وطن نیوز انٹر نیشنل

ایک ہفتے میں 100 پروازیں منسوخ؛ پی آئی کو کس بحران کا سامنا ہے؟


ہیڈ لائنز

ایک ہفتے میں 100 پروازیں منسوخ؛ پی آئی کو کس بحران کا سامنا ہے؟

اکتوبر 23, 2023


 فلائٹس منسوخ ہونے سے پی آئی اے سے سفر کرنے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔(فائل فوٹو)
فلائٹس منسوخ ہونے سے پی آئی اے سے سفر کرنے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔(فائل فوٹو)

پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کو اپنے مالی بحران کی وجہ سے ایک ہفتے کے دوران 100 سے زائد پروازیں منسوخ کرنا پڑی ہیں اور متعدد فلائٹس تاخیر کا شکار ہوچکی ہیں۔

ماضی میں دنیا کی بڑی ایئر لائنز میں شامل ہونے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کو درپیش حالیہ بحران کی وجہ سے وہ پروازوں کے لیے ایندھن کا بندو بست نہیں کرپا رہی ہے جس کی بڑی وجہ واجبات کی عدم ادائیگی بتائی جاتی ہے۔

پی آئی اے کو ایندھن فراہم کرنے والے ایک اور ریاستی ادارے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے واجبات کی پوری ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے ایندھن کی فراہمی محدود کردی ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے کو بڑی تعداد میں بین الاقوامی اور قومی پروازیں منسوخ کرنا پڑ رہی ہیں۔ فلائٹس منسوخ ہونے سے پی آئی اے سے سفر کرنے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

شہرام نوید، ہوٹلنگ کے کاروبار سے منسلک ہیں اور انہیں اپنے کاروبار کی غرض سے ہفتے میں کئی بار کراچی سے اسلام آباد، لاہور اور اسکردو پروزا کرناپڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دنوں پی آئی اے کی پروازوں کا منسوخ ہونا معمول کی بات ہے اور کئی مرتبہ تو بورڈنگ پاس جاری ہونے پر بتایا جاتا ہے کہ فلائٹ کینسل ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلائنٹ کینسل ہونے کی صورت میں ٹکٹ کی پوری قیمت تو واپس ہوجاتی ہے لیکن کاروباری مصروفیات کے پیش نظر ذہنی کوفت اورپھر دوسری ائیرلائن کی کسی پرواز کے انتظار سے سفر اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ مجبوراً اب دیگر ایئر لائنز کو ترجیح دے رہے ہی

پی آئی اے کی وہ پرواز جس کا انتظار 32 برس بعد بھی ہو رہا ہے

ایندھن کی جزوی بحالی

اتوار کو پی آئی اے کی جانب سے 22 کروڑ روپے کی ادائیگی کے بعد پی ایس او نے محدود پیمانے پر طیاروں کے لیے ایندھن کی سپلائی شروع کردی تھی۔

پی ایس او کی سینئر ایگزیکٹو نائلہ ارم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پیر کے روز بھی پی آئی اے نے پانچ کروڑ 90 لاکھ روپےمزید منتقل کیے ہیں جس پر پی آئی اے کو ایندھن فراہم کیا جارہا ہے۔

لیکن پی ایس او کا کہنا ہے کہ بغیر کسی رکاوٹ کے ری فیولنگ کے لیے پی آئی اے انتظامیہ کو مزید فنڈز جاری کرنا ہوں گے۔ پی ایس او نے کبھی بغیر وجہ کے پی آئی اے کو ایندھن کی فراہمی نہیں روکی بلکہ اس کے پیچھے اصل وجہ واجبات کی عدم ادائیگی ہے۔

نائلہ ارم نے مزید بتایا کہ پی آئی اے کی کریڈٹ لمٹ 15 ارب روپے ہے جو تقریباً پوری ہوچکی ہے جس کے بعد پی ایس او کے لیے اس سے زیادہ کے ایندھن کی فراہمی کی گنجائش نہیں بچی ہے۔ اس لیے پی ایس او نے پی آئی اے کو روزانہ کی بنیاد پر 15 کروڑ روپے ادا کرنے کا کہا تھا۔

ان کے بقول، پی آئی اے نے گزشتہ ہفتے کے دوران یومیہ بنیادوں پر تقریباً 9 کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔ اس کے برخلاف پی ایس او نے گزشتہ ہفتے 9 کروڑ 48 لاکھ روپے کا ایندھن روزانہ فراہم کیا۔ پی ایس او کی جانب سے 15 کروڑ روپے یومیہ ادائیگی سے بقیہ رقم گزشتہ قرضوں کی واپسی کے لیے استعمال ہونا تھی۔ تاہم پی آئی اے اب تک ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

وفاقی حکومت کیا کر رہی ہے؟

وفاقی حکومت پہلے ہی پی آئی اے کی خراب مالی حالت کے باعث، ائیرلائن کے تمام تر اثاثے فروخت کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے جس کے لیے اب فنانشل ایڈوائزری کنسورشیم کی خدمات لینے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے

پی آئی اے کا مالی بحران؛ ایئر لائن اس حال میں کیسے پہنچی۔

نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ ایئرلائن کے موجودہ قرضے اور نقصانات 713 ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں اور ائیر لائن یومیہ 50 کروڑ روپے کا خسارہ کررہی ہے۔

خیال رہے کہ اگست میں پی آئی اے انتظامیہ نے حکومت سے واجبات کی ادائیگیوں کے لیے 23 ارب روپے کا بیل آوٹ پیکیج دینے کی درخواست کی تھی۔ لیکن حکومت اسے صرف 13 ارب روپے دینے پر تیار تھی اور باقی رقم بینکوں سے قرض لے کر پورا کرنے کا کہا گیا تھا۔ تاہم پی آئی اے کے نقصانات کے باعث بینک بھی مزید قرضے دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

ایوی ایشن انڈسٹری کور کرنے والے صحافی جاوید اصغر چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پی آئی اے کی فروخت کے اصولی فیصلے کے بعد حکومت پی آئی اے کی کمزور مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مدد نہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے اور اس کے صارفین کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف نج کاری سے پی آئی اے کو موجودہ مالیاتی بحران سےنہیں نکالا جاسکتا بلکہ اس کے لیے ایک موثر اور اہل انتظامیہ کی بھی ضرورت ہے جو اس بحران سے ادارے کو بخوبی نکال سکتی ہو۔

حکومت کی اوپن ائیرپالیسی کو بھی قرضوں اور بد انتظامی میں ڈوبی پاکستان انٹر نیشنل ائیرلائن کے مالی نقصانات کی ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس پالیسی نے پی آئی اے کو سرکاری ائیرلائن ہونے کے باوجود اپنا بزنس خلیجی ممالک کی ائیرلائنز کو دینے پر مجبور کردیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک جانب پی آئی اے میں بدانتظامی، ضرورت سے زائد بھرتیوں اور سیاسی مداخلتوں نے تباہی کی تو دوسری جانب اوپن اسکائی پالیسی کی بدولت دنیا کی مختلف ائیرلائنز پاکستانی مسافر چھوٹے ائیرپورٹس سے بھی اٹھارہی ہیں لیکن پاکستان کی اپنی قومی ایئر لائن کا کاروبار سکڑ رہا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں