وطن نیوز انٹر نیشنل

لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کتنی طاقت ور ہے؟


ہیڈ لائنز

 

لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کتنی طاقت ور ہے؟

اکتوبر 19, 2023


اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے بعد یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کہیں اس جنگ میں نئے محاذ نہ کھل جائیں۔ اسرائیل اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے درمیان بھی جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں وقت آنے پر مدد کو تیار ہے۔ حماس جو ایک فلسطینی عسکریت پسند تنظیم ہے کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اسے بھی تہران کی حمایت حاصل ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ دفاع نے 15 اکتوبر کو کہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے شمالی محاذ پر جنگ شروع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اگر حزب اللہ اپنے آپ کو روکتی ہے تو اسرائیل بھی سرحد پر صورتِ حال جوں کی توں رکھے گا۔

حزب اللہ کی بنیاد

سن 1975 سے 1990 تک لبنان میں خانہ جنگی جاری رہی، اسی اثنا میں 1982 میں ایران کی سپاہ پاسدارانِ انقلاب نے حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایران کی ان کوششوں کا حصہ تھا کہ وہ 1979 کے اسلامی انقلاب کو خطے میں پھیلائے اور 1982 میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد اسرائیلی افواج کا مقابلہ کرے۔

حزب اللہ نے ایران کے شیعہ نظریات کو اپنایا اور لبنان کے شیعہ مسلمانوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی کیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ حزب اللہ ایک گروپ سے ایک بڑی مسلح قوت بن گئی جس کا لبنان کی ریاست پر بڑا اثر و رسوخ ہے۔

امریکہ اور بعض مغربی حکومتیں اور دیگر حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔

حزب اللہ کتنی طاقت ور ہے؟

لبنان میں خانہ جنگی کے بعد جہاں دیگر گروہ غیر مسلح ہوئے وہیں حزب اللہ نے اپنے ہتھیار اسرائیلی فورسز کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کیے اور برسوں کی گوریلا جنگ کے بعد 2000 میں اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

سال 2006 میں حزب اللہ نے اپنی عسکری پیش قدمی اس وقت ظاہر کی جب اس نے سرحد پار کر کے اسرائیل سے دو فوجیوں کو اغوا اور دیگر کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کو جنم دیا جو پانچ ہفتوں تک جاری رہی

حماس اسرائیل جنگ کا اختتام کب ہو گا؟ فریقین بھی لاعلم

اس تنازع کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کی طرف ہزاروں راکٹ داغے جس پر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی۔ اس لڑائی میں لبنان میں 1200 افراد جان سے گئے جب کہ 158 اسرائیلی ہلاک ہوئے جس میں زیادہ تر فوجی تھے۔

حزب اللہ کی عسکری طاقت اس وقت بڑھی جب اس کے جنگجوؤں کو شام میں تعینات کیا گیا۔ شام خطے میں ایران کا ایک اور اتحادی ہے اور حزب اللہ کی تعیناتی کا مقصد شامی صدر بشار الاسد کی باغیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کرنا تھا، یہ باغی زیادہ تر سنی مسلمان ہیں۔

حزب اللہ کے پاس جدید ہتھیار ہیں جس میں ہدف کو نشانہ بنانے والے راکٹس اور ڈرونز بھی شامل ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

سال 2021 میں حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ تنظیم میں ایک لاکھ جنگجو ہیں۔

ایران کی جانب سے حزب اللہ کو ہتھیار اور رقم دی جاتی ہے۔ امریکہ کا اندازہ ہے کہ ایران نے حالیہ برسوں میں اپنے سالانہ کروڑوں ڈالر اس کے لیے مختص کیے ہیں۔

اسرائیل اور حماس تنازع میں حزب اللہ کا کردار

حزب اللہ کا غزہ پر کنٹرول رکھنے والی حماس اور ایک اور فلسطینی عسکری گروہ اسلامک جہاد سے گہرا تعلق ہے۔

حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ وہ سات اکتوبر کو “فلسطینی مزاحمت کی قیادت کے ساتھ براہ راست رابطے” میں تھی۔ یہ وہی دن ہے جب حماس کے جنگجوؤں نے غزہ سے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا تھا۔

اس حملے کے بعد شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ میں اسرائیل میں 1400 سے زیادہ افراد ہلاک جب کہ اسرائیل کی غزہ پر جوابی بمباری میں اب تک 3000 سے زیادہ افراد جان سے گئے ہیں۔

سات اکتوبر کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل میں سرحد پار سے کئی مرتبہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ حماس اور اسلامک جہاد جو لبنان میں موجود ہیں، انہوں نے بھی پہلی مرتبہ لبنان سے اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔ ان حملوں میں 10 اکتوبر کو اسلامک جہاد کی جانب سے سرحد پار سے اسرائیل میں دراندازی بھی شامل ہے۔

حزب اللہ نے لبنانی سرحد پر اسرائیل کے متعدد نگران کیمرے تباہ کردیے

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے قومی سلامتی کے مشیر تاخی حنیگبی نے 14 اکتوبر کو کہا تھا کہ دشمن پر قابو پایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے حزب اللہ کو خبردار کیا تھا کہ اس کی کارروائی لبنان میں “تباہی” کا باعث بن سکتی ہے۔

حزب اللہ مشرقِ وسطیٰ میں دیگر ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کے لیے حمایت اور تحریک کا ذریعہ رہی ہے۔ اس نے عراق میں مسلح گروہوں کو تربیت دی اور وہاں لڑائی میں بھی حصہ لیا۔

سعودی عرب کا کہنا ہے حزب اللہ یمن میں ایران کے اتحادی حوثیوں کی حمایت میں بھی لڑی ہے۔ البتہ حزب اللہ اس کی تردید کرتی ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کا کردار

حزب اللہ کا اثر و رسوخ اس کے جدید ہتھیاروں اور لبنان کے کئی اہل تشیع کمیونٹی کی حمایت سے ہے جو کہتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کا اسرائیل سے دفاع کرتی ہے۔

البتہ لبنان کی جماعتیں حزب اللہ کی مخالفت کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے ریاست کو کمزور کیا ہے۔ تنظیم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے لبنان کو یک طرفہ طور پر مسلح تنازعات میں گھسیٹا ہے۔

تاہم حزب اللہ کے حکومت میں وزرا ہیں اور پارلیمنٹ میں قانون ساز بھی موجود ہیں۔

حزب اللہ 2005 میں شام کی جانب سے لبنان سے فورسز کے انخلا کے بعد واضح طور پر لبنان کی سیاست میں ابھر کر سامنے آئی۔ 2005 میں شام کے سابق وزیرِ اعظم رفیق الحریری کو قتل کر دیا گیا تھا، انہیں ملک میں سعودی اثر و رسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

اس معاملے پر اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ ایک عدالت نے حزب اللہ کے تین ارکان کو ان کی غیر حاضری میں قتل کے الزام میں سزا سنائی۔ البتہ حزب اللہ نے اپنے کسی بھی کردار سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو دشمنوں کا آلہ کار قرار دیا۔

2008 میں حزب اللہ اور اس کے لبنانی سیاسی مخالفین کے درمیان اقتدار کی کشمکش ایک مختصر تنازع میں تبدیل ہو گئی۔ حکومت کی جانب سے تنظیم کے عسکری مواصلاتی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے عزم کے بعد حزب اللہ کے جنگجوؤں نے بیروت کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا۔

اسٹیج پر کامیڈی کرنے والے محمد ضیف اسرائیل پر حملے کے ماسٹرمائنڈ کیسے بنے؟

بعد ازاں 2016 میں حزب اللہ کے اتحادی مسیحی سیاست دان میشال عون لبنان کے صدر بن گئے۔ واضح رہے کہ لبنان کے فرقہ وارانہ سیاسی نظام میں صدارت ایک میرونائٹ مسیحی کے پاس ہے۔

دو سال بعد یعنی 2018 میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلی۔ لیکن 2022 میں یہ اکثریت ختم ہو گئی مگر گروپ نے اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال جاری رکھا۔

سال 2020 میں بیروت کی بندرگاہ پر خوف ناک دھماکے سے دارالحکومت لرز اٹھا۔ اس معاملے پر ایک جج کی جانب سے تحقیقات کے دوران حزب اللہ کے اتحادیوں سے سوالات کیے گئے جس پر تنظیم نے جج کے خلاف ایک مہم چلائی۔

بعد ازاں اس معاملے نے 2021 میں بیروت میں مہلک تصادم کو جنم دیا۔

حزب اللہ پر مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کا الزام

لبنان کے سیکیورٹی حکام اور مغربی انٹیلی جینس کا کہنا ہے کہ حزب اللہ سے منسلک گروہوں نے 1980 کی دہائی میں مغربی سفارت خانوں اور اہداف پر خودکش حملے کیے اور مغربی باشندوں کو اغوا کیا۔

ان میں سے ایک گروپ اسلامک جہاد جس کا فلسطینی تنظیم سے تعلق نہیں ہے، کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس کی قیادت حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر امام مغنیہ کر رہے تھے۔ امام مغنیہ سال 2008 میں شام میں ایک کار بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔

علاوہ ازیں 1983 میں بیروت میں امریکی بحریہ کے ہیڈکوارٹرز کو خودکش دھماکے سے تباہ کر دیا گیا تھا۔ دھماکے میں 241 سروس مین ہلاک ہوئے تھے۔ اسی سال امریکی سفارت خانے پر بھی ایک خودکش حملہ ہوا۔ امریکہ نے اس کا ذمہ دار حزب اللہ کو ٹھہرایا تھا۔

حماس اور اسرائیل کب کب آمنے سامنے آ

1983 میں ہی بیروت میں فرانسیسی بیرکس کو بھی ایک خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا جس میں 58 فرانسیسی چھاتہ بردار مارے گئے۔

ان حملوں اور یرغمالیوں کا حوالہ دیتے ہوئے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے 2022 میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ سب چھوٹے گروہوں کی جانب سے کیا گیا جن کا حزب اللہ سے تعلق نہیں تھا۔

مغربی حکومت اور دیگر کا حزب اللہ کے بارے میں مؤقف

امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ سعودی عرب سمیت کئی امریکی اتحادی خلیجی ریاستیں بھی حزب اللہ کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔

یورپین یونین نے حزب اللہ کے عسکری ونگ کو دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں لیکن اس کے سیاسی ونگ کو نہیں۔

اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں