وطن نیوز انٹر نیشنل

مسلم دنیا میں قیادت کا فقدان۔۔۔

ایک بار پھر مغربی طاقتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مسلم ممالک پر دباؤ بڑھارہی ہیں۔ یہ معاملہ کسی ملک کو تسلیم کرنے کا نہیں بلکہ مسلم دنیا کے ایمان کے سینے میں خنجر گھونپنے کا ہے۔ اسرائیل کا وجود مسلم دنیا کے جسم میں پل پل پھیلتے ناسور جیسا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر اسرائیل کو قائم کرکے مغربی طاقتوں نے مسلم دنیا کے لیے ایک مستقل نوعیت کی اذیت کا سامان کیا۔ اسرائیل کے ذریعے مسلم دنیا کو اذیت دینے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں جو نفرت پیدا ہوئی تھی، اس نے یہودیوں کو بہت بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارنے کا سامان کیا۔ جرمن نازیوں نے یہودیوں سے صدیوں کے دوران پلنے والی نفرت کے تحت انتقام لیا۔ اگر یہودیوں کا یہ دعوٰی درست بھی تسلیم کرلیا جائے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنوں کے ہاتھوں ۶۰ لاکھ یہودی موت کے گھاٹ اترے تھے تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں کو سب سے زیادہ نفرت کس سے ہونے چاہیے تھی؟ ظاہر ہے، جرمنوں سے۔ جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس ہے۔ مسلمانوں نے تو یہودیوں کو یوں سرعام نفرت کا نشانہ کبھی نہیں بنایا۔ یہودیوں کی نظر میں اگر انتقام لازم تھا تو پھر جرمنی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ جرمنوں کو سبق سکھانے کی ضرورت تھی مگر ہوا کچھ اور۔ مغربی قوتوں نے یہودیوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے مسلمانوں سے ناانصافی برتی اور یوں فلسطین کے سینے میں اسرائیل کے نام کا خنجر گھونپ دیا گیا۔
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ یہودیوں کو اسرائیل میں بساکر فلسطینیوں کی شدید ترین حق تلفی کی گئی ہے۔ اب بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ پوری اسلامی دنیا اسرائیل کو تسلیم کرلے۔ اسرائیل کو جس طور قائم کیا گیا اور جس انداز سے اس ریاست نے مغرب کی سرپرستی میں فلسطینیوں سے شدید ناانصافی روا رکھی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اسلامی دنیا اسرائیل سے نفرت کرے اور وہ ایسا ہی کرتی آئی ہے۔ عام یہودیوں سے مسلمان اب بھی نفرت نہیں کرتے۔ مغربی دنیا میں رہنے والے یہودیوں کو مسلمانوں سے کبھی کوئی شکایت نہیں رہی۔ دنیا بھر کے مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل ایک سازش کے تحت معرضِ وجود میں لایا گیا ہے۔ اسرائیل کسی بھی طور برقرار نہیں رہ سکتا تھا مگر مغربی طاقتیں اُس کی پشت پناہ تھیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر اسرائیل کا وجود برقرار رکھنے پر توجہ دی ہے۔ اس کے لیے فلسطینیوں سے شدید ناانصافی ناگزیر سمجھی گئی تو ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے باوجود کوشش یہی کی جاتی رہی کہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کو دل و جاں سے تسلیم کرلیں۔متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے دوستی اور تعاون کا جو معاہدہ کیا ہے وہ اس امر کا غماز ہے کہ بات چیت بہت پہلے سے جاری تھی۔ جب موقع آیا تو
آ ملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
جیسی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری بہت پہلے کرلی گئی تھی اور دوستی و تعاون کے معاہدے کے تمام نکات پر بھی رضامندی یقینی بنالی گئی تھی۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے جس انداز سے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہے وہ صاف بتارہا ہے کہ میدان بہت پہلے تیار کرلیا گیا تھا۔
سعودی عرب نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اعلان شدید دباؤ کا نتیجہ ہے۔ یہ دباؤ اندرونی یعنی اسلامی ممالک کی طرف سے ہے۔ سعودی عرب مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ کا حامل ہے اس لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی قابلِ احترام ہے۔ بیشتر مسلم ممالک ہر اہم معاملے میں سعودی عرب کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایسا کرنا بالکل فطری ہے۔ بیشتر مسلم ممالک کی قیادت چاہتی ہے کہ سعودی عرب کی قیادت جو کچھ کرے وہی کچھ کیا جائے، اُسی کے نقوشِ قدم پر چلا جائے۔ ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں، اگر سعودی عرب صحیح راستے پر گامزن ہو۔ معاملات اس وقت پیچیدہ ہو جاتے ہیں، جب سعودی عرب سے اچھے اشارے نہیں آرہے ہوتے۔ سعودی قیادت کو بھی اس کا شدت سے احساس ہے۔
ایک زمانے سے مسلم ممالک مرکزی قیادت کے لیے ترس رہے ہیں۔ مسلم دنیا کی قیادت کس ملک کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، یہ سوال بہت اہم رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی شکل میں مسلم دنیا دو بلاکس میں تقسیم رہی ہے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ان دونوں کی رقابت نے کئی ممالک کو شدید ترین منفی اثرات سے دوچار رکھا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ معاملہ بہت عجیب اور نقصان دہ رہا ہے۔ یہاں سعودی عرب کی حمایت کرنے والے بھی موجود ہیں اور ایران نواز عناصر بھی۔ ایسے میں معاشرے کا منقسم ہو رہنا فطری امر ہے۔ سعودی قیادت کی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ باقی دنیا سے معاملات طے کرنے میں مسلم ممالک اس کی طرف دیکھیں، اس کی پالیسی کو اپنائیں۔ سعودی قیادت کا جھکاؤ مکمل طور پر مغربی طاقتوں کی طرف ہے۔ امریکا نے سعودی قیادت کو مٹھی میں لے رکھا ہے۔ اس کی تمام پالیسیوں پر امریکی اثرات بالکل نمایاں ہیں۔ دوسری طرف یورپ بھی سعودی عرب کو زیرِ تصرف رکھنے پر متوجہ رہتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ سعودی عرب پر اثر انداز ہوکر باقی اسلامی دنیا پر اثر انداز ہونا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ سعودی قیادت کی پیروی کرنا ہر مسلم ملک کے لیے لازم ہے؟ اگر اس کی پالیسیاں اسلامی دنیا کے لیے مجموعی طور پر سودمند ہوں تب تو معاملہ ٹھیک ہے۔ بصورتِ دیگر سعودی قیادت کی پیروی کرنا بے عقلی اور خسارے کا سودا ہی سمجھا جائے گا۔
ڈیڑھ عشرے کی مدت میں ترکی تیزی سے ابھرا ہے۔ ترکی نے مسلم دنیا کی قیادت بھی کی ہے اور اب پھر ایسا کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس وقت ترک قوم غیر معمولی اعتماد سے مالا مال ہے۔ ترکی نے یورپ کی طرز پر غیر معمولی ترقی یقینی بناکر اسلامی دنیا کے سامنے خود کو مثال کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلم دنیا جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ ترکی نے جدید ترین علوم و فنون میں پیش رفت یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ یہ سب کچھ یورپ کی پیروی کرتے ہوئے ممکن ہوسکا ہے۔ ترکی میں عمومی طرزِ رہائش یورپی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس نے اپنی تہذیب اور اقدار کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ترکوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ انہوں نے مسلم دنیا کی قیادت کی تھی اور اگر موقع ہاتھ آجائے تو اس دور کو دہرانے کی بھرپور کوشش کی جاسکتی ہے۔ اور شاید وہ موقع آچکا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان ایک ایسے لیڈر بن کر ابھرے ہیں جو بعض اہم معاملات میں مغرب کی سوچ اور مرضی کو نظر انداز کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اسرائیل کے معاملے میں انہوں نے یورپ کی ناراضی کی پروا نہیں کی اور محصور فلسطینیوں کی امداد کے حوالے سے ان کے اقدامات مسلم دنیا میں انتہائی استحسن کی نظر سے دیکھے گئے ہیں۔ بھارت کو کشمیر کے معاملے میں آنکھیں دکھانے کے معاملے میں بھی ایردوان پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے متعدد مواقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوکر باقی دنیا کو بتادیا ہے کہ کسی بھی اہم معاملے پر پین اسلامک سوچ اپنائی جاسکتی ہے۔ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرکے رجب طیب ایردوان نے ایران اور ملائیشیا کو بھی زبان دی ہے۔ ملائیشیا نسلی اعتبار سے منقسم معاشرہ ہے۔ وہاں غیر مسلم بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ ملک اب تک مجموعی طور پر خاصا پُرامن اور مستحکم رہا ہے۔ ملائیشین لیڈر مہاتر محمد نے کشمیر اور چند دوسرے معاملات میں بھارت سے ٹکرانے سے گریز نہیں کیا۔ یہ بہت حیرت انگیز بات ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ مہاتر محمد نے سویابین آئل کی برآمد کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کی حمایت میں نئی دہلی کو ناراض کرنے سے ذرّہ بھر گریز نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے فورم سے بھی انہوں نے بھارت کو لتاڑنے میں بخل نہیں دکھایا۔ اس معاملے میں ان کے جذبات کو رجب طیب ایردوان سے خاصی تحریک ملی ہے۔ ایران بھی ترکی اور ملائیشیا کا ہم نوا ہوکر ابھرا ہے۔ ان تینوں نے مسائل سے دوچار مسلم معاشروں اور زیادتی کا نشانہ بننے والی بڑی مسلم آبادیوں کے حقوق کی بات کرکے باقی دنیا کو بتادیا ہے کہ اب معاملات کو جوں کا توں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ جلد یا بدیر، مسلم دنیا کے بنیادی مسائل حل کرنے ہی سے بات بنے گی۔ اور یہ کہ مغربی دنیا کو اسلامی ممالک یا مسلم اقلیتوں سے کھلواڑ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ترکی کا ابھرنا سعودی عرب کے لیے پریشان کن ہے کیونکہ اس کی نام نہاد قائدانہ حیثیت خطرے میں پڑگئی ہے۔ سعودی عرب نے اب تک مغربی پالیسیوں کے مقابل انتہائی بزدلانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ مسلم دنیا کو بہت سے اہم مواقع پر یہ توقع رہی کہ سعودی قیادت ان کے دل کی آواز بن کر ابھرے گی، دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے مغرب سے دو ٹوک انداز سے بات کرے گی مگر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ہر اہم موقع پر سعودی قیادت نے اپنے اور خطے کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ عطا کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ یہ روش مسلم دنیا میں تقسیم کا باعث بنی ہے۔ ایران اور ترکی نے مسلم دنیا کی آواز بن کر اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے۔ یہ دونوں ممالک اب ملائیشیا کے ساتھ مل کر مغرب کو کسی حد تک منہ دے رہے ہیں، اور بھارت کو بھی۔ بھارتی قیادت اسلامی دنیا میں حق کے لیے آواز بلند کرنے کی طاقت رکھنے والے کسی بھی بلاک کے ابھرنے سے پریشان ہے۔ بھارت کے لاکھوں باشندے مسلم دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں میں بھارت کے لاکھوں مزدور، ہنر مند اور نالج ورکرز کام کر رہے ہیں۔ اگر ان ممالک میں ان کے لیے مجموعی طور پر مشکل حالات پیدا ہوگئے تو بھارتی معیشت کو غیر معمولی دھچکا لگے گا۔ بھارت میں مسلمانوں سے عمومی سطح پر زیادتیوں اور کشمیریوں سے خصوصی طور پر امتیازی سلوک روا رکھے جانے پر بھی عرب دنیا میں بسے ہوئے بھارتی باشندوں سے روا رکھے جانے حُسنِ سلوک میں اب تک کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ بھارتی قیادت کو اِس خوش کُن حقیقت کا بھی کچھ احساس نہیں۔ نئی دہلی کے پالیسی ساز یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر عرب دنیا میں بھارتی باشندوں کے خلاف نفرت کی لہر اٹھ کھڑی ہوئی تو کیا ہوگا۔
وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا کے لیے کوئی ایک ملک پوری قوت کے ساتھ کھڑا ہو اور بھرپور قائدانہ کردار ادا کرے۔ ترکی، ایران اور ملائیشیا نے ایسی ہی کوشش کی ہے۔ چند ماہ قبل کوالا لمپور میں منعقد کی جانے والی سربراہ کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں شریک ہونے سے سعودی دباؤ کے باعث گریز کیا تھا۔ بعد میں عمران خان کو ملائیشیا جاکر وضاحت بھی کرنا پڑی تھی۔ یہ سب کچھ زیادہ نہیں چل سکتا۔ پاکستان کو اس حوالے سے کوئی حتمی نوعیت کا فیصلہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ سی پیک سے جڑے منصوبوں کی بقا اور چین سے دیرپا دوستی برقرار رکھنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔
ترکی اور ایران نے مل کر ایسی فضا پیدا کردی ہے، جس میں بھارت اور دیگر علاقائی طاقتوں کے مفادات کو خطرات لاحق ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ چین کا اسلامی دنیا سے مجموعی تعلق بہت اچھا ہے۔ اس وقت کوئی ایک بھی مسلم ملک چینی مفادات کا یکسر مخالف نہیں۔ مغربی پروپیگنڈے کے باوجود مسلم دنیا میں چینی قیادت اور عام چینیوں کے لیے خیر سگالی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ اور پھر جنوب مشرقی ایشیا سے ملائیشیا بھی مسلم دنیا کے لیے توانا آواز بن کر ابھرا ہے۔ مہاتر محمد نے پیرانہ سالی کے باوجود مسلم دنیا کے اتحاد کی خاطر متحرک رہنے کو ترجیح دی ہے۔ ایسے میں ترکی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھنا فطری امر ہے۔ ترکی مسلم دنیا کا قائد رہا ہے۔ ترکوں میں قائدانہ صفات بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ مسلم دنیا سعودی عرب پر دباؤ ڈالے کہ وہ بھی ترکی کا ہم نوا ہو۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تب بھی مسلم ممالک کے پاس ترکی کی ہم نوائی کا آپشن ضرور موجود ہے۔ شمالی افریقا ایک زمانے سے امتیازی سلوک کا سامنا کر رہا ہے۔ عرب دنیا سے جڑے ہونے کے باوجود شمالی افریقا کے مسلم ممالک کو کچھ خاص ملا نہیں۔ سعودی عرب اور خلیج فارس کی متمول ریاستوں نے مسلم دنیا کے لیے مجموعی طور پر کوئی بڑا اقتصادی و سیاسی کردار ادا کرنے سے اب تک گریز کیا ہے۔ یہ سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ اگر مسلم دنیا کے بیشتر ممالک نے کوئی فیصلہ نہ کیا تو مزید خسارے سے دوچار ہوں گے۔ چین تیزی سے ابھر رہا ہے۔ اُس کے ابھرنے سے امریکا اور یورپ کے علاوہ بھارت جیسے ممالک بھی پریشان ہیں۔ بھارت اقتصادی طور پر اتنا مستحکم اب بھی نہیں کہ کسی بڑے دھچکے کو آسانی سے جھیل سکے۔ اگر امریکا اور یورپ نے راستہ بدل لیا تو سب سے زیادہ خسارے میں بھارت ہوگا۔
مسلم دنیا دو راہے پر کھڑی ہے۔ دنیا بدل رہی ہے۔ بدلتی دنیا کا ساتھ دینے کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ مسلم دنیا کی ایک مضبوط مرکزی قیادت ہو۔ مسلم دنیا کو علاقائی قیادتوں کے ذریعے بھی مستحکم کیا جاسکتا ہے مگر یہ مستقل نوعیت کا حل نہیں۔ اگر اس وقت مسلم دنیا میں، کسی نہ کسی شکل میں، مضبوط مرکزی قیادت ابھر جائے تو چین کا حوصلہ بھی بڑھے گا اور وہ زیادہ قوت کے ساتھ امریکا اور یورپ کی برتری و اجارہ داری کا طلسم توڑنے کی سمت بڑھ سکے گا۔
اسرائیل مسلم دنیامسلم قیادت

اپنا تبصرہ بھیجیں