم آنکر جوہانسن لگا تار آٹھ سال تک ڈنمارک کے وزیر اعظم رہے۔لیکن وہ کسی سرکاری رہائشگاہ میں منتقل نہیں ہوئے۔ان کا کسی قسم کا کوئی پروٹوکول نہیں ہوتا تھا اور وہ صرف سرکاری اوقات میں ہی سرکاری گاڑی استعمال کرتے تھے۔ان کی پوری زندگی میں اپنا کوئی ذاتی مکان یا پراپرٹی نہیں تھی۔وہ ڈنمارک کے سب سے زیادہ پاپولر سیاستدان تھے۔ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں‘ ان کا ایک بیٹا سٹی ٹرانسپورٹ میں بس ڈرائیور تھا۔سب بچے علیحدہ رہتے تھے اور یہ دونوں میاں بیوی کرائے کے فلیٹ میں۔ان کا کوئی ملازم نہیں تھا اور وہ دونوں میاں بیوی اپنا کھانا اور گھر کا کام خود کرتے تھے۔ان کی بیوی کی وفات کے بعد وہ تنہا رہ گئے تو انہیں Old Homeمیں بھیج دیا گیا اور آخر وہ 20مارچ2016ء میں 93سال کی عمر میں وہیں پہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ اولڈ ہوم سے ہی اٹھا۔ان کا مجسمہ کوپن ہیگن کے مزدوروں کے رہائشی علاقے Sydhavenمیں نصب کیا گیا ہے جہاں انہوں نے اپنی زندگی گزاری تھی۔
خان صاحب: مدینہ جیسی ریاستیں ایسے ہی بے لوث لیڈر تعمیر کرتے ہیں۔ہمارے سامنے صرف ڈنمارک کے وزیر اعظم کی مثال نہیں ہے‘ لیکن ہمارے سامنے تو دو جہان کے والی حبیب خدا رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی کا اسوہ حسنہ ہے۔ہمیں بحیثیت مسلمان آپ ؐ کی سیرت و کردار اور اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونا ہو گا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس بُرے وقت میں بھی ریاست مدینہ کا نقشہ پیش نہ کر سکیں۔خدا کیلئے اگر رسول اللہ ﷺ اور اسلام سے محبت کا جذبہ نہیں ہے تو پھر اس معصوم پاکستانی قوم کے سامنے مدینہ پاک کو ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنا ترک کر دیں۔ورنہ پہلے سے بھی زیادہ جگ ہنسائی ہو گی۔

ریاست پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنا کچھ عطا فر دیا ہے کہ ہمیں کسی اور طرف دیکھنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہم ریاست مدینہ کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کو ایک مضبوط ریاست اور اسلام کا قلعہ بنا سکتے ہیں۔ہمیں کسی اور سے قرض لینے کی بجائے دوسروں کو قرض دینے کے قابل بننا ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی شکل دینے کیلئے ہمیں سیرت ِ نبوی ﷺ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒو علامہ محمد اقبال ؒ کے راہنما اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔
ہم ایک بار پھر عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ اگر حکومت خود انحصاری کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے اپنے بے جا اور غیر ضروری اخراجات کو کنٹرول کرے گی‘ تو قوم تو پہلے سے ہی قربانیاں دینے میں ہمیشہ سے پیش پیش رہتی ہے۔پاکستانی قوم تو پیدا ہی قربانیاں دینے کیلئے ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ کی رَسی (قرآن و سنت)کو مضبوطی سے تھام لیں اور آپس میں تفرقہ (انتشار) نہ ڈالیں۔خدا را ذرا سوچیں تو سہی کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں رسالت مآب ﷺ کی شان ِاقدس کا تحفظِ اتنا مشکل کیوں ہو گیا ہے؟خدا را اب بھی اگر ہم خود کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لیں تو انشا اللہ پاکستان دنیا کی مضبوظ اور طاقتور ترین ریاست کا روپ دھار لے گی۔ذاتیات سے باہر آئیں‘ کسی مذہبی اور سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کی بجائے ان کے فنڈز کے حصول کی چھان بین کرنی چائیے۔کسی جماعت پر پابندی لگانے سے قومی سوچ کیسے بدلے گی؟مروجہ سیاسی نظام کی بجائے ملک بھر میں متناسب نمائندگی کا جمہوری اور اسلامی نظام رائج کریں اور ملک میں ترقی اور خوشحالی کی داغ بیل ڈالیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں