وطن نیوز انٹر نیشنل

عافیہ صدیقی: پاکستان کا امتحان.

شہبازرشید بہورو
آج کے دور میں خوشحال طبقات سے منسلک اکثر افراد اپنی ذات کو سنوارنے اورسجانے کے لئے لاکھوں روپیہ صرف کرتے ہیں.اس آرائش وزیبائش کے رجحان نے خلق خدا سے اسراف کی وہ مثالیں قائم کروائیں کہ جس کی وجہ سے شاید ملائک بھی حیرت زدہ ہیں۔اس معاملے میں تو اداکاروں اور اداکاراؤں نے حد ہی ختم کر دی ہے ۔اپنےاس بوسیدہ خاک سے بنے پتلے پر نہ جانے کیا کچھ کر کے اسے دیوی اور دیوتاؤں کی مانند سنوارتے ہیں ۔بعض اوقات مجھے اس ضمن میں خیال آتا ہے کہ اب شیطان کا اتنا کام ضرور آسان ہوا ہے کہ مخصوص مندر بنانے کے بدلے سینکڑوں مندر فیشن گھروں، سینماؤں اور کلبوں کی صورت میں خود مسلم دنیا میں قائم کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے قانونی ارتداد کے بدلے فکری ارتداد کے واقعات میں کافی اضافہ ہو رہا ہے۔مسلم ممالک بشمول پاکستان اور ترکی میں کافی تعداد میں سینما موجود ہیں ۔فحاشی اور عریانیت کے دلداداؤں کے لئے حکومتی سطح پر اعلیٰ معیار کے انتظامات کا اہتمام ہوتا ہے۔ان دلدادوں کے لئے ہیرے، موتی، سونے اور چاندی کے تمغہ امتیار نوازنے کا اعلیٰ انتظام ہوتا ہے .حکومتی عہدیداروں کے لئے یہ رنگ و روغن کے خاکی پتلے نہایت معزز ہونے کے ناطے انتہائی عزیز ہوتے ہیں۔ان کا خیال رکھنا،ان کے حقوق کی حفاظت یقینی بنانا، ان سے قربت بڑھانا، ان کو اسٹار کا لقب دینا اور انہیں اپنے حلقہ یاراں میں شامل کرنا ان کی دیرینہ خواہشات ہوتی ہیں۔ان ناچ گانے کی محفلوں کے ارکان کو معاشرے میں شہوانی حیجان پیدا کرنے کے عوض بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اور ان کے ان شیطانی کارناموں کی یاد میں بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ان کے شیطانی مجالس میں شرکت کرنے کے لئے ایک عام آدمی لاکھوں روپئے کی ٹکٹ خرید کر ‘الشترون والضلالۃ بالھدی، الشترو الحیاۃ الدنیا بالآخرۃ کا باغیانہ اعلان تک کرتا ہے ۔دولت کی ندیاں ان شیطانی کھیلوں میں بہانے والے ان ننگے اور عریاں پتلوں کو سلامی دینے والے اور ان بے حیا مجالس کی سرپرستی کرنے والے ملت کے امراء و حکام امت کے روبرو اپنے آپ کو معصوم ٹھہرائیں، حق کا علمبردار اور مصائب انسانیت کا نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ بھی کریں شاید یہ مذاق کی انتہائی مکرو شکل ہے جس کو یہ اختیار کرتے ہیں۔اس پوری تصویر کے برعکس ہماری مظلوم پاکدامن، اسلام پہ مرمٹنے والی، امت مسلمہ کا درد پالنے والی، قرآن پڑھنے اور پڑھانے والی ملت کی بیٹی زندان کی کال کوٹھریوں میں موت و حیات کی جنگ لڑرہی ہے، وحشت و دہشت کا سامنا کر رہی ہے، درد و تکلیف سے کراہ رہی ہے، بے شمار بیماریوں کی لپیٹ میں اپنا جسمانی توازن کھو بیٹھی ہے، زور زور سے سے چلانے والی عافیہ صدیقی کے لئے ان حکمرانوں کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ، نہ قربت ہے نہ محبت، نہ طاقت ہے نہ حکمت، نہ جرآت ہے نہ جذبہ، نہ غیرت ہے نہ حمیت، نہ عزت ہے نہ عظمت، نہ الفاظ ہیں نہ بیانات۔تمہارے ملک سے تمہاری بیٹی کو اغوا کیا گیا اور تم سراپا تمشائی بنے رہے یقیناََ تاریخ نے آج تک یہ شرمناک منظر کبھی نہیں دیکھا تھا جو پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہوا۔مشرف کی مردانگی کا جنازہ، اس کی فوجی وجاہت کا قتل اور اس کی غیرت دفن تب ہوئی جب عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا۔مجھے تو حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کہ اس کے بعدحکمرانوں نے عافیہ صدیقی کو اپنے الیکشن کمپین تک کا حصہ بنایا اور اس گھٹیا اور چور سیاست کا شکار بنایا جس سے شاید آج شیطان بھی شرما رہا ہے۔ایک عافیہ صدیقی کا مسئلہ حل نہ کر سکنے والی ملت سینکڑوں عافیہ صدیقی کے مسائل کیسے حل کر پائے گی!
آج نہ جانے کیوں مجھے عافیہ صدیقی کے تصورِ زندان نے رلایا،میرے دل میں طوفان کی مانند غمگین لہریں دوڑائیں ،میری آنکھوں سے دریا کی مانند آنسوں بہائے اور مجھے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کی یاد دلائی۔میری بہن عافیہ صدیقی آپ اتنی مبارک ہو کہ آپ کی یاد مجھے خدا سے قریب کرتی ہے،رسول اللہ کی یاد دلاتی ہے اور آخرت کی فکر دامن گیر کرتی ہے۔میرے رب میں اپنی بہن عافیہ صدیقی کے لئے نہایت شرمندہ ہوں کیونکہ میں بے بس ہوں، میرے پاس کوئی طاقت نہیں ،حکومت نہیں، رسائی نہیں کہ اپنی بات کہیں پہنچا سکوں ،ہاں ضرور میرے پاس قلم ہے اور اس قلم سے یہ پیغام ملت کے تمام حساس افراد تک پہنچا رہا ہوں کہ وہ جہاں بھی کہیں ہیں عافیہ کی رہائی کے لئے اپنے حصے کا کام کریں۔میرے رب تو نے ہی تو بئرِ ظلمات سے حضرت یوسف کو بچایا ،مچھلی کے پیٹ سے حضرت یونس کو رہائی دی اور حضرت موسیٰ کو فرعون کے گھر میں پناہ دی۔یااللہ عافیہ،، A’afia Siddiqi،، کی رہائی ممکن بنا دے، یااللہ ظالم امریکہ کو اس ظلم کی سزا دے اور ہماری اس آزمائش کو آسان کر دے۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کے باب میں پاکستان کی نااہلی پوری دنیا میں عیاں ہوچکی ہے۔عافیہ صدیقی کے لئے بطور ایک مضبوط وکیل کے یہ اپنا رول ادا کرنے میں کلی طور پر نامراد ہوا ہے۔عافیہ صدیقی اس دور میں مظلومیت کا نشان ہے، جس کے لئے ملکی و بین الاقوامی قانون انصاف اندھا ہو چکا ہے ۔یہ وہ عظیم خاتون ہے جو صنفِ نازک ہونے کے باوجود مرد آہن ہے ۔
عافیہ صدیقی کا جیل میں جانا پوری امت مسلمہ کی غیرت پر ایک سوالیہ نشان ہے، پوری ملت کی عالمی سطح پر حیثیت کا پیمانہ ہے، ملت اسلامیہ کی آپسی کوپریشن کو جانچنے کا آلہ ہے اور پوری ملت کی آبرو کا سوال ہے۔لیکن صد افسوس ہے کہ یہ حکام کھاتے کیسے ہیں، پیتے کیسے ہیں، چین کی نیند سوتے کیسے ہیں، رعب داب، ٹھاٹھ باٹھ کس بنا پر ہے، ان کے چہرے پہ تکبرانہ اور تفخرانہ سلوٹیں نمودار ہوتی کیسے ہیں؟ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہے کیونکہ انہیں نفس سے محبت ہے، کرسی سے لگاو ہے اور حکومت کا ذوق ہے ۔یہ وہ نہیں کہ صدیقی و فاروقی کردار اپنائیں، یہ وہ نہیں کہ قاسمی و ایوبی تلوار لہرائیں اور یہ وہ نہیں کہ حسنی و حسینی انداز اپنائیں ۔
17سالوں سے امریکی جیل میں قید عافیہ صدیقی پاکستان کے ہر حکمران کی اہلیت ،غیرت، احساس اور اخلاص کا امتحان ہے۔گذشتہ سترہ سالوں میں جس بھی حکمران نے پاکستان کی گدی پر براجمان ہونے کے لئے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ،اس نے عافیہ کی رہائی کا وعدہ اپنی قوم سے بڑی دھواں دھار تقاریر کی سوغات پیش کرتے ہوئے کیا لیکن اس کے بعد عالمی سطح پر سیاسی تدبر، غیرتِ مومن اور جذبہ خدمتِ ملت کی کمی کا چہرہ دکھا کر ابدی خاموشی اختیار کی۔ان حکمرانوں نے عافیہ کی رہائی کے لئے کچھ بھی نہ کرتےہوئے پھر بھی اپنے آپ کو قوم کا ہیرو بنا کے رکھا ہے۔کسی کو عزت کا نشان،کسی کو جرآت کا نشاں اور کسی کو قوم کا فخر جیسے القابات میں لپیٹ لیا ہے۔عافیہ صدیقی کی رہائی خارجی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہونا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے عافیہ کی رہائی الیکشن سے پہلے جیتنے کی پالیسی کا اہم رکن ہوا کرتی ہے لیکن جیتنے کے بعد امریکہ کے دباو میں عافیہ کا نام لینا بھی محال ہوجاتا ہے ۔ان لوگوں نے حکومت کے بدلے ضمیرکا، وقار کا، غیرت کا، حمیت کا اور تشخص کا سودا کیا ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ ان حکمرانوں کی جیت ہوتی ہی حریتِ عافیہ کے لئے ہے لیکن بعد میں یہ حضرات اس مقصد سےیو ٹرن لے کر گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں۔عافیہ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش ہے ۔یہ کوئی ایک سادہ معاملہ نہیں ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جائے۔ایک پاکدامن بہن غیروں کے ناجائز قبضے میں پچھلے سترہ سالوں سے چیختی اور چلاتی آرہی ہے لیکن بدنصیبوں کی دنیا میں اس کا کوئی سننے والا نہیں۔میں یہ بھی مانتا ہوں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترک مسئلہ ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے حکمران طبقے کی نااہلیاں اور عیاشیاں عافیہ صدیقہ کی رہائی کے مسئلہ کو ہر سطح پہ نظر انداز کرکے ہوا میں تحلیل یا زمین میں دفن کر رہی ہے ۔امت مسلمہ کی اس کے بارے میں مکمل سکوت مجموعی طور پر ایک مصیبت کے قریب تر ہونے کی وارننگ ہے جو ہم خود دیتے آرہے ہیں ۔جس طرح سے ہمارے بدن کی سستی کسی خفیہ بیماری کی نشانی اور کسی خطرناک حادثے کی گھنٹی ہوتی ہے بعینہ ملت کی عافیہ کی رہائی میں خاموشی ایک نشانی ہے ہماری ناکامی ، غلامی اور مستقبل میں سخت رسوائی کی!

اپنا تبصرہ بھیجیں