وطن نیوز انٹر نیشنل

الزامات کا سیاست سے گہرا تعلق!

(شیخ خالد زاہد..
جوبائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کوامریکہ کے چھیالیسویں صدر کے لئے ہونے والے انتخابات میں شکست دیدی اور اب وہ آمریکہ کے بطور چھیالیسویں صدر کا حلف بیس جنوری دو ہزار اکیس کو اٹھائینگے۔ جو بائیڈن کا تعلق امریکہ کی ڈیموکریٹک جماعت سے ہے جس کا انتخابی نشان گدھا ہے، انکی ایک اور اہم شناخت سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے نائب صدر بھی رہے ہیں۔ سیاہ فام صدر کیساتھ سفید فام نائب صدر تھے تو اپنے ساتھ سیاہ فارم نائب صدر چن لیا ہے(بہت ممکن ہے کہ ایسا اتفاقیہ ہوا ہوگا)دوسری طرف صدر ٹرمپ کیخلاف ایک بہترین ہتھیار کے طور پر بھی یہ عمل کارگر ثابت ہوتا دیکھا گیا۔یوں تو عنوان آمریکہ میں گدھوں کی حکومت بھی ہوسکتا تھا لیکن ہم خود کو اشتہار سے باز رکھنے کے عادی ہونے کیساتھ ساتھ آداب قلم کوبھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، اسلئے ایسا کرنے کی اجازت ہماری عزت نفس نے نہیں دی۔ پاکستان کو امریکہ سے ہر وقت ہی کسی نا کسی قسم کی معاونت درکار رہی ہے وقت اور حالات نے اس کلئیے کو تقریباًتبدیل بلکہ پلٹ کر رکھ دیا ہے، جس کی ایک وجہ پاکستان کی باگ ڈور ایک ایسے مخلص شخص کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جو انگریزی انگریزوں کے جیسے ہی بولنا اور سمجھنا جانتا ہے اورجو فنڈ کی منتقلی کیلئے اپنے مرضی کے اکاؤنٹ بھی نہیں بتاتا، جو نا تو کھاتا ہے اور نا ہی کھانے دیتا ہے(عمران خان صاحب کو حالات و واقعات نے مل کر شخصیت کا بھرپور تاثر قائم کرنے میں بھرپور مدد فراہم کی ہے)۔دوسری اہم وجہ جودیکھائی دیتی ہے وہ یہ کہ اب امریکہ بقاعدہ طور پر افغانستان میں ہار ماننے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوچکا ہے کیونکہ اسے داخلی طور پر بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔خارجی طور پر اکثریت دوستوں کی ہے جو بزور بندوق دوست بنے بیٹھے ہیں اب جبکہ وقت کروٹ لیتا محسوس کیا جارہا ہے اور امریکہ کی حکمت عملیوں کے نتیجے میں اپنی ساکھ کو خود ہی بہت نقصان پہنچا چکے ہیں خصوصی طور پر جانے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو امریکہ کی سالمیت کو امریکیوں کیلئے ہی مسلۂ بنا دیا۔صدارتی انتخابات سے قبل امریکہ میں منعقد ہونے والے مباحثوں میں ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن ایک دوسرے پر بھرپور انداز میں حقیقت پر مبنی الزامات لگاتے دیکھائی دیتے رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی وہ تمام حدود عبور کر چکے ہیں جو وائٹ ہاؤس کے تقدس کر برقرار رکھنے کیلئے بنائی گئی تھیں۔صدر ٹرمپ کیلئے خواجہ میر درد کا یہ شعر لکھنا مناسب دیکھائی دیتا ہے کہ
تہمت چند اپنے ذمہ دھر چلے
جس لئے آئے تھے سو ہم کر چلے
جیسا کہ اللہ رب العزت نے انسان کو پہلے ہی آگاہ کر رکھا ہے کہ وہ خسارے میں ہے اور انسان اخذ بھی کر چکا کہ وہ خسارے میں ہے تو مذکورہ میر درد کا یہ شعر اس بات کی گواہی بھی دے رہا ہے کہ جس لئے اس دنیا میں آئے تھے وہ کام کر کے جارہے ہیں۔اب اسکو سیاسی میدان میں لے آئیں تو پتہ چلتا ہے کہ بدنام ہونگے تو کیا نام نا ہوگا، یعنی اگر کسی کو غیر معمولی شہرت کی خواہش ہے اور بہت کچھ کر گزرنے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہوسکا ہے تو کوئی ایسا غلط کام کہ جس کی سنوائی خوب ہوسکے کر لیا جائے۔ دنیا کا تو ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے لیکن پاکستان میں سیاست کی داغ بیل جھوٹ سے ڈالی جاتی ہے اور جیساکہ خوب کہا گیا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے آپکو مزید سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں لیکن یہاں تو سو کی بجائے ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ جھوٹ کا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ کہانی اپنے عنوان سے ہی انحراف کر دی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایک طرف تو انتخابات کرانے کا مطالبہ انتخابات کے نتائج آتے ہی دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ زور شور سے شروع کردیا جاتا ہے، یہاں تک کہ پانچ پانچ سال تک اسی مطالبے کا طبلہ بجایا جاتا ہے۔ یعنی حکومت مخالف جماعتیں پہلے دن سے انتخابات کے غیر منصفانہ اوردھاندلی ہونے کا ڈھول پیٹنا شروع کردیتی ہیں۔ پھر پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں ماحول کیمطابق ردوبدل ہوتی رہتی ہیں، افراد وہی رہتے ہیں لیکن جماعتوں کے نام بدل جاتے ہیں اور کچھ کچھ منشور بھی بدل جاتے ہیں اور کہیں نظرئیے بدل جاتے ہیں۔بنیادی عنصر فرد ہے تو وہ تقریباً وہی رہتے ہیں یا پھر انکی اگلی نسل گلی سڑی سیاست کے مزے لوٹنے کیلئے تیار ہوجاتی ہے۔
پاکستان کو تاحال کوئی ایسانظام نہیں ملا جو سیاست کی بجائے ملک کو بچانے کیلئے ہواور جو ملک میں رہتے ہوئے ملک کیخلاف کام کرے اسے فوری طور پر سر عام تختہ دار پر لٹکانے کا مجاز ہو۔ بات کر رہے ہیں الزامات کی جس کا سیاست کیساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مفادات کی خاطر ایک ساتھ بیٹھی ہوئی حکومت مخالف جماعتوں کو ہی لے لیجئے ماضی میں کس کس طرح سے ایک دوسرے کو للکارتے رہے ہیں اور جہاں لگا کہ ذاتی مفادات سے ٹکراؤ ہوسکتا ہے تو فورا ہی رویہ تبدیل کرلیا گیا ایسے ہم آہنگ ہوگئے کہ جیسے یہ گیارہ بارہ نہیں بلکہ ملک کی ایک ہی سیاسی جماعت ہے۔ بات تو ایسی ہی ہے جن کا نظریہ بھی ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کھاؤ، کھاؤ اور کھاؤ ہے۔ جس کو کھانے کو نہیں ملے گا وہ شکائیئیتوں کا کٹورا لے کر ذرائع ابلاغ کو بلا کر جھوٹ کو سچ سچ بتا دیتے ہیں۔ہماری سیاست کا خاصہ ہے کہ ایک دوسرے پر جب تک کیچڑ نا اچھالی جائے ایک دوسرے کی کردار کشی نا کی جائے تو سیاست کر مزہ ہی نہیں آتا۔
دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ امریکہ میں ہونے والے انتخابات بھی کچھ پاکستان سے مختلف نہیں دیکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ہارنے والے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں اسکے ساتھ ساتھ دھاندلی اور غیر منصفانہ انتخابات کا راگ بھی آلاپا جا رہا ہے جوکہ کسی حال میں بھی امریکہ کے حکمت عملی سازوں کیلئے خوش آئند نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں بھی سیاسی گہما گہمی لگی ہوئی ہے کوئی اپنی دولت بچانے کیلئے نکلا ہوا ہے، کوئی اپنی سیاسی بقاء کیلئے نکلا ہوا ہے اور کوئی اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے نکلا ہوا ہے۔ یہ وہ تمام لوگ ہیں جنکا عوام کی فلاح سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ لوگ عوام کو صرف اپنی سیاسی انا کی تسکین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کراچی کی ایک نومولود سیاسی جماعت جسکے روح رواں بھی اپنی سیاسی انا کی تسکین کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور گاہے بگاہے ابلاغ کے لوگوں کو جمع کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور ان رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جن رازروں میں وہ خود بھی شریک رہے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو چلے ہی جا رہاہے اور ملک کے مفادات جو ایسی ابلاغ عامہ کو آگہی فراہم کر کے دنیا میں پاکستانیوں کیلئے شرمندگی کا باعث بننے کا سبب بنتا ہے۔ ماضی کو گھسیٹ کر کوئی حال یا مستقبل میں نہیں لاسکتا۔ ایسے تمام سیاسی مجاہدین جو فقط اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے ابلاغ عامہ میں موجود رہنے کیلئے ایک دوسرے پر نفرتوں کے تیر چلاتے ہیں۔
ہم بہت حد تک اپنی الزامات والی عادت برآمد کر چکے ہیں (امریکہ میں جیسا بیان کیا ہے) کبھی سب مل کر عوام کا بھی سوچ لیں کہ عوام کیا چاہتی ہے اور عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کس طرح سے پوری کی جاسکتی ہیں، قوم کی بحالی کیلئے بھی ایک ساتھ ہوکر کھڑے ہوجائیں۔۔ کوئی ایک سال ایسا مختص کردیں کہ جس میں صرف اور صرف عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا جائے گا۔ ایک دوسرے کی اچھائیاں بیان کرنے کا سال منا لیں۔ اپنی اپنی تنخواہوں میں سے جو زیادہ بچتا ہے وہ بھی ایک عوامی فنڈ میں جمع کرائیں اور اسکا استعمال بہترین سہولیات مہیہ کرنے کیلئے استعمال کریں۔ کوئی ایک سال تو ایسا ہو کہ جس میں عوام سیاستدانوں سے ذرائع ابلاغ کے ذرائع سے اپنی بہبود کے منصوبوں نہیں بلکہ سہولیات کی فراہمی کیلئے آگاہ کریں، انصاف کی بحالی کیلئے آگاہ کریں۔ شائد ایک سال کی مشقت سے کم از کم ہمارے سیاست دانوں کی الزام تراشی کی سیاست ختم .

اپنا تبصرہ بھیجیں